سیاسی نظام جمہوریت سے زیادہ ایک مخصوص گروہ کی طاقت کا کھیل بن گیا ہے
پاکستان میں حکمرانی کا نظام ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ فوجی حکمرانی ہو یا سیاسی و جمہوری نظام حکمرانی… دونوں تجربات عوامی توقعات، خواہشات اور قانون کی حکمرانی کے تابع نہیں بن سکے۔ حکمرانی کے نظام کی عدم شفافیت کی وجہ کوئی ایک فرد یا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے بہت سے عوامل ہیں۔ نظام کی درستی محض خواہش ، سیاسی نعرے بازی اور جذباتی طرز کی سیاست سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے سیاسی سمجھ بوجھ، فہم وفراست، تدبر، صلاحیت، اور سب سے بڑھ کر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ درکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ نظام کی اصلاح تو کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ نظام کو قانون کے تابع کرنے کے بجائے اپنے تابع کرکے ادارہ جاتی نظام کو بھی خراب کرتا ہے اور اس عمل کو ذاتی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے کورونا وائرس سے نمٹنے میں مشکلات کے تناظر میں سوموٹو ایکشن لیا اور معاملے کی سنگینی کا جائزہ لینے کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دیا۔ اس مقدمے میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس قاضی امین اور جسٹس عطا بندیال نے حکمرانی کے نظام کے تناظر میں چند بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں جن میں حکمرانی کے اسلوب، اندازِ حکمرانی، شفافیت، جوابدہی، صحت کے نظام کی تباہی، نگرانی کے نظام، افراد کی اہلیت، منتخب افراد کے مقابلے میں غیر منتخب افراد کی بھرمار جیسے مسائل شامل ہیں۔ بنیادی نکتہ یہی تھا کہ ہم ایک اچھے اور حکمرانی کے شفاف نظام سے عملی طور پر محروم نظر آتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کسی ایک حکومت یا فرد کی ناکامی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی، سماجی، انتظامی، معاشی اور قانونی نظام کی ناکامی سے جڑا مسئلہ ہے۔ ایک اچھا، قابل اور صلاحیت والا فرد بھی حکمرانی کے نظام کو سنبھال لے تو وہ اس روایتی، ظالمانہ، فرسودہ اور مافیاز کے شکنجے میں جکڑے نظام کو آسانی سے نہیں گرا سکے گا۔ کیونکہ جو بھی حکمران آئے گا اُسے انہی طاقت ور افراد، گروہ یا اداروں کے ساتھ مل کر اپنا نظام چلانا ہے۔ یہ نظام کسی بڑی سیاسی تبدیلی، شفافیت، جوابدہی اور احتسابی نظام کا نہ صرف مخالف ہے بلکہ طبقاتی بنیادوں پر ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی کے نظام کو تقویت دیتا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی فرد اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح کی بڑی تبدیلی کی بات کرے گا اُسے اس نظام کے اندر ہی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بدقسمتی سے یہاں سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور عوامی مفادات سے جڑے سیاست کے پہلو کمزور ہیں، یا ابھی بھی اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے سیاست کے نظام کی کمزوری چاہے وہ اس کے داخلی محاذ پر ہو یا خارجی محاذ پر… اس کا براہِ راست فائدہ ان ہی غیر جمہوری قوتوں یا طاقت سے جڑے اداروں کو ہوا ہے جو سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد خیال یہ تھا کہ اب حکمرانی کا نظام وفاق سے صوبوں، اور صوبوں سے اضلاع تک منتقل ہوگا تو حکمرانی کے نظام کی بھی مؤثر انداز میں اصلاح ہوسکے گی۔ کیونکہ 18ویں ترمیم کے بعد نظام کی درستی اور حکمرانی کے نظام میں شفافیت پیدا کرنے کی ذمہ داری عملی طور پر صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ صوبائی حکومتوں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمرانی کے نظام کی درستی کے لیے صوبوں سے اضلاع کی سطح پر 1973ء کے دستور کی شق140-Aکے تحت مقامی حکومتوں کے اداروں کو نہ صرف تیسری حکومت کے طور پر تسلیم کریں بلکہ ان کو مکمل طور پر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دے کر مقامی حکمرانی کے نظام کو مضبوط اورشفاف بنائیں۔ لیکن ہماری سیاسی وجمہوری قوتوں نے اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے نظام کو قبول کرنے سے عملی طور پر انکار کیا ہوا ہے۔
