اطلاعات کے مطابق طویل انتظار کے بعد افغانستان سے طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے 713 افراد کی اسکریننگ کے بعد41 افراد میں کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد صوبے میں کورونا متاثرین کی تعداد میں مزید اضافے کے ساتھ قبائلی اضلاع خاص کر سرحدی ضلع خیبر کے لوگوں میں بڑے پیمانے پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یاد رہے کہ حکومت نے پاک افغان بارڈر پچھلے کئی دنوں تک بند رکھنے کے بعد اب وقفے وقفے سے وہاں پھنسے ہوئے پاکستانی شہریوں کو… جن میں ایک بڑی تعداد ڈرائیوروں اور دیگر مزدور طبقے کی ہے… طورخم کے راستے پاکستان میں داخلے کی اجازت دیتے ہوئے ان کے لیے لیوی ہیڈ کوارٹر واقع شاکس جمرود اور ڈگری کالج جمرود میں دو الگ الگ قرنطینہ سینٹر بنائے ہیں، جب کہ متاثرہ افراد کے لیے لنڈی کوتل ہسپتال میں آئسولیشن سینٹر بنایاگیا ہے۔
دریں اثناء کورونا کے خلاف جزوی لاک ڈائون کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ساتھ صوبے میں ہلاکتوں کا سلسلہ بھی تیز ہوگیا ہے۔ پشاور اور نوشہرہ میں گزشتہ روز 6 مزید افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد جہاںصوبے میں ہلاکتوں کی تعداد 74 اور متاثرہ مریضوں کی تعداد 1245کے ہندسوں کو عبور کرچکی ہے، وہاں پشاور کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے کراچی اور لاہور کے بعد ملک کا تیسرا بڑا متاثرہ شہر بن کر سامنے آیا ہے۔ لاک ڈائون میں نرمی کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق بعض حلقے اس اعلان کو جہاں ایک بڑا رسک قرار دیتے ہوئے اسے آگ سے کھیلنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں، وہاں اس نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ اگر لاک ڈائون مزید چند دن برقرار رہتا تو بڑے پیمانے پر غریب اور مزدور طبقے کے معاشی قتل عام کا خدشہ تھا۔ بظاہر ان دونوں باتوں میں خاصا وزن نظر آتا ہے، لیکن چونکہ ایسے نازک مواقع قوموں کی زندگیوں میں کم کم ہی آتے ہیں اس لیے جن اقوام میں ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے، اور جن اقوام کو ایسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل اور مخلص قیادت دستیاب ہوتی ہے وہ قومیں ان بحرانوں سے باآسانی نمٹ لیتی ہیں، لیکن ہمارا دامن چونکہ ان خصوصیات سے خالی ہے، اور ہم ان نازک حالات میں بھی چونکہ نہ تو سیاست سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی قومی لحاظ سے کوئی ایک متفقہ مؤقف اپنانے میں سنجیدہ ہیں جس کی زیادہ تر ذمہ داری یقیناً وزیراعظم عمران خان اور اُن کی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت نے تعمیراتی سیکٹر سے متعلق ادارے کھولنے کا فیصلہ یقیناً خوب سوچ سمجھ کر اور تمام خدشات کو مدنظر رکھ کر ہی کیا ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ نے ایک دفعہ ایک سیکٹر کو اجازت دے دی تو آپ کے پاس جادو کی ایسی کون سی چھڑی ہے جس کے ذریعے آپ دوسرے شعبوں سے وابستہ لاکھوں لوگوں کوگھروں میں مقید رہنے پر مجبور کرسکیں گے؟ حکومت نے جن اداروں کوکھولنے کا فیصلہ کیا ہے اس فہرست پر اگر نظر دوڑائی جائے تو اس میں سوائے ایجوکیشن سیکٹر کے شاید ہی کوئی شعبہ ایساہوگا جس کی بلا واسطہ یا بالواسطہ اجازت اس فہرست میں شامل نہیں ہوگی۔اسی طرح جن دیگر شعبوں پر لاک ڈائون کی تلوار لٹکائے رکھنے کا ناقابلِ فہم فیصلہ کیاگیا ہے اس پر ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں شدید اضطراب اور ردعمل پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ اسی طرح کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر کی پہلے ہی سے جو دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں اب حکومتی اجازت کے بعد جس دھڑلے اور بڑے پیمانے پران حفاظتی تدابیر کو پامال کیاجارہاہے اس کا عکس ہم ان دوتین دنوں میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔سڑکوں پر ٹریفک جام اور شہر کے مختلف بازاروں میں لوگوں کے امڈ آنے اور ان کے جم غفیر کی تصاویر اوراس ڈھٹائی کا عملی مشاہدہ چیخ چیخ کر اس محدود اور مشروط اجازت کا منہ چڑاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔عجلت اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیے گئے اس فیصلے سے یوں لگتا ہے کہ بعض لوگ محض اپنی انا کی تسکین اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے یہ عاجلانہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