ادب میں اسلامی تصورات کے فروغ کا نقیب
محمد اسلم لودھی
پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن 19کتوبر 1934ء کو ضلع سیالکوٹ کے نواحی شہر پسرور میں ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مستری عبدالعزیز صاحب (مرحوم) کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ اس خاندان میں مذہبی اور اسلامی اقدار کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ ابتدائی برسوں میں معاشی تنگ دستی کے باوجود آپ کی شخصیت پر کبھی اس کا احساس غالب نہیں رہا، بلکہ آپ نے بچپن کے ابتدائی سال نہایت خود اعتمادی اور خودداری کے ماحول میں بسر کیے۔ آپ کے گھرانے کو ایک روشن خیال دینی اور علمی گھرانہ بھی قرار دیا جاسکتاہے کیونکہ آپ کو اوائل عمر میں ہی اپنے گھر میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، مولانا عطا اللہ شاہ بخاری، چودھری افضل حق، مولانا ظفر علی خان، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احمد علی ( لاہوری)، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصانیف میسر رہیں، جن کا مطالعہ ہمیشہ آپ کی دلچسپیوں میں شامل رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کردار سازی کے اعتبار سے بچپن اور لڑکپن کی عمر کو ہی نہایت اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اگر اس عمر میں انسانی سرگرمیاں مثبت اور اسلامی اقدار کے مطابق ہوں تو مزاج میں شامل ہونے والی یہ خوبیاں پوری زندگی انسان کو صحیح راستے پر گامزن رکھتی ہیں۔ اسے بھی خوش قسمتی قرار دیا جاسکتا ہے کہ دینی ماحول کے ساتھ ساتھ آپ کو اپنے گھر میں علمی اور ادبی فضا بھی میسر رہی۔ یہ بات اس طرح پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ آپ کے ماموں حمید نجمی اپنے وقت میں لاہور کے ادبی حلقوں میں افسانہ نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔ نجمی صاحب کے 1942ء تا 1946ء لاہور میں قیام کے دوران حضرت احسان دانش سمیت ممتاز ادیبوں اور شاعروں سے بھی مراسم قائم رہے۔ لاہور سے شائع ہونے والے رسائل میں (جن میں ایوننگ اسٹار، ہفت روزہ اداکار، ویکلی تیج شامل تھے) ان کے افسانے اور تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ ماہنامہ بیسویں صدی (جو دہلی سے شائع ہوتا تھا) کے صفحات پر بھی کئی تحریریں شامل اشاعت ہوئیں۔ حمید نجمی بعض رسالوں کے معاون مدیر بھی رہے۔ ان کے دوافسانوی مجموعے مرتب ہوچکے تھے لیکن اشاعت کی نوبت نہ آسکی۔ ایک مجموعے کا نام ’’گریہ و تبسم‘‘ تھا۔
ماموں کی ان ادبی سرگرمیوں اور مشاغل نے پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے،کیونکہ ان کی ذاتی لائبریری میں اُس دور کے تمام ادبی رسالوں کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ ’’پھول‘‘ باقاعدگی سے نہ صرف آتا تھا بلکہ اس کے شماروں پر مشتمل کچھ جلدیں بھی محفوظ تھیں جن میں شائع ہونے والے مضامین اور نظمیں اوائل عمر میں ہی آپ کی دلچسپی کا مرکز رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن میں ہی گھر سے ملنے والے ادبی اور علمی ماحول نے آپ کی شخصیت پر گہرے نقوش مرتب کیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا ذوقِ مطالعہ بھی پروان چڑھتا رہا۔ حضرت علامہ محمد اقبال کے افکار اور شاعری کو بھی پڑھنے کا موقع میسر آیا۔ آپ کے مطالعے میں انگریزی ادب کے بعض تراجم بھی آئے۔ اسی طرح میٹرک کی عمر کو پہنچنے تک آپ ملک کی بہت سی دینی، ادبی اور سیاسی شخصیات کے بارے میں خاصی آگا ہی حاصل کرچکے تھے۔
