دعا

اصول بنانے والے نے اصول کو معطل کرنے کا بھی اصول بنایا ہے۔ جس نے آگ کو حدت عطا فرمائی، اسی نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ٹھنڈی ہوجائے، سلامتی کے ساتھ ابراہیمؑ پر… منشا کا اصول الگ ہے… وہ چاہے تو کیا سے کیا ہوجائے… وہ اپنے اصولوں کا کیوں پابند ہوگا…! قانون تو یہ ہے کہ محنت کرنے سے رزق ملے گا، لیکن جب دینے والا چاہے تو بے حساب دے دیتا ہے۔ بے پناہ دیتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان کے خزانوں کا مالک ہے اور کسی کے آگے جوابدہ نہیں، نہ اس کا کوئی آڈٹ کرسکتا ہے۔
کائنات کا کوئی اصول ایسا نہیں، جس میں استثنیٰ نہ ہو۔ علم ہی کو لیجیے۔ علم مکتب سے ملتا ہے۔ اساتذہ سے ملتا ہے۔ لیکن یونیورسٹی شیکسپیئر کا علم تو دے سکتی ہے، شیکسپیئر بننے کا علم نہیں دے سکتی۔ اقبالؒ نے شرق و غرب کے علوم حاصل کرلیے۔ اس کی روح میں تشنگی بڑھ گئی… اب شرق و غرب کے علوم کے بعد کیا ہے؟ ’’بعد‘‘ تو صرف اصول سے باہر کی کائنات کا علم ہے۔ وہ علم جو کتاب میں نہیں۔ وہ صرف ’’جنون‘‘ سے ملتا ہے، نظر سے ملتا ہے، نصیب سے ملتا ہے۔ قانون سے باہر، اصول سے پرے، الگ، نرالا، انوکھا علم، انوکھی کائنات کی دریافت کا علم، ایسی کائنات جہاں عمل معطل ہے اور علم ہی علم ہے۔ جہاں صرف مشاہدہ ہے، حیرت ہے، نیرنگی ہے، کوئی اصول نہیں۔ یہ ظاہری کائنات اس کائنات کے مقابلے میں بہت ہی مختصر ہے۔ وہ کائنات منشا کی کائنات ہے۔ عنایات کی کائنات ہے۔ عطا کی کائنات ہے۔ ایسی کائنات، جہاں وقت ساکن ہوجاتا ہے اور جلوے متحرک رہتے ہیں۔ جہاں دن رات، ماہ و سال نہیں ہوتے۔ وہاں صرف محویت اور جلوے ہوتے ہیں۔ علم ہی علم ہوتا ہے اور تعلیم نہیں ہوتی۔ اس کائنات میں دنیا کو علم عطا کرنے والے ہوا کرتے ہیں۔ یہ علم ’’لدنی‘‘ والوں کی کائنات ہے۔ اس کائنات میں محنت نہیں، محبت کام آتی ہے، ادب کام آتا ہے، نصیب کام آتا ہے۔
نصیب کے حق میں بات کرنے سے کوشش کے حق میں بات کرنے والے خفا ہوجاتے ہیں۔ جب تک کوشش کی محرومیاں سمجھ میں نہ آئیں، نصیب کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ کوشش کامیاب ہوجائے تب بھی بے نصیب آدمی ناکام ہوجاتا ہے۔ کامیاب کوششوں نے بڑی ویرانیاں چھوڑی ہیں، اس دنیا میں۔ کوشش کو اگر ہاتھی کہہ لیا جائے تو نصیب ابابیل کی کنکری ہے۔ یہ سلسلہ بہت طویل ہے۔ یہ داستان بہت لمبی ہے۔
بہرحال مقصد یہ ہے کہ ظاہری کائنات جس میں کوشش اور اصول پر زور دیا جاتا ہے، اس باطنی کائنات سے قدرے مختلف ہے۔ جہاں نصیب اور نصیب والوں کی جلوہ گری ہے۔اس کائنات کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ وہ باطنی کائنات دعائوں کی کائنات ہے۔ دعا نصیب ساز ہوتی ہے۔ دعا ناممکنات کو ممکن بنادیتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ زمانے بدل جاتے ہیں۔ ناتواں توانا ہوجاتے ہیں۔ شکست فتح میں بدل جاتی ہے اور معزول سرفراز کردیے جاتے ہیں۔ وہ کائنات روح کی کائنات ہے، نشانیوں کی کائنات ہے، جلووں کی کائنات ہے، محبوب کے انکشاف کی کائنات ہے، رضا اور منشا کی کائنات ہے۔ وہ مخفی کائنات اسی ظاہری کائنات کے اندر ہے۔ وہاں خاموشی بولتی ہے۔ وہاں درخت باتیں کرتے ہیں۔ پہاڑ پیغام رسانیاں کرتے ہیں۔ دریا علامتیں بن جاتے ہیں اور سمندر حقیقت کا روپ اختیار کرجاتے ہیں۔ اس کائنات میں دل والے، روح والے، حق والے داخل کیے جاتے ہیں۔ اس کائنات کا سفر راتوں کے پچھلے پہر طے ہوتا ہے۔ اس کائنات میں اشکوں کے چراغ جلتے ہیں۔ روشنی ہی روشنی، نور ہی نور، جلوے ہی جلوے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اصول اور قانون تبدیل ہوجاتے ہیں۔ وقت کے فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ غیب حاضر، اور حاضر غیب ہوجاتا ہے۔ اسی کائنات میں موت کا عمل معطل ہوجاتا ہے۔ دور کی آواز قریب سے سنائی دیتی ہے۔ یہ مخفی کائنات اللہ کے خاص بندوں کی کائنات ہے۔ ان لوگوں کی جن پر اس کا فضل ہوتا ہے۔ یہ کائنات کوشش سے نہیں، نصیب سے میسر آتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ انسان آگ لینے جائے اور پیغمبری لے آئے… یہ کیسی کائنات ہے!
