دنیا بھر میں کورونا وائرس کی عالمی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 82 ہزار تک پہنچ چکی ہے جب کہ متاثرہ افراد کی تعداد 14 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار کسی وبا نے عالمی سطح پر دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہے، جس نے وسیع ترین جغرافیہ کو متاثر کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ موجود ہی نہیں۔ اس عالمی وبا سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ، برطانیہ، اسپین اور اٹلی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اعلیٰ ترین سائنسی اور طبی ترقیوں کے باوجود اس وبا پر قابو پانے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس وبائی مرض اور اس کے اثرات کی جو تفصیلات ماہرین نے بیان کی ہیں وہ بے حد خطرناک اور لرزہ خیز ہیں۔ ابھی تک اس کے اسباب اور علاج پر کوئی مستند رائے سامنے نہیں آسکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ بے بسی دنیا کے سب سے ترقی یافتہ، طاقتور اور دولت مند ترین ملک امریکہ میں نظر آرہی ہے۔ عالمی حکمرانوں میں سے ایک یعنی برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی اس وبائی مرض میں مبتلا ہوکر آئی سی یو میں پہنچ چکے ہیں۔ کم از کم عالمِ اسلام میں یہ احساس موجود ہے اور اس کی کمزور آوازیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ ربِّ کائنات انسانوں سے کیوں ناراض ہے۔ ربِّ کائنات انسانوں کے نام اپنے آخری پیغام کتاب اللہ میں بیان کرچکا ہے کہ ’’جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، حالاں کہ اللہ تمہارے اکثر گناہوں کو معاف کردیتا ہے‘‘ (قرآن مجید)۔ اس لیے اس وبا کی ہلاکت سے نجات پانے کے لیے جہاں تمام اسباب اختیار کرنے ضروری ہیں، وہیں اللہ کی رحمت کو پکارنا فرضِ اوّلین ہے۔ اللہ رحمٰن و رحیم بھی ہے، جبار و قہار بھی اور قادرِ مطلق بھی ہے۔ زندگی و موت، بیماری و شفا سب اس کے دستِ قدرت میں ہے۔ اس کی مرضی اور حکم کے بغیر نہ کوئی بیمار ہوتا ہے نہ کوئی شفایاب ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ کی رحمت کو پکارنا چاہیے۔ اس وبائی مرض کی تباہ کاری کا سب سے تلخ پہلو یہ ہے کہ اس کا علاج خود ایک عذاب بن گیا ہے۔ ایک طرف وبائی مرض کے لگ جانے اور اس کی تباہ کاری کا خوف ہے، دوسری طرف اس مرض نے پوری دنیا کو عالمی قید خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ دنیا کے ایک بڑے حصے میں لاک ڈائون اور کرفیو نافذ ہے۔ اقتصادی زندگی مفلوج اور معطل ہوگئی ہے۔ لوگ پکار رہے ہیں کہ ہم کورونا سے بعد میں مریں گے پہلے بھوک سے مرجائیں گے۔ گویا وبائی مرض اور بھوک کی آزمائش بیک وقت بستیوں، آبادیوں اور ملکوں پر مسلط ہوگئی ہے۔ ابھی تک کسی بھی طرف سے اس بات کی یقین دہانی سامنے نہیں آسکی ہے کہ ’’لاک ڈائون‘‘ کا سلسلہ کب تک ختم ہوجائے گا اور معمول کی زندگی بحال ہوجائے گی۔ یہ وبا چین سے شروع ہوئی تھی جس نے دعویٰ کیا کہ تین ماہ میں اس نے وبا پر قابو پالیا ہے اور ووہان میں 76 روز بعد لاک ڈائون ختم ہوگیا ہے، لیکن اس کے باوجود چین سے بھی نئے مریضوں کی اطلاعات آرہی ہیں۔ اس وبائی مرض کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ بظاہر جو شخص صحت مند نظر آرہا ہے ہوسکتا ہے وہ بھی اس مرض کے زیر اثر آچکا ہو۔ اس طرح وائرس ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا ہے اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے زیر اثر آنے والا ہر آدمی کم از کم دو آدمیوں تک اس کو منتقل کرتا ہے۔ اس طرح وسیع پیمانے پر یہ مرض پھیل رہا ہے۔ماہرین اس کا علاج یہی بتاتے ہیں کہ اپنے گھروں میں ٹک کر بیٹھو۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے وزیراعلیٰ سندھ کو پھر مشورہ دیا ہے کہ لاک ڈائون کو سخت کیا جائے ورنہ کورونا کے پھیلنے کے امکانات ہیں۔ رمضان کی آمد میں دو ہفتے رہ گئے ہیں، ابھی تک لوگ گھروں میں محصور رہنے پر مجبور ہیں۔ جہاں اس جبری نظر بندی کے مسائل ہیں، وہیں فرصت کے لمحات جو میسر آئے ہیں انہیں مثبت کاموں میں استعمال کرنے کا نادر موقع بھی ملا ہے۔ اس آزمائش کو اپنے لیے ایک نعمت بھی بنایا جاسکتا ہے، اور وہ اس طرح کہ ہر فرد فرصت کے ان لمحات کو خود احتسابی کا ذریعہ بنائے۔ خالقِ کائنات کے دامنِ رحمت کو مضبوطی سے پکڑ لیا جائے اور اس کے سامنے گڑگڑا کر دعائیں مانگی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی تاکید کی ہے، اور اللہ کی رسّی اللہ کا آخری کلام قرآن مجید ہے۔ فرصت کے ان لمحات کو خاص طور پر قرآن مجید کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر کے مطالعے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی کے ساتھ حدیث و سیرت اور اسلامی لٹریچر کا گہرا مطالعہ کیا جائے، بجائے اس کے کہ ان اوقات کو ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، موبائل کے سامنے گزارا جائے۔ اگر مصروفیت کا تعمیری خاکہ بنایا جائے تو بہت بہتر ہوگا، ورنہ فرصت کے اوقات میں خالی دماغ فضول خیالات کی آماجگاہ بھی بن جاتا ہے۔ قرآن، حدیث و سیرت اور معیاری کتابوں کے ذریعے ذہن کو پُرسکون بھی رکھا جاسکتا ہے۔ فرصت کا ایسا استعمال جس میں ذہن کی تشفی ہو، ضروری ہے۔ قرآن و حدیث، تفسیر و سیرت اور تاریخی کتابوں کے مطالعے کی روشنی میں جو خود احتسابی ہوگی وہ زندگی کے نصب العین اور مقصد سے آگاہ کرے گی، اور نجات کے راستے کی رہنمائی ہوگی۔ اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جب یہ وبا گزر جائے گی تو بدلی ہوئی دنیا کے خدوخال کیا ہوں گے اور اس میں ہمارا کردار کیا ہوگا؟