بلوچستان ہائی کورٹ نے معاونین خصوصی ایکٹ 2018ء کالعدم قرار دے دیا
ان سطور میں بہت پہلے لکھا جا چکا ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی متحدہ حزبِ اختلاف اور حکومتی اتحادیوں سے زیادہ اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی سے پریشان ہیں۔ ان کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔ کبھی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو تحریک عدم اعتماد کا شوشا چھوڑتے ہیں، تو کبھی کوئی وزیر اور رکن اسمبلی ناراض ہوجاتا ہے۔ جام کمال باصلاحیت اور محنتی انسان ہیں۔ لیکن جتنی بھی صلاحیتوں اور اہلیت کے حامل ہوں، جب تک اچھی ٹیم اور اچھے ساتھی دستیاب نہ ہوں گے، وہ کام نہیں کرسکیں گے۔ گویا سیاست کی مروجہ برائیاںجام کمال خان کے آڑے ہیں۔ اور پھر سچی بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) بادشاہ گروں کی جماعت ہے، جو بنوائی گئی ہے۔ یقیناً اس جماعت سے وابستہ پارلیمنٹیرینز اپنی اپنی ترجیحات اور مفادات کے تحت شامل ہوئے ہیں۔ گویا انہیں صوبے اور عوام کے بجائے ذاتی، خاندانی اور علاقائی سیاسی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔
جام کمال کو اب ایک مرتبہ پھر بلوچستان عوامی پارٹی کی صفوں سے مخالفت اور اختلافی نقطہ نظر کا سامنا ہے۔ 13اپریل کو اس جماعت کے تین ارکانِ اسمبلی صوبائی وزیر واسا اینڈ پی ایچ ای نور محمد دمڑ، صوبائی وزیر لائیو اسٹاک مٹھا خان کاکڑ، رکن اسمبلی محمد خان طور اتمان خیل، صوبائی مشیر سردار مسعود لونی اور رکن اسمبلی لیلیٰ ترین نے مل کر مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے ان کے حلقے نظرانداز کیے گئے ہیں۔ ان پارلیمنٹیرینز نے مطالبات کا مسودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کو ارسال کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ حکومتی سطح پر کورونا وائرس سے متعلق ہونے والے اقدامات اور ترقیاتی منصوبوں میں ان کے حلقوں کو مسلسل نظرانداز کررہے ہیں۔ ان پارلیمنٹیرینز کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی کے اندر گروپ یا علیحدگی نہیں چاہتے، بلکہ اپنے خدشات، تحفظات اور مسائل سے پارٹی سربراہ اور وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کو آگاہ کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہوسکا تھا کہ 13 اپریل کو سریاب روڈ کے مگسی ہائوس میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر ارکانِ اسمبلی کے درمیان بھی ایک نشست ہوئی جس کی صدارت صوبائی وزیر ایری گیشن نواب زادہ طارق مگسی نے کی۔ پارلیمانی سیکرٹری میر سکندر عمرانی اور وزیراعلیٰ کے مشیر برائے لیبر اینڈ مین پاور محمد خان لہڑی شریک ہوئے۔ یہا ں نصیر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی کو ایک پیج پر لانے کی پالیسی پر غور ہوا، حکومت یعنی وزیراعلیٰ کی جانب سے نظرانداز کیے جانے اور زیر التوا مسائل پر تشویش ظاہر کی گئی۔ اس اجلاس میں مربوط حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ سینئر سیاست دان، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان، رکن اسمبلی جان محمد جمالی، تحریک انصاف کے رکن اسمبلی میر نصیب اللہ مری اور ’باپ‘ پارٹی ہی کی ربابہ بلیدی سے ساتھ دینے کے لیے بات کی جائے گی۔ محمد خان لہڑی کے پاس تعلیم کا قلم دان تھا جو وزیراعلیٰ نے لے کر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو دے دیا۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے میر نصیب اللہ مری کے پاس صحت کا قلم دان تھا، جن سے وزارت لے کر وزیراعلیٰ بلوچستان نے قلم دان اپنے پاس رکھ لیا۔ بقول میر سکندر عمرانی: وہ صوبائی وزرا نور محمد دمڑ، مٹھا خان کاکڑ، سردار مسعود لونی اور طور اوتمان خیل کو بھی ساتھ شریک کریں گے۔ گویا اس مشکل اور پریشانی کے عالم میں کہ جب پاکستان سمیت پوری دنیا کو کورونا وائرس کا سامنا ہے، اور بلوچستان پہلے ہی کٹھن اور نامساعد حالات سے دوچار ہے، ایسے میں سیاسی بحران کے منفی اثرات صوبے اور عوام پر مرتب ہونا یقینی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اِس وقت سب یکسو ہوکر درپیش آزمائش سے نمٹنے کی جدوجہد کریں۔ سیاست کے لیے سازگار ماحول دیکھنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت پارٹی کے اندر اور حکومت میں شریک اراکین کے مسائل اور تحفظات پر توجہ دیں، اور انہیں اعتراض و اختلاف کا موقع نہ دیا کریں۔ لیکن کئی پہلوئوں سے جام کمال خان کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں۔ مصلحتیں نہ ہوں تو وہ دھونس اور دبائو کی سیاست کرنے والوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
دریں اثناء 13اپریل 2020ء کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بینچ نے معاونینِ خصوصی ایکٹ 2018کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس بارے میں ایک شہری بابر مشتاق نے عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کی تھی۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق وزیراعلیٰ کے معاونینِ خصوصی کی تعیناتی آرٹیکل 130کے سب سیکشن 11کے تحت غیر آئینی ہے۔ وزیراعلیٰ صرف پانچ مشیر مقرر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ عدالت نے وزیراعلیٰ کے معاونینِ خصوصی کو تنخواہوں کے علاوہ دیگر تمام مراعات واپس کرنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ بلوچستان حکومت نے آغا شکیل درانی، نواب زادہ عمر فاروق کاسی، اعجاز سنجرانی، کیپٹین (ر) عبدالخالق اچکزئی، رامین محمد حسنی اور حسنین ہاشمی کی بطور معاونِ خصوصی برائے وزیراعلیٰ بلوچستان تقرری کی تھی۔ عدالتِ عالیہ بلوچستان کا یہ فیصلہ درست ہے۔ معاونینِ خصوصی کے تقرر کے ذریعے حکومت میں شامل جماعتوں کو نوازکر سرکاری خزانے پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا تھا۔