یہ باطنی کائنات سب سے پہلے اپنے باطن میں دریافت ہوتی ہے اور پھر یہ کائنات پھیلتی ہوئی کُل کائنات بن جاتی ہے۔ یہاں کے اصول عجیب، یہاں کے قوانین نرالے ہیں۔ یہاں منزلیں نہیں ہوتیں، صرف سفر ہوتا ہے، مسلسل سفر۔ ایک مقام کے بعد ایک اور مقام انتظار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں دیکھنے کے لیے آنکھ بند کرنا پڑتی ہے اور سننے کے لیے کان درکار نہیں۔ یہاں سماعت دل کے کان سے ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اس کائنات میں داخل کردیا جاتا ہے۔ یہ کائنات نظاروں کی کائنات ہے۔ ایثار کی کائنات ہے۔ دوسروں کے دکھ بانٹنے کی کائنات ہے… اس کائنات کے معتبر نام وہی ہیں جو دوسروں کے غمگسار ہیں… دوسروں کی تکالیف کم کرنے والے… خوشیاں دینے والے لوگ اس کائنات کے خوش نصیب ساکن ہیں۔ وہ خوش نصیب جن کے پیش نظر انسان کی زندگی کو آسان بنانا ہے، جو ہمہ حال منشائے محبوب اور آوازِ دوست پر لبیک کہتے ہیں۔
اس کائنات کا دستور عجیب ہے۔ یہ باطنی کائنات اتنی پراسرار ہے جتنا انسان کا اپنا باطنی وجود… باطن میں ارادہ ہوتا ہے اور ظاہر اس ارادے کے مطابق عمل پیرا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مثلاً ذہن یا دماغ ارادہ کرے تو اعضا و جوارح حرکت شروع کردیتے ہیں۔ اگر دل میں محبت آئے تو زبان میں شائستگی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اگر باطن میں غصہ آئے تو ظاہری وجود کے چہرے پر تیوری اور نفرت کا اظہار ہونا لازمی ہے۔ باطن مصروفِ عبادت ہو تو ظاہر معصومیت کا پیکر بن جاتا ہے۔
اس طرح یہ پراسرار باطنی کائنات صاحبانِ ارادہ کی کائنات ہے۔ وہاں جو فیصلے ہوتے ہیں، وہ ظاہر کی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ وہاں دعائیں ہوتی ہیں اور ظاہر میں تاثیریں میسر آتی ہیں۔ وہاں ارادے بدلتے ہیں اور یہاں زمانے بدل جاتے ہیں۔ وہاں مزاج بدلتے ہیں تو یہاں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ بس وہاں ’’کن‘‘ کی جلوہ گری ہے تو یہاں ’’فیکون‘‘ کی کارفرمائی ہے۔ یہ پراسرار لوگوں کی پراسرار کائنات سب کے سامنے ہے، لیکن یہ سب پر آشکار نہیں ہوتی۔ اس میں داخل ہونے کا کوئی حتمی اصول نہیں۔ بس نصیب اور منشائے الٰہی ہے۔ جس کا نصیب بیدار ہوگیا، وہ صاحبِ اسرار ہوگیا… جن کو منشائے الٰہی میسر ہو، انہیں آہِ سحرگاہی میسر ہوتی ہے، اور آہِ سحرگاہی اس کائنات اور باطنی کائنات میں رابطے کا بڑا معتبر ذریعہ ہے۔
(”حرف حرف حقیقت“۔۔۔واصف علی واصفؔ)

بیادِ مجلس اقبال

اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی

علامہ دیکھتے ہیں کہ مغرب سے مرعوب مسلمان جب وہاں کے مفکروں کو ذہنوں پر سوار کرکے اُن کے افکار کی بھیک مانگتے ہیں تو وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ کائنات کی سب سے بڑی سچائی تو ان کے پاس ہے، یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید، جو خالق و مدبر کائنات نے عطا فرمائی ہے اور حضور رحمت اللعالمینؐ جیسی معلم ہستی کی عطا کردہ حکمت و ہدایت ان کے پاس ہے، مگر وہ اپنی حقیقت اور مقامِ بلند سے ہی بے خبر ہیں۔ یعنی اپنی خودی (حقیقت) کا انہیں اندازہ نہیں کہ وہ اصلاً کتنے خوش نصیب ہیں۔