کتب ِلغت کا تحقیقی و لسانی جائزہ

ڈاکٹر رؤف پاریکھ قابلِ تقلید مثالی شخصیت ہیں۔ ہمہ وقت مصروف، کچھ نہ کچھ لسانی، علمی، تحقیقی کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کی یہ تازہ کتاب بھی اردو لغات کے سلسلے میں ہے۔ انہوں نے راقم سے تذکرہ کیا تھا کہ اس پر میں نے بارہ سال لگائے ہیں۔ برصغیر میں بکھرے ہوئے اودھ پنچ کے شمارے جمع کرنا، پھر اس کتاب کو مرتب کرنا، اور جامع اللغات اور نوراللغات پر اودھ پنچ کی تنقید پر حواشی لکھنا پتہ ماری کا کام ہے جو انہوں نے بڑی عمدگی سے انجام دیا ہے۔ جناب افتخار عارف تحریر فرماتے ہیں:
’’اردو میں لغت نویسی پر یوں تو تحقیقی و تنقیدی کام ہوا ہے، لیکن اردو لغت نویسی کی طویل تاریخ اور متنوع اور کثیر لغات کے مدنظر یہ کام مقدار کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ کئی اردو لغات پر کام تشنہ ہے، اور بعض لغات کا تو ذکر ہی مفقود ہے۔ اگرچہ ادارہ فروغِ قومی زبان (سابقہ مقتدرہ قومی زبان) نے اس ضمن میں بھی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی، اور اردو لغات کے تحقیقی و تنقیدی جائزوں پر مبنی سات جلدوں پر محیط ایک سلسلہ شائع کیا۔ ان سات جلدوں میں اردو کی بعض اہم لغات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
لغات پر تنقید اور تبصرے کا ایک طویل اور قسط وار سلسلہ ’’اودھ پنچ‘‘ میں بھی چھپتا رہا تھا۔ اہلِ علم واقف ہیں کہ لکھنؤ سے 1877ء میں جاری کیے گئے اس ہفت روزہ رسالے نے اردو صحافت میں ایک نیا انداز متعارف کرایا، اور سیاسی اور سماجی موضوعات، نیز زبان و لغت کے مسائل پر بھی بہت کچھ شگفتگی و طنز کے پردے میں کہا۔ لیکن جہاں اودھ پنچ کا بہت سا رطب یابس نقش و نگار طاقِ نسیاں ہوگیا وہاں زبان و لغت کے کئی مسائل بھی فراموش ہوگئے، حالانکہ اس جریدے نے اردو کی دو اہم لغات ’’نور اللغات‘‘ اور ’’جامع اللغات‘‘ پر جو پُرمزاح اور علمی تبصرے شائع کیے تھے اُن میں لغت نویسی اور لغات سے متعلق کئی اہم نکات بھی شامل تھے۔
لغات پر یہ تبصرے تقریباً ایک سو (100) اقساط پر مبنی تھے، لیکن ’’اودھ پنچ‘‘ کا مکمل فائل یک جا شاید ہی کسی ایک کتب خانے میں دستیاب ہو۔ ان اقساط کی جمع آوری بجائے خود خاصا مشکل کام تھا، اور پھر ان کی تدوین اور ان پر حواشی لکھنے کا کام کوئی ایسا محقق ہی کرسکتا تھا جو نہ صرف لغت نویسی کے جملہ مباحث و مسائل سے واقف ہو بلکہ خود لغت نویسی کا عملی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ پروفیسر ڈاکٹر رئوف پاریکھ اردو لغت بورڈ کے مدیراعلیٰ کی حیثیت سے اردو کی بسیط ترین لغت کی تین جلدیں مرتب و شائع کرچکے ہیں، انگریزی اور اردو کی کچھ لغات کی تدوین کی ہے اور لغت نویسی پر تحقیق و تدوین کے کئی کام انجام دے چکے ہیں۔ چونکہ ان کا پی ایچ ڈی کا کام مزاح نگاری پر تھا، لہٰذا طنز و مزاح اور اودھ پنچ پر بھی ان کی نظر ہے۔ اسی سبب وہ اس نادر رسالے کی تقریباً پچھتر سال پرانی فائلیں تلاش کرنے اور ان میں لغت پر شائع شدہ تبصروں پر اقساط کو مدون و مرتب کرنے میں کامیاب رہے۔ ان اقساط پر ان کے حواشی میں لغت نویسی پر بھی اہم نکات عالمانہ انداز میں بیان ہوئے ہیں اور انہوں نے ’’اودھ پنچ‘‘ کی بعض انتہا پسندانہ آرا اور زبان و لغت کے محدود معیار پر بھی خوب گرفت کی ہے، البتہ انصاف کا دامن نہیں چھوڑا اور ’’اودھ پنچ‘‘ نے جہاں ان لغات کی اغلاط کی درست نشان دہی کی ہے وہاں پروفیسر پاریکھ نے اسے سراہا بھی ہے۔
امید ہے کہ یہ کام نہ صرف لغت نویسوں کے لیے رہنما ثابت ہوگا بلکہ اردو لغت نویسی پر تحقیق کو بھی مزید آگے بڑھائے گا، اور اس موضوع پر تحقیقی و تنقیدی کام کرنے والے اس سے روشنی حاصل کریں گے۔ اس طرح اردو لغت نویسی کے معیار کو بلند کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ادارہ فروغِ قومی زبان اس اہم کتاب کو پیش کرتے ہوئے مسرت محسوس کررہا ہے‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے۔ جلد بندی ناقص ہے۔ قیمت نہایت مناسب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب مرتب کرنے میں جتنی محنت کی ہے ان کو دوسری پی ایچ ڈی کی ڈگری دینی چاہیے۔