مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
خلیفہ ہارون رشید اور اُس کے دربار کی عظمت کے قصے اُسی دور میں خاصی شہرت پاچکے تھے۔ اُس نے نہ صرف چین اور فرینکش بادشاہ شارلمین کے دربار تک سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے، بلکہ باقاعدہ مذاکراتی خط کتابت بھی شروع کردی تھی، جس نے عربوں سے زیادہ فرینک قوم کو متاثرکیا تھا۔ یہاں تک کہ جب خلیفہ کے پیغامات فرینکش بادشاہ کو موصول ہورہے تھے، بغداد کے سفیر اس بات پر ناک بھوں چڑھاتے تھے کہ اُن کا خلیفہ نہ صرف صاحبِ علم اور شاعر تھا جبکہ شارلمین بہ مشکل ہی لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سچائی بالکل بھی سفید اور سیاہ نہیں۔ شارلمین ایک اَن پڑھ آدمی تھا، تاہم وہ علماء کی سرپرستی کرتا تھا۔ ہارون رشید اور شارلمین دونوں کے درباروں میں ایک باہمی مجلس کے اہتمام کی اسکیم بھی زیرغور آئی تھی، یہ نویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا، مگر یہ مجلس ممکن نہ ہوسکی۔ دوسری شاندار روایت جو ان درباروں کے مابین پڑی، وہ تحفوں کا تبادلہ تھا۔ ہارون رشید نے خیرسگالی کے طور پر جو نوادرات تحفے میں بھیجے وہ اس سے پہلے یورپ نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ خلیفہ نے اسے ابوالعباس نامی ایک ایسا ہاتھی بھیجا، جسے یورپ کی گلیوں میں ایک عجوبے کی طرح پھرایا گیا۔ شارلمین کے دارالحکومت Aix-la-Chapelle میں اتنے بڑے جانور کو دیکھ کر لوگوں کا مجمع لگ گیا۔ یورپ میں آخری بار ہاتھی ہزار سال پہلے اُس وقت دیکھے گئے تھے جب ہنی بال لشکر لے کر یہاں وارد ہوا تھا۔ ہارون رشید نے اُسے ہاتھی کا ایک دانت بھی بھیجا جس پر عمدہ کندہ کاری کی گئی تھی۔ خالص سونے کا جگ، شطرنج کی بساط، شاہی خیمہ، دو منفرد شمعیں، اور پانی کی ایک گھڑی بھی بھجوائی تھی۔ پانی کی اس گھڑی نے دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ یہ ایک تکنیکی عجوبہ تھا، جس نے اُس وقت کے یورپی ماہرین میں بڑی شہرت پائی۔ اس میں دھات کی بارہ گیندیں تھیں، ہر ایک گیند ہرگھنٹہ گزرنے پر دو رکابیوں میں گرتی تھی، اور اس کی چوٹ سے آواز پیدا ہوتی تھی، اور اسی دوران دھات کے دو گُھڑ سوار چھوٹی سی کھڑکی سے باہر نکلتے تھے۔ بلاشبہ، شارلمین کے لیے ایسی روشن فکر اور مثالی قیادت اعلیٰ نمونہ تھی، یورپ میں ایسی مثال نہیں ملتی تھی، سوائے یونانی اور رومی تواریخ کے۔ یہاں تک کہ جب شارلمین نے مسلمانوں کو اندلس میں کافی پیچھے تک دھکیل دیا تھا، اُس وقت بھی وہ اُن کی معاشرتی تکنیکی ترقی کا گرویدہ تھا۔