آپ کے ادبی ذوق کی تربیت میں گورنمنٹ ہائی اسکول پسرور کے استادِ گرامی جناب طاہر شادانی، رائے احمد دین، محمد منیر، اور مرے کالج سیالکوٹ کے پروفیسر آسی ضیائی کا بہت عمل دخل رہا۔ زندگی کے اسی دور میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی شخصیت، تحریک اور افکار سے بھی آپ کو تعارف حاصل ہوا، بعد ازاں یہی تعارف آپ کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی عنصر کی حیثیت اختیار کرگیا۔ 1949 میں شورش کاشمیری کا ہفت روزہ رسالہ’’چٹان‘‘،’’تعلیم تربیت‘‘، ’’بچوں کی دنیا‘‘ اور’’ستارہ‘‘، اور’’ہمارا پنجاب‘‘ بھی آپ کے مطالعے میں شامل ہوگئے۔ یہی وہ دور تھا جب آپ نے حفیظ الرحمٰن غازی پسروری کے نام سے لکھنے کا آغاز کیا اور آپ کی مزاحیہ شعری نگارشات سب سے پہلے’’ستارہ‘‘ میں شائع ہوئیں۔ یہی تجربہ بعد میں شعر گوئی کی بنیاد بنا۔ اس بنیاد کو مضبوط بنانے میں پروفیسر محمد خاں کلیم کی سرپرستی اور رہنمائی کا بہت دخل ہے۔
میٹرک میں آپ اپنے اسکول میں تیسرے نمبر پر آئے۔ 1951ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں داخلہ لے لیا لیکن سائنسی مضامین سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ایف ایس سی میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بعد میں شعبہ آرٹس کی طرف متوجہ ہوئے اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔ 1952ء میں آپ نے اسلامی جمعیت طلبہ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ 1956ء میں گریجویشن کا امتحان پاس کیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں عربی کے مضمون میں آپ کی پہلی پوزیشن کی وجہ سے آپ کو وظیفے کا حق دار ٹھیرایا گیا۔ اس طرح ایم اے عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ نے اسلامیہ کالج سول لائنز کے واسطے سے پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔ 1959ء میں ایم اے عربی میں پنجاب یونیورسٹی کی سطح پر آپ کی پوزیشن تیسری تھی۔ 18 دسمبر 1959ء کو آپ نے زندگی کی پہلی تدریسی ملازمت کا آغازگورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج فیصل آباد (لائل پور) میں بطور عربی لیکچرار کیا۔ ستمبر1962ء میں آپ کا تبادلہ گورنمنٹ کالج سرگودھا ہوگیا، یہیں پر اس عارضی ملازمت کا اختتام ہوا۔ پھر ستمبر 1963ء میں مرے کالج سیالکوٹ میں بطور عربی استاد دوبارہ ملازمت کا آغاز کیا۔ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ آپ نے حصولِ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ چنانچہ 1965ء میں آپ نے ایم اے اردو کا امتحان بھی درجہ دوم میں پاس کرلیا۔ 1966ء میں مرے کالج کی ملازمت چھوڑ کر مستقل طور پر آپ لاہور میں قیام پذیر ہوگئے۔ یہاںایک سال تک اشاعتِ تعلیم کالج میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ 1965ء ہی میں آپ نے اپنے ممتاز اور معروف اشاعتی ادارے ’’ایوانِ ادب‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اسی ادارے کے زیر اہتمام پروفیسر آسی ضیائی، پروفیسر طاہر شادانی، پروفیسر محمد حنیف، پروفیسر عبدالحمید ڈار، پروفیسر امین جاوید جیسے رفقائے کار کے اشتراکِ عمل سے آپ نے کئی دہائیوں تک شعبہ اردو، سیاسیات اور معاشیات میں حکمرانی کرنے والی کتب کی اشاعت اور ترویج کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ تمام کتابیں اپنے دور کی بہترین تدریسی کتب سمجھی جاتی تھیں۔ لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات نے ان کتابوں سے استفادہ کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آپ کی سرپرستی میں چلنے والے ادارے ’’ایوانِ ادب‘‘ کی شائع کردہ یہ کتابیں چالیس سال تک تدریسی اور تعلیمی حلقوں میں اہم دستاویز کی حیثیت سے تسلیم کی جاتی رہیں۔1980ء میں ابتدائی اردو کی تدریس کے لیے ’’اردو کا خوبصورت قاعدہ‘‘ اور ’’اردو کی خوبصورت کتاب اول و دوم‘‘ بھی آپ کی تحقیقی اور تخلیقی کاوشوں میں شامل ہے۔ اس میں پروفیسر محمد ارشد خان بھٹی اور ان کی اہلیہ بھی شریک رہیں۔
دورِ طالب علمی میں آپ مرے کالج میگزین کے طالب علم مدیر بھی رہے، جبکہ 1955ء تا 1956 ء محمد سرور قریشی کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’’الفقر‘‘ سے بطور مدیر معاون ایک سال تک منسلک رہے۔1967ء میں مظفر بیگ کی ادارت میں شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’آئین‘‘ لاہور سے وابستہ ہوئے۔ اس رسالے سے آپ کی وابستگی کئی سال تک چلتی رہی۔ رسالہ آئین کے لیے آپ نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بے شمار تقاریر، خطابات اور دروسِ قرآن و حدیث ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے مرتب کرکے شائع کیے۔ ان مرتب کردہ دورسِِ حدیث کے تین مجموعے ’’کتاب الصوم‘‘، ’’فضائلِ قرآن‘‘ اور ’’کتاب الدعوات‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ سید مودودیؒ کی عصری مجالس کی گفتگوئوں کو’’ 5-A ذیلدار پارک جلد سوم‘‘ کے نام سے مرتب اور شائع کیا۔
1970ء کی آخری سہ ماہی میں آپ ماہنامہ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ سے بھی وابستہ ہوگئے۔ مختصر ترین عرصے میں اہم موضوعات پر آپ نے متعدد یاد گار تحریریں رقم کیں۔
1976ء میں جناب نعیم صدیقی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی اور اسلامی رسالے ’’سیارہ‘‘ سے وابستگی کا آغاز ہوا۔ اسلامی روایات کا امین یہ رسالہ ضخیم اشاعتوں کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اپنی نوعیت کا پاکستان بھر میں یہ واحد ضخیم رسالہ ہے جو گزشتہ 37 سال سے ادبِ اسلامی کے فروغ کے لیے مسلسل کام کررہا ہے۔ اس رسالے کا یہ امتیاز اور اختصاص اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ برصغیر پاک و ہند کے علمی اور ادبی حلقوں میں سیارہ کی ان ادبی خدمات کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اس کے معیار کو نہایت قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس رسالے میں نہ صرف پاکستان کے ممتاز ادیبوں اور شاعروں کی پُر تاثیر تحریریں شائع ہوتی ہیں بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں اردو زبان میں اسلامی ادب کے فروغ میں مصروف اہلِ قلم کے تحقیقی مضامین اور تخلیقات بھی نہایت اہتمام سے شائع کی جاتی ہیں۔ مہنگائی اور خودغرضی کے اس دور میں ضخیم اشاعتوں پر مشتمل رسالے کی اشاعتوں کو جاری رکھنا بھی کسی جہاد سے کم نہیں ہے، کیونکہ جو بات تلوار سے نہیں کہی جاسکتی وہ الفاظ کی صورت میں انسانی ذہن و دل کو ضرور متاثر کرتی ہے۔ پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کی رائے میں اسلامی ادب سے مراد وہ ادب ہے جو اسلام کے تہذیبی تصورات اور اخلاقی اقدار کو تقویت پہنچاتا ہو۔
آپ کے بقول جہاں آپ کی شخصیت پر والدین کی تربیت اور اساتذہ کی رہنمائی کا بہت دخل ہے وہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی شخصیت، تحریک، اور علمی کاموں سے آگاہی نے بھی آپ کی شخصیت میں حد درجہ نکھار پیدا کیا۔ مولانا کے افکار، ان کی رفاقت اور قربت کے اثرات آپ کی شخصیت پر نمایاں طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آپ کے نزدیک مولانا مودودی اردو کے سب سے بڑے نثر نگار تھے۔
زمانۂ طالب علمی میں ایک اور شخصیت (پروفیسر) محمد شریف کھوکھر کی رفاقت اور رہنمائی ان کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔ وہ آغازِ شباب ہی میں دین و ادب پر وسیع نظر رکھتے تھے۔ محمد شریف کھوکھر انٹرمیڈیٹ میں ان کے ہم سبق تھے۔ پھر ایک دور وہ بھی آیا جب رفیقِ کار کی حیثیت سے مرے کالج کے شعبۂ تدریس سے وابستہ رہے۔ محمد صلاح الدین شہید (مدیر ہفت روزہ تکبیر کراچی) کی شخصیت اور شہادت نے بھی آپ کو بے حد متاثر کیا۔ آپ کے رفقائے کار میں اسکول کے زمانے کے دوست جناب خالد حسین گل، جناب محمد یونس گوہر کے علاوہ جناب محمد انور میر (مرحوم)، پروفیسر محمدشریف کھوکھر، جناب زکی زاکانی (مرحوم)، پروفیسر جعفربلوچ (مرحوم)، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی وغیرہم شامل ہیں۔
آپ کی تخلیقات اور تصنیفات میں آپ کا شعری مجموعہ ’’فصلِ زیاں‘‘، ’’ننھی منی خوبصورت نظمیں‘‘ (بچوں کے لیے شاعری)، ’’موج سلسبیل‘‘ (حمد و نعت)، ’’ستارہ شامِ ہجراں کا‘‘، اور ’’نوائے راز‘‘ (غزلیں) شامل ہیں۔ بو قلم کے عنوان کے تحت علمی اور ادبی مضامین بھی منتظر اشاعت ہیں۔ 1965ء کی رزمیہ نظموں کے اوّلین مجموعے ’’گل بانگِ جہاد‘‘کی اشاعت کا سہرا بھی آپ کے سر جاتا ہے۔ متحدہ پاکستان کے آخری دور میں ایک کتاب ’’جماعت اسلامی اور مشرقی پاکستان‘‘ کے نام سے بھی مرتب کرکے شائع کی۔
آپ کے نزدیک حضرت علامہ محمد اقبال دورِ حاضر کے ممتاز ترین مفکر اور شاعر ہیں، کیونکہ انہوں نے جس طرح اسلامی اقدار و تصورات اور تعلیمات کو شعر کی زبان عطا کی ہے، وہ انہیں اس دور کے سب سے بڑے اسلامی ادیب کے منصب پر فائز کرتی ہے، بلکہ برصغیر پاک و ہند میں ادبِ اسلامی کی تحریک کا بنیادی تصور اقبال ؒ ہی کا آفریدہ ہے۔ اسی طرح مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی ذات بیسویں صدی کی سب سے بڑی دینی شخصیت تھی جو اردو کے بھی باکمال نثر نگار ہیں، ان کی فکر سے متاثر ہوکر پورے عالم اسلام میں اسلامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور اسلام کے روشن مستقبل کی علامت بن رہی ہیں۔
