ابوسعدی
حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ ایک آدمی سفر کررہا تھا۔ اُس نے سوچا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، پیغمبرِ خدا سے ایسا عمل سیکھ لینا چاہیے جس سے پتھر سونا بن جائے اور مُردہ زندہ ہوجائے۔
’’یا حضرتؑ مجھے بھی کوئی ایسا نسخہ دے دیں جس سے میری دنیا سنور جائے اور میں پڑھ کر پھونک ماروں تو مُردہ زندہ ہوجائے‘‘۔
حضرت عیسیٰؑ اُس کی اس لب کشائی پر بڑے حیران ہوئے کہ اس بیمار اور مُردہ شخص کو اپنا غم نہیں کہ میری رفاقت سے اپنے مُردہ دل کا علاج کرلے، یہ تو ایک دن میں ہی تاج و تخت کا مالک بننا چاہتا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا:
’’چپ رہ، یہ تیرا کام نہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے بڑی منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں۔ یہ قوت تو اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک عمر روح کی آلودگیوں کو پاک کرتے گزر جاتی ہے۔ اگر تُو نے ہاتھ میں عصا پکڑ بھی لیا تو کیا ہوا، اس سے کام لینے کے لیے تو موسیٰؑ کا ہاتھ چاہیے۔ ہر شخص عصا پھینک کر اژدھا نہیں بناسکتا اور نہ پھر اژدھے کو عصا بناسکتا ہے‘‘۔
اس شخص نے کہا: ’’اگر آپؑ مجھے یہ اسرار و رموز نہیں بتانا چاہتے تو نہ سہی، میری یہ عرض قابلِ پذیرائی نہیں تو میرے سامنے مُردہ زندہ کرکے دکھا دیجیے‘‘۔
راستے میں ایک گہرے گڑھے میں کچھ ہڈیاں دیکھیں تو عرض کرنے لگا ’’یاحضرت! ان پر دم کرکے پھونکیے!‘‘
اس شخص کے اصرار پر حضرت عیسیٰؑ مجبور ہوگئے، انہوں نے ہڈیوں پر نامِ خدا پڑھ کر پھونک ماری۔ یہ ہڈیاں دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوفناک سیاہ شیر کی صورت اختیار کرگئیں۔ شیر چھلانک لگا کر گڑھے سے نکلا اور اس شخص پر حملہ آور ہوا اور اسے فوراً ہلاک کردیا۔
حضرت عیسیٰؑ نے شیر سے دریافت کیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟
شیر نے عرض کیا کہ یا حضرتؑ وہ آپ کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا تھا۔
حضرت عیسیٰؑ نے اس سے پوچھا کہ ’’تُو نے اس کا خون کیوں نہیں پیا؟‘‘
اس نے کہا: ’’ایک تو یہ آپؑ کا بے ادب اور گستاخ تھا۔ دوسرا اب اس دنیائے آب و گل کا رزق میری قسمت میں نہ تھا۔‘‘
درسِ حیات: بے وقوف لوگ اپنے اصرار اور ناشائستہ حرکات سے پریشانی کو دعوت دیتے ہیں۔ انبیائے کرام علیہم اجمعین کے بے ادب کو جانور بھی برداشت نہیں کرتے۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔
(مولانا جلال الدین رومی، حکایاتِ رومیؒ)
فضیلؒ اور ہارون
ایک مرتبہ ہارون الرشید حضرت فضیلؒ بن عیاض (803ء) کی خدمت میں گئے اور کہا کہ مجھے کچھ نصیحت کیجیے۔ فرمایا:
”اے ہارون! اللہ سے ڈر اور اپنے جسم کو جہنم کی آگ سے بچا، اگر تیری وسیع سلطنت میں ایک انسان بھی رات کو بھوکا سویا تو تجھ سے مواخذہ کیا جائے گا۔ جب کوئی شخص اللہ سے دنیا کی کوئی چیز مانگتا ہے تو اسے نعمتوں میں سے دی جاتی ہے جو آخرت میں اسے ملنا تھیں۔ دنیا میں بے عیب دوستوں کی تلاش نہ کر ورنہ دوستوں سے محروم رہ جائے گا۔ دو عادتیں انسان کو ڈبو دیتی ہیں: بہت کھانا اور بہت سونا۔ اگر اللہ مجھ سے کہے کہ تیری صرف ایک دعا قبول کروں گا تو میں بادشاہ کی بہتری کے لیے دعا مانگوں گا، کیوں کہ بادشاہ کی درستی و بہتری سارے جہان کی بہتری ہے۔“
ہارون الرشید نے اٹھنے سے پہلے آپ کی خدمت میں ایک تھیلی پیش کی۔ اس پر آپ نے فرمایا: ”ہارون کیا میرے احسان کا بدلہ یہی ہے کہ میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں اور تم مجھے مصیبتوں میں پھنسائو!“ ہارون نے معافی مانگی اور تھیلی اٹھالی۔
(ماہنامہ چشم بیدار، فروری 2017ء)
مُلّا محمد نورالدین ظہوری
مُلّا محمد نور الدین ظہوری قائنی ترشیزی، قائن (ترشیز) میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں شیراز اور یزد میں بھی کچھ وقت گزارا۔ مختلف علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کی۔ 988ھ میں ہندوستان میں احمد نگر میں آگئے۔ بیجاپور میں وہ ملک قمی کے ساتھ رہے۔ برہان شاہ، والی احمد نگر کو ایک ساقی نامہ نذر کیا۔ ابراہیم عادل شاہ کی قدر افزائی نے ظہوری کو فکرِ معاش سے آزاد کردیا تھا۔ ان کا دیوان، کلیات اور مثنویات شائع ہوچکی ہیں۔ ابراہیم عادل شاہ نے ایک کتاب ”نورس“ علم ِموسیقی کے موضوع پر دکنی زبان میں لکھی، بعد میں اس کا فارسی ترجمہ ہوا۔ ظہوری نے اس ایک کتاب پر تین دیباچے لکھے، جو ”سہ نثرِ ظہوری“ کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک ایک جملے میں بیس بیس صنائع بدائع جمع کردیے ہیں۔ علامہ اقبال نے مثنوی ”اسرارِ خودی“ کی تمہید میں ظہوری کے ساقی نامہ سے مستفید ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اقبال کے فارسی اور اردو ساقی ناموں پر ظہوری کے اثرات کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
کورونا اور فطرت
ہماری موجودہ ٹیکنالوجی خصوصاً سائبر ٹیکنالوجی انسانی ذہن کی ساخت سے متصادم، انسان کی حقیقی ضروتوں سے لاتعلق اور انسان کے مذہبی، اخلاقی، جمالیاتی اور عقلی مقاصد سے بالکل منحرف ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے فطرت کو بری طرح کرپٹ کیا ہے، جس کے نتیجے میں نیچر اپنے بعض تخریبی عناصر کو ایک انتقامی جذبے کے ساتھ ابھار کے اب حملہ آور ہے۔ یہ کورونا وائرس فطرت کے لشکر کا وہ مبارز، وہ پہلا سپاہی ہے جو اب انسان کو للکار رہا ہے کہ تم اپنے اندر کے آدمی کو میرے مقابلے کے لیے بھیجو۔ (احمد جاوید )