ایسی ہی مسلمان قیادت اندلس میں بھی سامنے آئی، کہ جب مقبول آمرانہ اموی حکومت نے پیش رفت کی۔ عبدالرحمان اوّل کے دور سے مذہبی رواداری اور فراخ دلی دیکھی گئی، تاہم یہ 796ء میں اُس وقت زیادہ نمایاں ہوئی جب بوڑھے امیر ہاشم نے جانشین الحاکم کو نصیحت کی کہ: ’’امیر غریب میں بلا تفریق انصاف قائم کرنا، مستحقین اور غریبوں کے ساتھ شفقت اور محبت سے پیش آنا، کیونکہ سب خدا کے بندے ہیں، اپنے شہروں اور صوبوں کی ذمے داری تجربہ کار منتظمین کے حوالے کرنا، جو وزراء عوام پر ظلم ڈھائیں اُن کا بے رحمی سے احتساب کرنا، اپنے سپاہیوں پر معتدل انداز میں گرفت مضبوط رکھنا، یاد رکھنا کہ انھیں ہتھیار دفاع کے لیے دیے گئے ہیں، اپنے ہی ملک کی بربادی کے لیے نہیں، اور ان کی تنخواہوں کی باقاعدہ ادائیگی کے معاملے میں فکرمند رہنا، اور اُن سے کیے گئے وعدے ہمیشہ پورے کرنا۔ ہمیشہ عوام کی محبت جیتنے کی تگ و دو کرتے رہنا، کیونکہ ان کی یہ محبت ہی ریاست کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت ہے، اور اُن کا خوف اور عدم تحفظ ریاست کے لیے خطرہ ہے، اور اُن کی نفرت یقینی تباہی ہے۔ کاشت کاروں اور کسانوں کا ہمیشہ تحفظ کرنا، اُن کی فصلوں کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دینا، اور کبھی جنگلوں کو اجڑنے نہ دینا۔ سب سے احترام سے پیش آنا، یہی خوشی اور راحت کا سامان ہے۔ اسی طرح تم ایک مقبول اور محبوب شہزادے کہلاؤ گے۔‘‘
بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد الحاکم نے عورتوں اور شراب کا رخ کرلیا۔ جوکچھ اُس کے والد نے نصیحت کی تھی اُسے بھلا بیٹھا۔ اُس کی زندگی مختصر اور اخلاق باختہ ہی گزرگئی۔ اُس کے والد جیسی قیادت بعد کے اندلسی حکمرانوں میں لوٹی، مگر آمرانہ طرزِ حکومت اور معاملات پر کمزور پڑتی گرفت، دولت کی فراوانی اور عیش پسندی نے بتدریج پستی کی راہ ہموار کی۔
اموی اور عباسی واحد حکمران نہ تھے کہ جنھوں نے اعلیٰ قائدانہ نمونے پیش کیے، بلکہ ترک سلجوق قائدین نے بھی، جنھوں نے دسویں صدی میں سیاسی قوت حاصل کی، روشن فکر قیادت کی روایت آگے بڑھائی۔ اس کی ایک عمدہ مثال وزیراعظم نظام الملک تھا۔ وہ عمر خیام کا دوست اور بعد میں سلطان ملک شاہ کا وزیر بھی رہا۔ نظام الملک نے اس یقین کو رواج دیا کہ علم اور تعلیم کی ترویج کسی بھی بہترین حکومت اور صحت مند معاشرے کے لیے ناگزیر ہے، اُس نے فارس اور پورے مشرق وسطیٰ میں جامعات کا جال بچھا دیا، جو اُس کے نام سے منسوب ہوئیں۔ درسِ نظامیہ کا ماحول دینی، علمی، اور تحقیقی سرگرمیوں سے معمور تھا۔ بہت سے محققین اور علماء کی نظر میں جامعاتِ نظامیہ مغربی جامعات کے لیے اعلیٰ تقلیدی نمونہ ثابت ہوئیں۔ صلیبیوں کے لشکر فارس اور مشرق وسطیٰ میں جہاں جہاں سے گزرے، ان جامعات کی شان و شوکت اور تعلیمی نظام سے متاثر ہوئے۔ یہ گیارہویں صدی کے اوائل کا دور تھا۔ اُس وقت یورپ میں ایسی تعلیمی درس گاہوں اور جامعات کا کوئی وجود نہیں تھا، وہاں ابھی تک تعلیم مسیحی خانقاہوں میں قید تھی۔
