رحمت کے کرشمے دیکھنے والی آنکھ اکثر پُرنم رہتی ہے۔ رحمت والے لوگ اِس جہاں میں رہ کر بھی اُس جہاں کے خیال میں زندہ ہوتے ہیں۔ دور کے زمانے بھی ان کو حضورؐ کے قریب رکھنے میں رکاوٹ نہیں ڈالتے، کیونکہ اس نگاہ میں صدیوں کے فاصلے بھی کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ وہ نگاہ صدیاں عبور کرکے اپنے درویشوں کی زندگی کو آج بھی روشن کرتی ہے۔ آپؐ آج بھی قریب کرتے ہیں اور قریب ہوتے ہیں۔ یہی رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس میں نہ ماضی دور ہوتا ہے نہ مستقبل بعید ہوتا ہے۔ اس میں فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ فاصلے تاریخ کے ہوں یا جغرافیے کے، اس میں کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ آج رجوع کرنے والا پرانے جلوے کو حاضر پاتا ہے۔ گزرے زمانے کے جلووں کو پکارنے والا مایوس نہیں کیا جاتا کیونکہ جلوے گزرتے نہیں۔ سورج میں روشنی قائم ہے، چاند میں نور باقی ہے، آسمانوں کی گردش برقرار۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کائنات کے لیے رحمت کا سبب ماضی بن جائے! یہ ناممکن ہے۔ کائنات حاضر، رحمت حاضر… کائنات موجود، رحمت موجود… بلکہ یہاں تک کہ کائنات نہ موجود ہو، رحمت تب بھی موجود رہتی ہے، کیونکہ رحمت دراصل حی و قیوم کی صفت ہے، اور اس صفت سے حضورؐ کو متصف کیا گیا۔ جب صفت نہیں مر سکتی تو موصوف نعوذ باللہ کیسے فانی ہوسکتے ہیں! رحمتیں مرنے کے بعد بھی حاصل ہوتی رہتی ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ماں باپ پر رحم فرما، ہماری اولادوں پر فضل کر۔ اگر ماں باپ یا اولاد رخصت ہوچکے ہوں، تب بھی دعا کے حوالے سے اُن پر رحمت ہوسکتی ہے۔ رحمت ہڈیوں پر کیا ہوگی، خالی بے جان گوشت پوست پر کیا ہوگی، رحمت تو ہمارے ماں باپ پر ہوگی۔ اور اگر ماں باپ زندہ نہیں تو پھر ماں باپ کا لفظ کس کے لیے ہے۔ ہم کسی واہمے کے لیے دعا نہیں کررہے ہیں کیونکہ یہ دعا ہمیں حی و قیوم نے بتائی ہے۔ اللہ واہموں کی بخشش کی دعائیں نہیں بتاتا۔ رحمت کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاری ہے، اور رحمت مانگنے والے کے لیے ہے… اور نہ مانگنے کے لیے بھی ہے۔ اور کبھی کبھی تو نہ مانگنے والے زیادہ خوش قسمت نظر آتے ہیں کہ ان کے لیے ہر صاحبِ راز نے دعا کی۔
اللہ کو بھول جانے والے لوگ اللہ کو تو یاد ہیں۔ وہ جنہوں نے اللہ کو نظرانداز کردیا، اللہ انہیں نظرانداز نہیں کرتا۔ وہ جنہوں نے اللہ کو چھوڑ دیا، اللہ انہیں نہیں چھوڑتا۔ اللہ نے پیغمبر بھیجے کہ ان ناسمجھ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائی جائے۔ ان لوگوں کا استحقاق نہیں، لیکن ان پر رحمت کرنا رحمتوں والے کی شان ہے۔ وہ اتنی بڑی رات کے اندر روشنی کا چراغ جلاتا ہے۔ وہ کفر کے اندھیروں میں ایمان کے نور کا جلوہ دکھاتا ہے۔
رحمتِ حق اس شخص کی تلاش میں رہتی ہے جس کی آنکھ پُرنم رہتی ہے۔ آنسوئوں کے قریب رہنے والے رحمتِ حق کے قریب ہیں۔ انسان کی زبوں حالی پر ترس کھانے والے رحمتِ حق کے اندر ہیں۔ رحمت کرنے والے دراصل رحمت حاصل کرنے والے ہیں۔ انسان کے قریب رہنے والے خدا کے قریب ہیں، اور خدا کے قریب رہنے والے محبوبِ خداؐ کے قریب رہتے ہیں، اور یہ قرب، قربِ رحمت ہے۔ رسولِ رحمتؐ کی ہر بات حصولِ رحمت کا ذریعہ ہے۔ آپؐ نے کسی سے کبھی انتقام نہیں لیا۔ غلاموں کو ایک دن میں ستّر مرتبہ معاف کرنے کا حکم فرمایا۔ آپؐ پوری کائنات کے لیے دعوت ِرحمت ہیں۔
(”حرف حرف حقیقت“…واصف علی واصفؔ)
بیادِ مجلسِ اقبال
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
اس شعر میں علامہ افراد کی طرح امتوں کو بھی اپنی خودی یعنی حقیقت پہچان کر آزادی و حریت کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غلامی میں ڈوبی قوم کا آزادی حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ اپنے مقامِ بلند کو پہچان کر اس کے شایانِ شان طرزِعمل اپنانے سے وابستہ ہے۔ قرآن نے امت ِ مسلمہ کا مقام ’’بہترین امت‘‘ اور ’’انسانیت کے لیے رہنما امت‘‘ جیسے الفاظ میں بیان کیا ہے۔