۔’’تشکیل ِجدید الٰہیات ِاسلامیہ‘‘ مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبالؒ کے خطبات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مدراس، حیدر آباد اور علی گڑھ میں دیئیُ اور ’’مدراس مسلم ایسوسی ایشن‘‘ کی دعوت پر مرتب کرکے 1930ء میں پہلی بار”Six Lectures on the Reconstruction of Relegious Thought in Islam” کے نام سے شائع کیا، تاہم علامہ اقبال نے بعد ازاں ارسٹوٹی لین سوسائٹی لندن کی دعوت پر ایک خطبہ مزید تحریر کیا، اور اس خطبے کے اضافے اور بعض لفظی ترمیمات کے ساتھ اس مجموعے کو 1934ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیراہتمام طبع کیا گیا، اور اس کے نام سے پہلے چار الفاظ حذف کردیئے گئے۔ زیرنظر ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے شائع کردہ اسی جدید نسخے کا اردو ترجمہ ہے جسے سید نذیر نیازی مرحوم نے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، جنہیں علامہ اقبال ؒسے ایک خاص تعلقِ خاطر تھا، اور اسی تعلق کے سبب انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ علامہ اقبال کی قربت اور خدمت میں بسر کیا تھا۔ خطبات کے اردو ترجمے کے لیے سید نذیر نیازی کا انتخاب اور اعتماد بھی خود علامہ اقبال نے کیا تھا اور ترجمے کے لیے ’’تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ کا نام بھی حضرت علامہ اقبالؒ ہی کا تجویز کردہ ہے۔ سید نذیر نیازی مرحوم نے انگریزی خطبات کو اردو میں منتقل کرنے میں جس محنت و مشقت، احتیاط اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے اس کا اندازہ کتاب کے آغاز میں تحریر کردہ اُن کے 28 صفحات پر محیط تفصیلی مقدمہ کے مطالعے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کی ابتدا میں دو صفحات سے بھی کم طوالت کا ایک ’’دیباچہ‘‘ خود علامہ اقبالؒ کا تحریر کردہ ہے جس کا اختتام وہ ان سطور پر کرتے ہیں:
’’میں نے اسلام کی روایات فکر عملی ہذا اُن ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علمِ انسانی کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئیں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے، یوں بھی یہ وقت اس طرح کے کسی کام کے لیے بڑا مساعد ہے۔ قدیم طبیعات نے خود ہی اپنی بنیادوں کی تنقید کرنا شروع کردی ہے۔ لہٰذا جس قسم کی مادیت ابتداً اس کے لیے ناگزیر تھی، بڑی تیزی سے ناپید ہورہی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سردست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ بایں ہمہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور و تفکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں، جیسے جیسے جہانِ علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں، کتنے ہی اور، اور شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں، زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکرِ انسانی کے نشوو نما پر باحتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں… محمد اقبال‘‘
کتاب میں شامل علامہ اقبال کے ان خطبات کے عنوانات ہی سے ان کی فکری گہرائی اور عملی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جو کچھ یوں ہیں: پہلا خطبہ ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘، دوسرا خطبہ ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘، تیسرا خطبہ ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دعا‘‘، چوتھا خطبہ ’’خودی، جبرو قدر، حیات بعد الموت‘‘، پانچواں خطبہ ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘، چھٹا خطبہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘، ساتواں خطبہ ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ ہر خطبے کی تکمیل پر حواشی درج کیے گئے ہیں جن کو محترم مترجم کے بقول متن میں اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ قوسین کی موجودگی نہ صرف حُسنِ طباعت کے خلاف تھی بلکہ متن کی روانی میں بھی حارج ہوتی۔ خطبات کو عام قاری کے لیے قابلِ فہم بنانے اور بعض ضروری اصطلاحات و امور کی وضاحت کے لیے کتاب میں تصریحات کے عنوان سے ایک مفصل باب بھی شامل ہے۔ انگریزی الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و توضیح اور ان کے حقیقی و اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کی خاطر مترجم نے بہت محنت و کاوش سے مصطلحات کا ایک باب بھی مرتب کیا ہے، جب کہ کتاب کے آخر میں خطبات میں مذکورہ شخصیات کا اشاریہ بھی حروف ِتہجی کے اعتبار سے ترتیب دے کر شاملِ اشاعت کردیا گیا ہے، جس سے کتاب کی افادیت میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ مترجم نے قاری کو خطبات کی روح تک پہنچنے میں ہر طرح کی آسانی فراہم کرنے کے لیے تمام ممکنہ پہلوئوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور کوشش کی ہے کہ پڑھنے والا علامہ اقبال کے افکار تک رسائی میں کوئی مشکل محسوس نہ کرے۔
’’تشکیلِ جدید الٰہیات ِاسلامیہ‘‘ کے قبل ازیں سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، کتاب کی آٹھویں اشاعت زیر نظر ہے جسے ’بزم اقبال‘ کے موجودہ سیکرٹری ریاض احمد چودھری نے نہایت اہتمام سے زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ عمدہ کاغذ پر طباعت بھی معیاری ہے، خوبصورت رنگین سرورق اور مضبوط جلد کے ساتھ کتاب حروف خوانی کی غلطیوں سے بڑی حد تک پاک ہے۔ ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو فکرِ اقبال سے روشناس کرانے کی خاطر اس اعلیٰ علمی و ادبی کاوش کو وسیع پیمانے پر تعلیمی اداروں کے کتب خانوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے، اور ’بزم اقبال‘ کے علاوہ دیگر علمی و ادبی ادارے اور فکرِ اقبال کے فروغ کی علَم بردار تنظیمیں بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