یہاں تک کہ ایک بار سلطان نے سوال اٹھا دیا کہ اتنی ساری جامعات کے اخراجات اٹھائے جائیں یا مزید مضبوط قلعے تعمیر کیے جائیں اور مزید سپاہی بھرتی کیے جائیں؟ نظام الملک نے جواب دیا: ’’وہ تعلیمی قلعہ جو میں نے آپ کے لیے تعمیر کروایا ہے، وقت اُسے ناقابلِ تسخیر ثابت کردے گا۔ سپاہیوں کے تیر سوگز سے زیادہ کا سفر طے نہیں کرسکتے، مگر جن سپاہیوں کی فوج مَیں آپ کے لیے تخلیق کررہا ہوں وہ نہ صرف خود جنتوں کی امیدوار ہوں گے بلکہ آپ کا نام بھی زندہ جاوید کردیں گے۔‘‘
نظری سطح پر بھی نظام الملک نے اعلیٰ طرزِ حکومت اور عمدہ قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اُس نے سلطان کی ہدایت پر پوری سلطنت کا سفر کیا، مقامی حکام اور شہریوں کو سنا، اور’’علم حکمرانی‘‘ پر ضخیم کتاب شروع کی۔ اسے ’’سیاست نامہ‘‘ پکارا گیا، یہ فارسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کے پچاس ابواب تھے۔ اس ’’سیاست نامہ‘‘ میں بہترین نظامِ حکومت کی بے شمارخصوصیات اور مثالیں پیش کی گئی ہیں: ’’ایک لادین ریاست چل سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ کوئی ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ جب حکمران دروازوں، دیواروں، اور محلوں میں مقید رہے، مفاد پرست اور ظالم لوگ عوام کو اُس تک پہنچنے نہیں دیتے۔ محصولات جمع کرنے والے صرف بقایا جات طلب کریں اور انتہائی احترام اور نرمی سے، اور وہ بھی مقرر وقت کے بعد۔ حکمرانوں کے لیے بہترین بات یہ ہے کہ علماء کی صحبت میں رہیں، اور علماء میں وہ بدترین ہے جو بادشاہ کی صحبت کی آرزو کرے۔ علم دولت سے بہتر ہے، تمہیں دولت کی فکر کرنی پڑتی ہے جبکہ علم تمہاری فکر کرتا ہے۔‘‘
ابھی ’’سیاست نامہ‘‘ کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ نئے ہزاریے کی طویل جنگی مہم چھڑگئی، اور بہت سے اہلِ ایمان نے خیال کیا کہ ملک شاہ کی اخراجاتی ترجیحات ہی شاید اس دور کے لیے صحیح تھیں: گیارہویں صدی کے مسلمانوں کے لیے اچھی تعلیم اور اچھی حکومت سے زیادہ افواج اور مضبوط قلعے ضروری تھے۔ صدیوں تک ان صلیبی جنگوں نے ترکی سے شام اور مصر تک قتل وغارت کی طویل تاریخ رقم کی۔ تقریباً دوسو سال تک، صلیبیوں نے 9بڑی جنگی مہمات چھیڑیں، کئی چھوٹی موٹی جھڑپیں الگ ہیں۔ مسیحیوں نے اسے “reverse jihad” کا عنوان دیا، جس سے مراد مسلمانوں کو اُن علاقوں سے نکالنا تھا، جو دراصل عیسائیوں کی مقدس سرزمینیں تھی، جیسے یروشلم وغیرہ۔ یہ خطے ساتویں صدی سے مسلمانوں کے قبضے میں تھے۔ مسلمان یہاں چار صدیوں سے حکمران تھے، یہ بیس نسلیں بنتی ہیں۔ یہ وہ دور تھا کہ جب تینوں ابراہیمی مذاہب کے پیروکار یہاں مثالی رواداری اور ہم آہنگی سے آباد رہے۔ عیسائی زائرین بڑی سہولت سے یروشلم کی زیارت کیا کرتے تھے۔ یہودی یہاں ہر جگہ موجود تھے۔ مگر پھر وقت اور حالات بدل گئے۔ سلجوقیوں، ایوبیوں، اور فاطمیوں نے اقتدار کی کشمکش میں ماحول کمزور کردیا۔ یورپی صلیبیوں نے بھرپور موقع کی بو سونگھ لی۔ اسپین میں فتوحات سے بھی اُن کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔
مقدس صلیبی جنگ کا نیا عیسائی ورژن کئی مباحث چھیڑتا ہے، کہ یسوع مسیح علیہ السلام کی امن پسند تعلیمات کس طرح صلیبی جنگوں کی اجازت دے سکتی تھیں؟ جب تاریخ گُم گَشتہ کا قریب سے بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ رومن کیتھولک نہ صرف مسلمانوں کو مقدس شہروں سے نکالنا چاہتے تھے بلکہ قسطنطنیہ کی آرتھوڈکس بازنطینی قوت کو بھی بے دخل کرنا چاہتے تھے۔ یہ جنگیں عجیب اتحادوں کے سبب اور بھی پیچیدہ ہوگئی تھیں۔ صلیبی منگولوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے تھے، جبکہ بازنطینی پرانے دشمن مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے۔ کرسچن نائٹ ٹیمپلرز شامی اسمٰعیلیوں میں اپنے لیے حمایت دیکھ رہے تھے۔ حالات اُس وقت اور بھی ناقابلِ شناخت ہوگئے جب ابتدائی فتوحات کے بعد صلیبی یروشلم اور دیگر شہروں میں عارضی طور پر بس گئے، انھیں نئے تجربات نے ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا تھا۔ وہ گرم اور خشک موسموں میں آسودہ زندگی کے عادی ہوگئے تھے۔ ابتدا میں یہ صلیبی انتہائی سخت حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچے تھے اور انتہائی اُجڈ زندگی گزارتے تھے۔ 1099ء میں صلیبیوں نے یروشلم فتح کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس تاریخ کی بہت سی تفصیلات گُم گَشتہ ہوگئیں، تاہم یہ واضح ہے کہ یہ یورپی فتح قتل و غارت سے عبارت ہے۔ یروشلم کے تقریباً سارے باشندوں کو قتل کردیا گیا تھا۔ مسلمانوں، یہودیوں، یہاں تک کہ عیسائیوں کو بھی دشمن کی نظر سے دیکھا گیا، برتا گیا۔ یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے سارے سفر میں صلیبی فوج یہودیوں کو قتل کرتی رہی تھی۔
ایک فرینکش عینی گواہ لکھتا ہے: ’’کاؤنٹ ریمنڈ اور اُس کے سپاہی، جو فصیل کی دوسری طرف سے حملہ آور تھے… دیکھا کہ مسلمان فصیل سے چھلانگیں لگا رہے تھے۔ وہ پُرجوش انداز میں لوگوں کے پیچھے بھاگے اور قتل عام کرتے رہے، جیسا کہ پہلے سے موجود سپاہی کررہے تھے۔ چند عرب اور ایتھوپیائی مسلمانوں نے مینارِ داؤد میں پناہ لی، دیگرسلیمان ٹیمپل کی طرف دوڑگئے تھے۔ ان عبادت گاہوں کے احاطوں میں بھرپور لڑائی ہوئی، جہاں سے مسلمانوں کے لیے کوئی راہِ فرار نہ تھی۔ بہت سے لوگ سلیمان ٹیمپل کی چھت پر چڑھ گئے جہاں سے انھیں تیر مار مار کر گرایا گیا۔ سلیمان ٹیمپل میں تقریباً دس ہزار مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ یقین کرو، اگر تم وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ ہمارے ٹخنے تک خون سے سرخ پڑگئے تھے۔ مزید میں کیا کہوں؟ کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا گیا، عورتیں اور بچے تک تہِ تیغ کردیے گئے۔‘‘
