پروفیسر اطہر صدیقی
نو سالہ لڑکا اپنی ماں سے مخاطب ہوکر بولا: ’’میں نے آج اسکول میں قانون توڑ دیا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی کیا وہ ٹھیک ہی تھا‘‘۔
ماں ’’اوہ، کیا ہوا؟‘‘
’’جمی (جو سفید فام ہے) نے جیسن (جو سیاہ فام ہے) کو بتایا کہ سفید فام لوگ اچھے اور سیاہ فام لوگ خراب ہوتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ بات اس نے اپنے والد سے سنی تھی۔ اس بات نے جیسن کو بہت رُلایا‘‘۔
والدہ نے دریافت کیا ’’کیا تمہاری استانی نے یہ بات سنی؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا ’’نہیں، وہ بورڈ پر لکھنے میں مشغول تھیں اور پڑھاتے وقت وہ کسی قسم کی خلل اندازی پسند نہیں کرتیں، لیکن میں کھڑا ہوا اور اُن کو بتادیا جو کچھ جمی نے کہا تھا، اور یہ بات نسل پرستی کے مترادف ہے۔‘‘
ماں ’’واہ! میں تمہاری اس بات سے بہت فخر محسوس کررہی ہوں۔ تمہاری استانی نے کیا کہا؟‘‘
’’وہ بہت متعجب ہوئیں کہ مجھے نسل پرستی کے معنی یا مفہوم معلوم ہیں! جمی کو اسکول کے پرنسپل کے پاس بھیجا گیا اور انہوں نے جیسن کو گلے سے لگایا۔ تب تمام کلاس کو مخاطب کرکے بات کی کہ سفید فام اور سیاہ فام، سب لوگ برابر ہیں، اور یہ بتایا کہ نسل پرستی کیا ہوتی ہے؟‘‘
وہ کچھ تامل کے بعد بولا ’’مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ نسل پرستی کیا ہے، لیکن اب جانتے ہیں!‘‘۔
ماں ’’تم نے بالکل صحیح بات کی بیٹے۔ کیا ایسا کرنا بہت مشکل تھا؟‘‘
نو سالہ لڑکا بولا ’’نہیں! میں نے اس کی پروا نہیں کی کہ اس بات کے کہنے سے میں شاید کسی مشکل میں پھنس سکتا تھا۔ میں بس یہ جانتا تھا کہ یہ کرنا ضروری اور صحیح تھا، کیوں کہ نسل پرستی غلط بات ہے‘‘۔
ایک نسل پرست سفید فام امریکن مشروب کی ایک دکان میں داخل ہوتا ہے اور اعلان کرتا ہے ’’یہاں موجود ہر مہمان کے لیے میں ایک گلاس مفت مشروب کا آرڈر دیتا ہوں سوائے اُس سیاہ فام یا کلرڈ شخص کے جو وہاں کونے میں بیٹھا ہے‘‘۔ اس نسل پرست میزبان کے لیے ہر شخص تالیاں بجاتا ہے۔ جب آخری موجود مہمان کو مشروب مل جاتا ہے تو سیاہ فام شخص اپنا ہاتھ اٹھاتا ہے اور کہتا ہے ’’شکریہ جناب!‘‘
نسل پرست شخص اُس سیاہ فام انسان کے اس ردعمل سے کچھ حیرانی میں پڑ جاتا ہے لیکن اس پر زیادہ دھیان نہیں دیتا۔ اگلی رات کو وہی نسل پرست انسان پھر اسی مشروب کی دکان میں جاتا ہے اور وہاں کونے میں وہی سیاہ فام شخص بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ شخص اسی طرح بار تک جاتا ہے اور گزرے کل کی طرح ویسا ہی آرڈر دیتا ہے۔ گھوم کر کہتا ہے ’’میں یہاں ہر موجود انسان کے لیے آج بھی مفت مشروب کا آرڈر دیتا ہوں سوائے اُس سیاہ فام شخص کے جو وہاں کونے میں بیٹھا ہوا ہے!‘‘
موجود مہمان بے حد خوش ہوتے ہیں اور اس نسل پرست میزبان کی فراخ دلی اور مہربانی پر تالیاں بجاتے ہیں اور اسے گلے لگاتے ہیں۔ جب وہ آخری مشروب کے گلاب کا آرڈر دے چکا ہوتا ہے تو وہی سیاہ فام انسان گھوم کر اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے اور کہتا ہے ’’شکریہ جناب!‘‘
نسل پرست اپنا سر کھجاتا ہے اور کائونٹر پر موجود سیلز مین سے پوچھتا ہے ’’وہ سیاہ فام شخص میرا شکریہ کیوں ادا کرتا ہے جب کہ میں نے صرف اُس کے لیے مشروب نہیں خریدا؟‘‘
’’جناب‘‘ملازم جواب میں کہتا ہے ’’وہ اس دکان کا مالک ہے۔‘‘