سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی عمل داری کا یہ عالم ہو تو وبا پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟
عالمی ادارۂ صحت، اسی طرح پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور دوسری ڈاکٹر تنظیموں سمیت ملک کے نامور ڈاکٹروں نے پاکستان کے اندر مکمل لاک ڈائون پر زور دیا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر اس خوفناک صورتِ حال میں بالخصوص عوام کی جانب سے سنگینی کا احساس دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ ملک کے باقی صوبوں اور شہروں میں کس قدر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرایا جارہا ہے یہ تو وہاں کے لوگ بخوبی جانتے ہوں گے، مگر سچی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے اندر حکومت اور مقامی انتظامیہ و مشنری لاک ڈائون یا عوام کو گھروں تک محدود کرنے یا دوسرے اقدامات قابلِ عمل بنانے میں کامیاب نہیں ہے۔ کوئٹہ سمیت صوبے کے اندر مقامی سطح پر وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، تادم تحریر کورونا کے مریضوں کی تعداد 780 کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ اموات کی تعداد 13 ہوگئی ہے۔ پشتون خوا میپ کے مرکزی رہنما سابق صوبائی وزیر مصطفیٰ خان ترین کورونا لاحق ہونے سے انتقال کرگئے۔ مرنے والوں میں ایک ہیلتھ ورکر بھی شامل ہے۔ غرض ڈاکٹر، پیرامیڈیکس، سول بیوروکریسی، ضلعی انتظامی افسران و دیگر کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔ اگر ٹیسٹنگ کی سہولیات بڑے پیمانے پر موجود ہوں تو مرض میں مبتلا لوگوں کی حقیقی تعداد یقیناً ہوشربا ہوگی۔ حکومت دستیاب وسائل کے تحت کام کررہی ہے جسے ڈاکٹر قطعی ناکافی سمجھتے ہیں۔
کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں لاک ڈائون محض علامتی یا نام کی حد تک قائم ہے۔ رمضان سے قبل تو اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ دکانیں کھل گئی ہیں، لوگ آزادانہ بغیر احتیاطی تدابیر خرید و فروخت میں مشغول رہتے ہیں۔ وسطی شہر کی چند شاہراہوں کے اندر کاروبار ضرور بند ہیں، مگر اطراف میں زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہے۔ وسطی شہر کی چند مساجد میں اگرچہ نمازیوں کی تعداد کم رہتی ہے، مگر وہاں بھی احتیاط یکسر نظرانداز ہے۔ جبکہ اطراف اور نواحی علاقوں میں مساجد کے اندر کسی بھی طرح کا احتیاطی بندوبست نہیں ہے، نہ ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد محدود کی جاسکی ہے۔ مساجد کے خطیب، معاونین اور کمیٹیاں کوئی کردار ادا نہیں کررہیں۔ پاکستان کے چوٹی کے علماء اس ضمن میں شرعی نکتہ نظر دے چکے ہیں، مگر مقامی سطح پر مولوی حضرات بے خبری اور غیر ذمہ دارانہ طرزِعمل اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران کے مجتہدین نے کورونا وبا سے متعلق محکمہ صحت اور ڈاکٹروں کی رائے اور احکامات کو حجت قرار دیا ہے، اور یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی کی لاپروائی کی وجہ سے دوسرا بیمار ہوتا ہے تو وہ اس کی بیماری کا ذمہ دار ہے، اور اگر کسی کی بے احتیاطی کی وجہ سے دوسرا مر جاتا ہے تو وہ قاتل ہے اور اسے دیت دینی ہوگی۔ یقیناً اس صورتِ حال میں علماء، سیاسی قائدین، رہنمائوں اور کارکنوں کا کردار اہم اور قابلِ تقلید ہے۔