ایک اور فرانسیسی عینی شاہد زیادہ بہتر منظرکشی کرتا ہے: ’’یروشلم کی صلیبی فتح پر گھروں اور گلیوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ شہر میں کہیں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ کچھ نے موت سے بچنے کے لیے خود کو لاشوں پر ہی گرا دیا۔ بہت سے لوگوں نے محلات میں پناہ لینی چاہی، میناروں تک پر چڑھ گئے، یہاں تک کہ مساجد میں بھی وہ خود کو نہ چھپا سکے۔ مسجدِ عمر میں کچھ دیر مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا، مگر پھر وہاں بھی افسوسناک مناظر پیش آئے، ایسے مناظر جنھوں نے ٹائٹس کی فتح کو بھی شرما دیا۔ ہر طرف موت کی آہ وبکا تھی۔ مسجد کے دالان میں گھٹنوں تک خون جمع ہوچکا تھا۔ اس قتلِ عام میں اُس وقت کچھ دیر کا وقفہ آیا جب صلیبی فتح پر تھینکس گوینگ کی دعا پڑھ رہے تھے۔ اُس کے بعد مزید وحشت مچائی گئی۔ بھاری تاوان کے بدلے چھوٹنے والا ایک قیدی Michaud کہتا ہے کہ وہ سارے قیدی جنھیں بھاری تاوان کی امید میں ابھی تک قتل نہ کیا گیا تھا، بعد میں سردمہری سے مار دیا گیا۔ مسلمانوں کو مجبور کیا گیا کہ گھروں کی چھتوں اور میناروں سے خود کر گرا کر لقمۂ اجل بن جائیں۔ انھیں زندہ جلایا گیا، سڑکوں پرگھسیٹا گیا، عوامی مقامات پر زخم لگالگا کر مارا گیا۔ لاشوں کے ڈھیر پر ڈھیر لگائے گئے، اور ان ڈھیروں کو آگ لگادی گئی۔ نہ عورتوں کے آنسو انھیں روک سکے، نہ بچوں کی چیخیں ان کے قدموں کو روک سکیں۔ یہاں تک کہ وہ مقام جہاں یسوع مسیح علیہ السلام نے قاتلوں کو معاف کیا تھا، صلیبی فاتحین کا دل وہاں بھی نہ پگھلا۔ یہ ساری صورتِ حال ایک ہفتہ یوں ہی جاری رہی۔ جو تھوڑے لوگ کسی طرح بچ رہے تھے، انھیں غلام بنالیا گیا۔‘‘
قتلِ عام کے علاوہ، عیسائیوں کی یہ فتح پرانی طرز کی عام لوٹ مار اور آبرو ریزی سے لتھڑی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ان صلیبیوں نے گرجا گھروں کا قیمتی سامان بھی لوٹا۔ کئی صلیبی سپہ سالاروں نے اس لوٹ مارکے دوران آپس میں بھی جھگڑے کیے۔ یروشلم میں ہزاروں معصوم لوگ اس یورپی قتلِ عام میں موت کا شکار بنے۔ صلیبیوں نے پورے مشرق وسطیٰ میں یہی حرکت بار بار دہرائی، جس سے شدید غم و غصہ پیدا ہوا۔ مسلمانوں کی جانب سے مسلسل مزاحمت سامنے آئی، اور ایک صدی کا عرصہ لگا جب طاقت پھر سے مجتمع کی گئی۔ اس دوران صلیبی یروشلم، فلسطین اور شام میں اپنی لاطینی سلطنت مستحکم کرچکے تھے۔ سرحدی لکیریں دھندلا چکی تھیں۔ دشمن بتدریج ناقابلِ برداشت پڑوسی بنتے جارہے تھے۔ اس ہنگامی دور میں منظر پر ایک نیا مسلمان رہنما ابھرا، انتہائی مذہبی مجاہد تھا وہ۔ اُس کی ذہانت ہارون یا مامون سی نہ تھی، مگر وہ فنِ سپہ گری میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کرنے والا، اور یورپی صلیبیوں کو حیران اور شرمندہ کرنے والا تھا۔