اگست 1960ء میں آپ کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیوں اور تین بیٹوں سے سرفراز کیا۔ پہلا بیٹا اپنی پیدائش کے ایک ہفتے بعد ہی داغِ مفارقت دے گیا، جبکہ دوسرا بیٹا بلال فاروق میٹرک کی تعلیم کے دوران فوت ہوگیا۔ یہ آپ کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا، لیکن اسلامی ماحول میں تربیت اور رب کائنات پر کامل ایمان کی وجہ سے آپ نے یہ صدمہ نہایت صبر اور استقامت سے برداشت کیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
بہرکیف تیسرا بیٹا سلمان فاروق ایم بی اے کرنے کے بعد نہ صرف اچھی ملازمت کررہا ہے بلکہ 20 دسمبر 2008ء کو رشتہ ازدواج میں بھی بندھ چکا ہے۔ اب تو ماشاء اللہ سلمان کے گھر بچوں کی رونق بھی لگ چکی ہے۔ پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کے بقول سب بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان کی والدہ کا زیادہ حصہ شامل ہے۔ گھر میں ملنے والا پاکیزہ اور دینی ماحول بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کی زندگی میں چند واقعات ایسے بھی رونما ہوئے جن سے آپ شدت سے متاثر ہوئے۔ ان واقعات میں پہلا واقعہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ کر پاکستان کو اندھیرے غار میں دھکیل دیا۔ دوسرا واقعہ ایوب خان کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کا تھا۔ جبکہ تیسرا المیہ سقوط مشرقی پاکستان کا تھا۔ چوتھا صدمہ انگیز لمحہ وہ تھا جب 1979ء میں مولانا مودودیؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مارچ 1990ء میں عمرہ کی سعادت بخشی۔ حرم بیت اللہ اور مسجدِ نبوی میں جو وقت گزرا وہ آپ کی زندگی کا سب سے اہم اور قیمتی ترین سرمایہ ہے۔
آپ نے اپنی پوری زندگی کو دین کی ترویج، اسلامی ادب کے فروغ اور معاشرتی فلاح کے لیے وقف کیے رکھا۔ حالانکہ یہ شہرت کا دور ہے، ہر لکھنے والا اپنی اوقات اور بساط سے بڑھ کرشہرت کا تقاضا کرتا ہے، لیکن پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن کی شکل میں یہ عظیم شخص نہ صرف بہت اچھا شاعر، معیاری ادب کا نقیب اور سرچشمۂ فیض ہے، بلکہ زمانے کی بدلتی ہوئی قدروں کے ساتھ دوڑنے کے بجائے اپنی ہی ذات تک محدود زندگی گزار رہا ہے۔ اسلامی ادب اور روایات کے امین اس شخص کی زندگی علم و ادب کے ہر طالب علم کے لیے روشنی کا مینار ہے، جس کی روشنی انسانی دلوں کو نہ صرف ایمان کی قوت فراہم کرتی ہے بلکہ پاکیزہ علمی و ادبی روایات کو پروان چڑھانے کا عزم اور حوصلہ بھی عطا کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم کا یہ بڑا اعزاز ہے کہ پروفیسر حفیظ الرحمٰن احسن ہمارے درمیان موجود تھے۔ وہ سرچشمۂ علم ہی نہیں، سرچشمۂ فیض بھی تھے۔ (مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے دس برس اُن کی سرپرستی میں گزارے۔ پڑھنے، لکھنے اور سوچنے کی میری صلاحیت انہی کی پیدا کردہ ہے، میں آج جو کچھ بھی ہوں اُن کی دعائوں، تربیت، رہنمائی اور عنایتوں کا ثمر ہے)۔
بالآخر 22فروری 2020ء کو وہ منحوس گھڑی بھی آپہنچی جب وہ طویل علالت کے بعد قضائے الٰہی سے انتقال فرما گئے۔ بے شک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کی ہی جانب لوٹ جانے والے ہیں۔
(’’حفیظ الرحمٰن احسنؒ۔ حیات و خدمات‘‘۔ زیر ترتیب کتاب از پروفیسر نورورجان سے انتخاب)