کورونا وائرس کی عالمی وبا کی تباہ کاری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں چین کے شہر ووہان سے اس وبا کا آغاز ہوا تھا۔ چوتھے ماہ میں یہ وبا پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ متاثر ہونے والے ممالک کی تعداد 200 تک پہنچ گئی ہے۔ امریکا اور برطانیہ سمیت یورپ اور ایشیا کا کوئی ملک بھی اس وبا کی ہلاکت سے محفوظ نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار شاید ایسا بحران سامنے آیا ہے، جس نے پوری دنیا کو بیک وقت معطل اور مفلوج کردیا ہے۔ عالمی طاقتوں کے قائدین اور ماہرین ابھی تک یہ بتانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں کہ پوری دنیا کو مفلوج کردینے والی عالمی وبا کا حقیقی سبب کیا ہے اور کب تک اس وبا پر قابو پالیا جائے گا۔اس عالمی وبا نے پوری دنیا میں ہر قسم کی روزمرہ سماجی اور اقتصادی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کورونا کی عالمی وبا نے انسان کی بے بسی کو ایک مرتبہ پھر آشکار کردیا ہے۔ دنیا کے قائدین کورونا کی وبا کو نظر نہ آنے والے دشمن کے خلاف ’’عالمی جنگ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس ’’جنگ‘‘ کا پہلا قدم ’’لاک ڈائون‘‘ ہے، یعنی بستیوں کی بستیوں کو قید کردیا جائے۔ مستقبل پر نظر رکھنے والے ماہرین کو موجودہ بحران کی تباہ کاریوں سے زیادہ مستقبل کی فکر ہے۔ اس لیے کہا جارہا ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں جو اقتصادی بحران سامنے آئے گا اس کے اثرات معیشت، معاشرت کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات پر بھی گہرے پڑیں گے۔ یہ بحران ایک ایسے دور میں آیا ہے کہ جدید سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کے بعد دنیا کے قائدین یہ دعویٰ کررہے تھے کہ انہیں قوانین قدرت پر بھی تسلط حاصل ہوگیا ہے، لیکن صرف ایک معمولی جرثومے نے انسان کی بے بسی عیاں کردی ہے۔ اس کے باوجود کیا آج کا انسان توبہ و استغفار کرنے کے لیے تیار ہے؟، یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا، جب تک کائنات کی تخلیق اور اس میں انسان کے مقصد وجود کا علم حاصل نہ ہو۔ یہ عظیم کائنات، زمین، آسمان، یہ نظام شمسی کس لیے تخلیق کیے گئے ہیں، کیا اس کائنات کو مسخر کرلینے والے ابن آدم اور اس کی ذریت کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو دنیا میں آنے والے حوادث کے معنی بھی معلوم ہوجائیں گے۔ اس کائنات کی عمر اربوں برس بتائی جاتی ہے، لیکن اس کائنات میں تصرف کرنے والے انسانوں کو کتنی مہلت عمر ملتی ہے، ممکن ہے کہ ماضی میں ہزار برس کی عمر بھی دی گئی ہو جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کو دی گئی تھیـ، لیکن وہ اس طرح زندگی بسر کرتا ہے جیسے اسے مرنا ہے ہی نہیں، انسان بیمار ہو یا صحت مند اسے بہرحال مرنا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا موت ہی فنا کا نام ہے یا ایک نئی زندگی کا دروازہ، انسانی زندگی میں آنے والا ہر حادثہ انسان کو یاد دلانے کے لیے آیا ہے کہ اسے بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا ہے۔ یہ کائنات بے مقصد تخلیق نہیں کی گئی ہے۔ اس کائنات کو کیوں پیدا کیا گیا ہے۔ علم حقیقی اسی سوال کا جواب ہے۔ علم کی ترقی کے باوجود اگر اس سوال کا جواب نہیں مل رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا ’’عالم‘‘ کائنات کے خالق اور رب سے غافل ہے۔ علم حقیقی اور حکمت و دانائی کی سب سے بڑی علامت کائنات کے رب اور تخلیق کائنات کے مقصد کا شعور ہے، ایسے لوگوں کو قرآنی اصطلاح میں ’’اولوالالباب‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو زمین و آسمان کی تخلیق پر اللہ کو یاد کرتے ہوئے غور و فکر کرتے ہیں تو بے ساختہ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اس کائنات کو بے مقصد نہیں پیدا کیا گیا ہے۔ اس کائنات پر انسان کو تسخیر کی جو قوت عطا کی گئی ہے، اس کا احتساب ہوگا۔ خلائوں پرکمندیں ڈالنے والے عہد جدید کے انسان کو اسی ’’یوم الدین‘‘ اور یوم حساب کا انکار ہے، اسی وجہ سے پے بہ پے حوادث اتارے جاتے ہیں کہ کائنات کے خالق کو یاد کریں اور جس مقصد کے لیے انہیں اس دنیا میں بھیجا گیا ہے اسے پورا کریں تو آسمان سے فرشتے اتارے جائیں گے۔ انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا گیا ہے اور اس کی گواہی کے لیے بلدامین مکہ مکرمہ اور طورسنیا کو گواہی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ طورسنیا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مالک کائنات نے بلایا اور پردے کے پیچھے سے باتیں کیں۔ بلدامین مکہ مکرمہ سے خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مکان و لامکاں کی سرحد سدرۃ المنتہیٰ پر مہمان بناکر اسرار کائنات عطا کیے گئے۔ اس سے قبل موسیٰ و محمدؐ کے جداجد ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملکوت السمٰوت والارض یعنی کائنات پر رب کائنات کی حکومت دکھائی گئی تھی، لیکن آج کے انسان نے اپنے مقصد تخلیق اور اپنے رب سے غافل ہوکر روئے روض کو فساد اور بگاڑ سے بھر دیا ہے۔ دنیا بھر کی جنگیں اور موسمیاتی تبدیلی مفسدین کے غلبے کا سبب ہے۔ ہر حادثہ اس غافل انسان کو خبردار کررہا ہے کہ تم اس کائنات اور اس کے وسائل کے مالک نہیں ہو۔ ظلم سے بھری ہوئی دنیا میں عدل و انصاف کا قائم کرنا خدا کے بندوں کا اصل فرض ہے۔