اُس کا نام صلاح الدین تھا۔ اُس کی نفاست اور انسان دوستی خالص اور مثالی تھی۔ نسلاً وہ کرد تھا۔ شام میں پیدا ہوا، وہیں تعلیم پائی۔ اُس کے والد ایک جنگجو مجاہد تھے۔ دونوں باپ بیٹے اس بات پر متفق تھے کہ اگر صلیبیوں کو شکست دینی ہے، تو مسلمانوں کی باہمی لڑائی پر قابو پانا ہوگا۔ مسلمانوں کو ایک جگہ متحد کرنا ہوگا۔ صلاح الدین ایوبی نے یہ کام خوبی سے انجام دیا۔
سن 1187ء میں صلیبیوں سے انتقام کا موقع ہاتھ آیا۔ کئی سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد وہ اور اُس کی فوج یروشلم کا محاصرہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جب فتح کا لمحہ آیا، جب ہلال و ستارے والا پرچم شہر کی فصیلوں پر بلند ہوا، اُس وقت ہرکوئی ہولناک انتقام کی توقع کررہا تھا، کہ سر اڑائے جائیں گے، گردنیں ماری جائیں گی، خون کی ندیاں بہادی جائیں گی۔ ابن اثیر لکھتا ہے: ’’جب فرینکس نے دیکھا کہ مسلمان کس شدت سے حملہ کررہے تھے، کس تسلسل سے آگ کے گولے داغے جارہے تھے، اور کس کامیابی سے فصیلوں پر شگاف پڑ رہے تھے، کوئی مزاحمت کارگر نہ ہوتی تھی، وہ قطعی مایوس ہوچکے تھے، اور اُن کے رہنما اُس وقت آپس میں بچاؤ کی تدبیریں کررہے تھے۔ انھوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر جان کی امان ملے اور شہر سے نکل جانے کی اجازت دے دی جائے، تو یروشلم صلاح الدین ایوبی کے حوالے کردیا جائے۔ انھوں نے اپنے معززین کا ایک وفد صلاح الدین کی طرف بھیجا، تاکہ شرائط طے ہوسکیں۔ صلاح الدین ایوبی نے اُن کی شرائط ماننے سے انکار کردیا۔ اُس نے کہا ’’ہم تمھارے ساتھ ویسا ہی کریں گے جیسا تم نے اس شہر کے لوگوں کے ساتھ کیا تھا‘‘۔ عیسائی وفد خالی ہاتھ لوٹ گیا۔ تب صلیبی سپہ سالار بالیان ابن بارزان نے خود صلاح الدین کے سامنے پیش ہونے کی اجازت مانگی۔ اجازت دی گئی۔ وہ پیش ہوا اور پھر عام معافی کی درخواست کی۔ سلطان نے پھر انکار کردیا، اور کسی قسم کی رحم دلی ظاہر نہ کی۔ بالآخر بالیان نے مایوس ہوکر کہا: ’’جان لو سلطان کہ اس شہر میں ہم بہت سارے لوگ ہیں، خدا ہی جانتا ہے کہ کتنے لوگ ہیں! وہ لمحہ کہ جب ہم بے دلی سے لڑ رہے ہیں اس امید میں کہ شاید زندگی بچ جائے، اس امید پرکہ شاید چھوڑ دیے جائیں، جیسا کہ تم پہلے بھی بہت سوں کی جان بخشی کرچکے ہو، یہ سب موت سے خوف اور زندگی سے محبت کے سبب ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے، خدا کی قسم ایسی صورت میں ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو اپنے ہاتھوں سے مار ڈالیں گے، اپنی املاک جلادیں گے، اور تمھارے لیے ایک دینار تک نہ چھوڑیں گے، اور نہ ہی کوئی مرد یا عورت غلام بنانے کے لیے ہی باقی رہنے دیں گے۔ جب یہ سب ہوجائے گا، ہم گنبد صخرہ ڈھادیں گے، مسجد اقصیٰ گرا دیں گے، اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کو بھی تباہ کردیں گے، پانچ ہزار مسلمان قیدیوں کو بھی قتل کردیں گے۔ سارے گھوڑوں اور دیگر جانوروں کو بھی مار ڈالیں گے۔ آخر میں مرنے سے پہلے ہر شخص ساتھ والے کو قتل کردے گا۔ ہم عزت کے ساتھ مریں گے یا عزت کے ساتھ فتح حاصل کریں گے۔‘‘ صلاح الدین ایوبی نے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ سب نے صلیبیوں کی درخواستیں ماننے کا مشورہ دیا، ’’ہمیں چاہیے کہ انھیں پہلے ہی سے اپنا قیدی سمجھیں‘‘، انھوں نے کہا ’’اور فدیے کی شرائط پر معاملہ طے کرلیں۔‘‘
سلطان نے ایک سمجھوتے پر عیسائیوں کو تحفظ کی ضمانت دے دی۔ طے پایا کہ ہر مرد خواہ امیر ہو یا غریب دس درہم، بچے دو دینار، اور عورتیں فی کس پانچ دینار فدیہ ادا کریں گے۔ جو چالیس روز کے اندر یہ فدیہ ادا کردیں گے، آزاد ہوں گے۔ جو یہ فدیہ ادا نہیں کرپائیں گے، غلام بنا لیے جائیں گے۔ بالیان ابن بارزان نے غرباء کے لیے تیس ہزار دینار کی پیشکش کی، جسے قبول کرلیا گیا، اور یوں صلیبی یروشلم نے 2اکتوبر 1187ء کے دن ہتھیار ڈال دیے۔ ایک یادگار دن کہ جب یروشلم کی فصیلوں پر مسلمانوں کی فتح کے پرچم لہرائے گئے۔
فرینکس کا سب سے بڑا اسقف اعظم گنبد صخرہ، مسجد اقصیٰ، چرچ آف ریسرکشن اور دیگر عبادت گاہوں کی ساری دولت ساتھ لے کر چلا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کتنی دولت تھی۔ اتنی ہی رقم بھی اُس نے ساتھ لی، مگر سلطان صلاح الدین ایوبی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ جب پوچھا گیا کہ کیوں اتنا مالِ غنیمت جانے دے رہے ہو، جو اسلام کی فلاح کے لیے استعمال ہوسکتا ہے؟ سلطان نے کہا کہ عہد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اُس نے اسقف اعظم سے صرف دس دینار ہی وصول کیے، اور اُسے جانے دیا۔ شہرجب قبضے میں لے لیا گیا، اور صلیبی یروشلم خالی کرگئے تو صلاح الدین نے حکم دیا کہ ساری عبادت گاہوں کو اصل حالت میں واپس لایا جائے۔ گنبد صخرہ کوگندگی سے پاک کردیا گیا۔‘‘
سچ کے اس لمحے میں، صلاح الدین ایوبی نے اسلام کے لیے یروشلم فتح کیا، مگر کوئی انتقام نہ لیا۔ اُس نے تقریباً ایک لاکھ عیسائیوں کو پُرامن طور پر شہر چھوڑنے کے لیے ایک مہینہ دیا۔ انھیں فدیہ کی ادائیگی کے بعد اپنے پورے سامان کے ساتھ شہر چھوڑنے کی مکمل آزادی دی۔ یہاں تک کہ وہ امراء، نواب جن کی دولت بے شمار تھی، جن کے گھر زر و جواہر سے بھرے تھے وہ بھی دس دس دینار کے بدلے سب کچھ ساتھ لے کر رخصت ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے، جن کے آباء نے اسی شہر میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ سلطان کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ مسیحی پادری ہراکلیس کے پاس اتنی دولت ہے کہ غریب مسیحیوں کا فدیہ ادا ہوجائے، مگر سلطان نے وہ رقم لینے سے انکار کردیا۔ زر فدیہ لے کر ہر مسیحی کو امان دے دی، اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کرسکے اُن کے فدیے کی رقم خود اور اُس کے بھائی ملک عادل نے ادا کی۔ یقیناً یہ افعال اور اقدامات قابلِ ذکر ہیں۔
اس سے اگلا مرحلہ 1192ء میں شروع ہوا، جب معروف صلیبی سپہ سالار رچرڈ شیر دل یروشلم پر حملے کے لیے پلٹا۔ بڑی جدوجہد کے باوجود، یہ مہم ناکام ہوئی۔ اور پھر جنگی تاریخ کی شاید سب سے انوکھی بات ہوئی، جس طرح ہارون رشید اور شارلمین کے مابین دوستی ہوئی تھی، اسی طرح صلاح الدین ایوبی اور رچرڈ شیر دل میں بھی راہ و رسم چلی۔ یہ دونوں کبھی بالمشافہ نہیں ملے، مگر ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی کا جذبہ سامنے آیا۔ دونوں جانب سے زیادہ سے زیادہ وسعتِ قلبی اور سخاوت کا مظاہرہ کیا گیا۔ عکا کے محاصرے کے وقت جب رچرڈ شیردل کی طبیعت خراب ہوئی تو سلطان نے ذاتی طبیب کو علاج کے لیے بھیجا، اس کے علاوہ تازہ پھل اور برف بھی بھجوائی، تاکہ مسیحی سپہ سالار کے بخار کا توڑ کیا جاسکے۔ جب دورانِ جنگ رچرڈ کا گھوڑا ہلاک ہوا، اور پاپیادہ سپہ سالار کو پوری مسلمان فوج کے گھیراؤ کا سامنا ہوا، تو لشکر نے اس کے لیے رستہ چھوڑ دیا، اور عزت و تکریم سے جانے دیا۔ بعد میں سلطان نے اُسے دو تازہ دم گھوڑے ہدیہ کیے تاکہ اس معاملے میں اُسے کمی کا سامنا نہ ہو۔
آخرکار رچرڈ شیردل نے صلیبی مہم سے ہاتھ اٹھا لیا۔ افواہیں گرم تھیں کہ مخالفین انگلینڈ میں اُس کے خلاف سازش کررہے تھے۔ جتنی دیر وہ زمینِ مقدس پر ٹھیرتا، اُس کا پایۂ تخت خطرے میں پڑجاتا۔ صلاح الدین نے اُسے باعزت انخلاء کا بھرپور موقع دیا۔
فرانسیسی مؤرخ Rene Grousset لکھتا ہے: ’’یہ سچ ہے کہ صلاح الدین کی کشادہ دلی، پارسائی، خدا ترسی، امن پسندی، اور شائستگی بے مثل تھی۔ وہ فرانسیسی شام میں بھی اتنا ہی مقبول تھا جتنا مقبول وہ مسلم دنیا میں تھا۔‘‘
تیرہویں صدی کے ایک عظیم یورپی شاعر نے سلطان صلاح الدین کی بابت لکھا کہ دانتے جیسی ہستی جسے عیسائیوں اور غیر عیسائیوں میں یکساں پسند کیا گیا، یا کوئی ملحد اُس درجے تک نہ پہنچا کہ جہاں یونانی ہومر، افلاطون وغیرہ پہنچے، لیکن صلاح الدین ایوبی ان سب سے عظیم تر ہے، اسے اُس کیٹگری میں رکھنا چاہیے جسے ’’عظیم روحیں‘‘ پکارا جاتا ہے، اور یہ اُن انسان دوست پالیسیوں کے سبب ہے جو اُس نے صلیبی جنگ کے دوران اختیار کیں۔