بہرحال بلوچستان کے اندر حکومت کو سختی کرنی چاہیے تھی جو بشمول کوئٹہ کسی جگہ دکھائی نہ دی۔ بین الصوبائی اور بین الاضلاعی آمدورفت پر تو کہنے کی حد تک پابندی عائد کی گئی ہے، مگر عملاً ایسا کچھ نہیں ہے۔ بلوچستان کے اندر، بالخصوص کوئٹہ میں دوسرے صوبوں اور اضلاع سے لوگ بلا روک ٹوک اور بغیر احتیاطی تدابیر داخل ہورہے ہیں۔ ماہ مارچ میں سندھ کے اضلاع جیکب آباد، شکارپور، سکھر وغیرہ سے بڑی تعداد میں لوگ اور خاندان گرمیوں کا سیزن بلوچستان کے ٹھنڈے علاقوں میں گزارنے پہنچ جاتے ہیں۔ چناں چہ لاک ڈائون اور پابندی کے باوجود اِس بار بھی ہزاروں لوگ سندھ سے داخل ہوگئے۔ نیز بلوچستان کے جعفرآباد، نصیرآباد، صحبت پور، جھل مگسی، ڈیرہ بگٹی، سبی، کچھی اور دوسرے گرم علاقوں سے بھی ہزاروں لوگ دن کی روشنی میں ٹرکوں، ٹریکٹر ٹرالیوں، مزدا گاڑیوں اور دوسری سواریوں میں مع مال مویشیوں کے کوئٹہ میں داخل ہورہے ہیں، اور آمد کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ آنے والوں میں خانہ بدوش بھی شامل ہیں۔ گویا اپنے سالانہ معمول کے مطابق یہ لوگ گرمیوں کے چند ماہ گزارنے پہنچے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان افراد کو کسی قسم کی روک ٹوک اور دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی عمل داری کا یہ عالم ہو تو وبا پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت23 اپریل کو اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ لاک ڈائون کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو میاں غنڈی قرنطینہ مرکز منتقل کیا جائے گا جہاں ان کا کورونا ٹیسٹ ہوگا۔ گویا یہ بھی ایک ناقابلِ عمل فیصلہ ہے جو محض باتوں کی حد تک رہ گیا۔ حکومت نے رینڈم ٹیسٹنگ کا آغاز کیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ اس طریقِ کار کو کس قدر مؤثر اور قابلِ عمل بنایا جاتا ہے، اور اس کا تسلسل برقرار رکھا جاتا ہے یا نہیں؟ حکومت خلاف ورزی کرنے والوں کو قرنطینہ منتقل کرنے میں سنجیدہ یا اس پر قادر ہوتی تو دوسرے شہروں اور صوبوں سے بڑی تعداد میں لوگ داخل نہ ہوتے۔ اوّل تو ان لوگوں کو کسی صورت آنے نہ دیا جاتا، دوئم ان کا طبی معائنہ لازم قرار دیا جاتا۔ ہم نے مختلف اضلاع کی انتظامیہ کو اس جانب توجہ دلائی مگر اُن کی جانب سے کہا جاتا کہ لوگوں کو آمدورفت کی اجازت نہیں دی جارہی۔ ظاہر ہے یہ انتظامی افسران و اہلکار جھوٹ بول رہے ہیں، اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ صوبے یا دوسرے اضلاع سے داخل ہونے والے لوگوں کو رشوت لے کر آنے دیا جاتا ہے۔
افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کورونا کے مریض کی پہچان ہونے کے بعد کانٹیکٹ ٹریسنگ پر بھی قادر نہیں ہے۔ مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ میں رہنے کا کہہ کر حکومت خود کو اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ کرلیتی ہے۔ ایسے بھی کیس رپورٹ ہوئے ہیں کہ گھریلو قرنطینہ میں کورونا کے پازیٹو افراد کھلم کھلا گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے میں آزاد رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ صرف اُن کے اہلِ خانہ بلکہ اڑوس پڑوس میں بھی دیگر افراد متاثر ہوئے۔ ٹیسٹ کے لیے ہسپتال جانے والے ایسے افراد کو بھی جن میں کورونا کی بیشتر علامات پائی جاتی ہیں، نمونے لے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس طرح رپورٹ آنے تک متاثرہ شخص کئی دیگر افراد کو وائرس منتقل کرچکا ہوتا ہے۔
مریضوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے، عالم یہ ہے کہ ہسپتالوں کے اندر مریض رکھنے کی گنجائش ختم ہورہی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر یاسر خان اچکزئی نے بھی اس بابت نشاندہی کی ہے، اور حکومت سے کورونا کی تیزی سے مقامی سطح پر منتقلی کے پیش نظر پندرہ دن کے لیے کرفیو لگانے کی تجویز دی ہے۔ یقینا حکومت اوائل ہی میں کرفیو کے لیے فوج طلب کرتی تو حالات پر قابوپایا جاسکتا تھا۔