حکومت اور حزب اختلاف میں ایسی سیاسی قوتیں یا افراد غالب ہیں جو روایتی سیاست کے حامی ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ وہ اس روایتی سیاست کی بنیاد پر اپنے مفادات کو زیادہ تقویت دے سکتے ہیں۔ ان طاقت ور افراد نے حکمرانی کے نظام میں خود کو تنہا نہیں رکھا بلکہ طاقت کے دیگر اہم مراکز یا افراد کے ساتھ باہمی مفادات کو جوڑ کر اپنا ایک طاقت ور نظام بنالیا ہے جس کے سامنے ریاستی و حکومتی نظام بے بس ہے۔ حکومت کی ایک بڑی طاقت اس کی انتظامی مشینری ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں بیوروکریسی کہتے ہیں۔ اس بیوروکریسی میں بار بار کی سیاسی مداخلت، سیاسی بنیادوں پر افراد کی تقرریاں، من پسند افراد کو نوازنے اور مشکل پیدا کرنے والے افراد کو کھڈے لائن لگانے، میرٹ کے برعکس افراد کو اہم عہدے دینے کی وجہ سے یہ نظام اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ بیوروکریسی کا یہ نظام قانون کے تابع کم اور افراد کے تابع زیادہ ہوگیا ہے۔ جب بھی بیوروکریسی میں اصلاحات کی بات کی جائے تو روایتی بیوروکریسی یا اہلِ سیاست ان اصلاحات کی راہ میں ایک بڑی دیوار بن جاتے ہیں۔
سیاست، جمہوریت، پارلیمنٹ، سیاسی قیادت، عوامی نمائندوں، وزیروں، مشیروں کی فوج در فوج اور ان سب کو دی جانے والی انتظامی و مالی مراعات کے باوجود ہم ایک بہتر سیاسی نظام کی تشکیل میں بہت پیچھے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ سیاسی نظام جمہوریت سے زیادہ ایک مخصوص گروہ کی طاقت کا کھیل بن گیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کا داخلی سیاسی اور جمہوری نظام ہی یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ ہم سیاسی محاذ پر کہاں کھڑے ہیں، اورکس حد تک سیاسی جماعتیں اور قیادتیں خود ایک بڑی تبدیلی کے لیے تیار ہیں! اسی طرح یہاں عوامی یا اپنے مخصوص گروہ کے مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی ریاستی و حکومتی نظام میں اصلاح کرنے کے بجائے اپنی سیاسی بلیک میلنگ اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کام کرکے ریاستی نظام کو کمزور کرتی ہیں۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات کیوں نہیں ہوسکیں اورکون اس میں رکاوٹ ہے؟ ہمیں اس کا جواب اپنے سیاسی نظام ہی سے ملتا ہے جس میں پولیس کی مدد سے اپنی موجود سیاسی برتری قائم رکھ کر پولیس کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ نظام جس انداز میں چل رہا ہے اس کا سب سے بڑا نقصان عوام کو ہورہا ہے، اور اُن کا اس نظام یا حکمرانی سے جڑے طبقات سے اعتماد اٹھ رہا ہے یا کمزور ہورہا ہے۔ یہ نظام بنیادی طور پر اپنے اندر ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے، اور تبدیلی کا یہ عمل نہ تو روایتی سیاست سے ممکن ہے اور نہ ہی حکمرانی کے موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اس کی کوئی مؤثر اصلاح ممکن ہوگی۔ یہ نظام عملی طور پر غیر معمولی حالات کا شکار ہے، اور اس کا علاج بھی غیر معمولی اقدامات ہی کا متقاضی ہے۔ ریاست، حکومت اور حکمرانی کے پورے نظام کی ایک بڑی سرجری درکار ہے، اور یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوگا۔ سب فریقین کو ایک بڑی تبدیلی کے لیے خود کو بھی تیار کرنا ہوگا اور دوسروں کو بھی یہ کڑوی گولی ہضم کروانا ہوگی۔
اس کا ایک حل یہ ہے کہ اس وقت طاقت کے تمام مراکز یا فریق آپس میں بیٹھ کر موجودہ حالات کا تجزیہ کرکے مستقبل کی طرف پیش قدمی کریں۔ اہلِ سیاست، عدلیہ، طاقت کے دیگر مراکز اور اسٹیبلشمنٹ کو حکمرانی کے اس نظام کو مؤثر بنانے کا حل تلاش کرنا ہوگا، اور یہ عمل ایک بڑے سیاسی مکالمے اور ایک نئے سماجی یا عمرانی معاہدے کا تقاضا کرتا ہے۔ کورونا وائرس کے بعد کی جو دنیا آرہی ہیں اُس میں ویسے ہی بڑی تبدیلیاں سیاسی، سماجی، انتظامی، قانونی اور معاشی سطح پر پیدا ہوں گی۔ ہمیں بھی ان تبدیلوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی بہتری کے لیے سوچ بچار اور عملی اقدامات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس وقت قومی سطح پر ایک نئے نظام کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی چاہے اسی نظام کے اندر رہ کر، یا اس نظام سے باہر نکل کر جو کچھ بھی ہمیں کرنا پڑے۔کیونکہ یہ نظام جس انداز میں چلایا جارہا ہے، اچھی نیت کے باوجود یہ اچھے نتائج نہیں دے سکے گا، کیونکہ مسئلہ نظام کا ہے جو خود اپنے اندر تبدیلی چاہتا ہے، اور افراد کو نظام اور قانون کے تابع بناکر ہی ہم منصفانہ نظام قائم کرسکتے ہیں۔