رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان المبارک جاری ہے، لیکن اس حال میں کہ سماجی اور معاشی سرگرمیاں تو معطل ہیں ہی، مسجدیں اور عبادت گاہیں بھی نمازیوں اور عبادت گزاروں کے لیے بند کردی گئی ہیں۔ ماہِ رمضان کو اللہ نے اپنی سب سے پسندیدہ عبادت روزے کے لیے اس لیے منتخب کیا تھا کہ اس ماہ میں اس نے انسانوں کے لیے اپنی آخری کتابِ ہدایت قرآن مجید کے نزول کا آغاز کیا تھا۔ نزولِ قرآن کا آغاز خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اعلان بھی تھا۔ فرائضِ نبوت کو انجام دینے کے لیے حضور ختمیِ مرتبتؐ کو سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ دنیا کو خبردار کریں کہ اگر انسانوں نے اپنے جرائم اور گناہوں سے توبہ نہیں کی تو اللہ کا عذاب اور اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ ماہِ رمضان میں روزوں کی فرضیت کی حکمت بھی یہی بتائی گئی ہے کہ اس طرح توقع کی جاتی ہے کہ تم صاحبِ تقویٰ یعنی اللہ سے ڈرنے والے، ظلم اور گناہوں سے بچنے والے صاحبِ کردار فرد بن سکتے ہو۔ جہاں ماہِ رمضان کی اہمیت روزے کی عظیم عبادت کی وجہ سے ہے، وہیں اس کا تعلق قرآن مجید کے نزول اور اس کے مقصد سے بھی ہے۔ نزولِ قرآن کا بنیادی مقصد انسانوں کی ہدایت ہے۔ لیکن قرآن سے ہدایت وہی حاصل کرسکتا ہے جو صاحبِ تقویٰ ہو۔ تقویٰ کا مقام انسان کا قلب ہے۔ یہ رمضان اس پیغام کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے سر پر سایہ فگن ہوا ہے کہ یاد رکھو اللہ کی رحمت کسی بھی وقت اس کے غضب اور ناراضی میں بدل سکتی ہے۔ اِس مرتبہ ماہِ رمضان میں مسجدوں اور عبادت گاہوں کی بندش کیا اللہ کی ناراضی کی علامت نہیں ہے؟ اس میں سوچنے اور غور وفکر کرنے والوں کے لیے عبرت کی نشانیاں ہیں۔ ابھی تک اس بات کی کوئی یقین دہانی سامنے نہیں آئی ہے کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی کورونا کی وبا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے مقابلے میں عالمی ادارۂ صحت نے ایک بار پھر متنبہ کیا ہے کہ کورونا کا خاتمہ ابھی دور ہے۔ یہ 100 میٹر کی نہیں، میراتھن ریس ہے جس کا اختتام ابھی نظروں سے اوجھل ہے، دنیا بھر کی فلاحی تنظیموں اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ عالمی ادارۂ صحت کے ایک ذمے دار ڈاکٹر ڈیڈروس کا احساس یہ بھی ہے کہ ’’لوگ کورونا کی سنگینی کو سمجھ نہیں رہے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اگر لاک ڈائون کی پابندیوں کو عجلت میں ختم کردیا گیا تو اس وبا کے پھیلائو میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ جب تک اس وبا کے خلاف ویکسین دریافت نہیں ہوتی، تب تک کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر کا طریقہ اپنانا ہوگا۔‘‘
عالمی سطح پر کورونا کی وبا کے بارے میں جو اعداد و شمار آرہے ہیں وہ انتہائی ہولناک ہیں۔ اب تک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 30 لاکھ 50 ہزار کی حد پار کرچکی ہے، جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2 لاکھ 13 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ امریکہ اور یورپ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے براعظم ہیں۔ روس میں بھی متاثرین کی تعداد میں تیزی آگئی ہے، 24 گھنٹے میں 6411 نئے مریض سامنے آئے ہیں جن میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 72 ہے۔ امریکی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق روس نے کورونا کے متاثرین میں ایران اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے اعداد و شمار بھی اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان کورونا سے متاثر ہونے والے ممالک میں 48 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں بھی متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں 24 گھنٹوں کے دوران مزید 23 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس سماجی اور سیاسی بحران نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، بڑھتی ہوئی اموات نے دنیا بھر کے ہوش گم کردیے ہیں۔ علاج کیا ہے ’’لاک ڈائون‘‘… اور لاک ڈائون کے ہولناک نتائج معاشی بحران کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ ابھی تک تو عالمی طاقتوں، عالمی اداروں اور حکومتوں کی جانب سے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جارہا ہے، لیکن کیا یہ حقیقی علاج ہے؟ ساری سائنسی تحقیق قیاس آرائی اور ظن و تخمین سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مختلف منصوبے پیش کیے ہیں۔ خدمتِ خلق کے ادارے بھی رفاہی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، لیکن یہ اصل علاج نہیں ہے۔ ذمہ دار اداروں اور افراد کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ سخت لاک ڈائون کے سوا کوئی علاج نہیں ہے۔ اگر اس کی مدت کا تعین ہوجائے تو لاک ڈائون برداشت کیا جا سکتا ہے، لیکن مدت کی ضمانت کوئی دینے کو تیار نہیں۔ یہی حشر مستقبل میں ریلیف پیکجوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ اللہ سے رجوع کیا جاتا۔ ماہِ رمضان کے مبارک ایام رجوعِ الی اللہ کے لیے ماحول پیدا کرنے میں مددگار ہوتے ہیں، لیکن ہماری حکومتوں نے مسجدوں کو بند کرانے میں پورے جوش و جذبے کا مظاہرہ کر ڈالا ہے۔ نماز باجماعت کو معطل کرنے کے لیے جتنی محنت کی گئی ہے، ہمارے اداروں نے جرائم کے خاتمے کے لیے اتنی محنت نہیں کی۔ جب بھی کسی جرم کے انسداد کے لیے رائے عامہ کا دبائو پڑتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں فلاں مافیا پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اس ماہ میں سماعتِ قرآن ہوتی ہے، اللہ کی کتاب جو ہدی اللناس ہے، یعنی تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے۔ قرآن کی تلاوت، سماعت، قیام اللیل کی سرگرمیاں اللہ کی رحمت کو جوش دلانے کا سبب بن سکتی تھیں، لیکن ہمارے حکمرانوں نے ان مواقع کو مسدود کرکے خدا کو ناراض کرنے کا سامان کیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب تک کورونا کی وبا مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتی، معاشی بحالی بھی ممکن نہیں ہے۔ لاک ڈائون علاج نہیں بلکہ بجائے خود بحران اور فساد ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اس حکمت کی ضرورت ہے جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن رشوت خور، سود خور، مالِ حرام سے اپنے جسم کو پرورش کرنے والے ایسا ذہن کہاں سے لائیں گے!