انسانوں پر اللہ اور اس کے رسولؐ سے زیادہ کوئی مہربان نہیں اور نہ کوئی راہ دکھانے والا۔ فطرت سلیم ہو تو آسانی سے یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے، ورنہ تاریکی۔ بادل اور شب کی گہری تاریکی۔ برق چمکتی ہے تو پل بھر کو راہ نظر آتی ہے اور پھر وہی اٹوٹ اندھیرا۔ ارشاد کیا: اگر کسی کے پاس دو دینار ہوں اور ایک صدقہ کردے تو وہ ہزاروں دینار پہ بھاری ہوگا۔ فرمایا: کسی مریض کا صدقے سے بہتر علاج نہیں کیا گیا۔ صدقہ رحمت کا دروازہ کھولتا اور حسّیات کو روشن کردیتا ہے۔ استثنا پیدا کرتا اور نجات کی راہ دکھاتا ہے۔ پھر پرہیز اور علاج ہے۔ دنیا بھر کے معالج اب اس پہ متفق ہیں کہ مسلسل تنہائی، ہاتھ دھوئے رکھنے، جراثیم کُش لوشن senitizer لگانے اور فاصلہ رکھنے سے حفاظت ممکن ہے۔ سو فیصد تحفظ ممکن نہیں۔ موت کا وقت آپہنچا ہے تو مفر نہیں۔ لیکن وبا کی موت شہادت کی موت ہے۔ آیتِ کریمہ کے بارے میں ارشاد یہ ہے: جلد شفا ہوگی ورنہ اسی کو پڑھتا ہوا وہ جنت میں چلا جائے گا۔ اللہ کے طے کردہ حلال اور حرام ہیں۔ اصرار کے ساتھ فرمایا گیا:”ان چیزوں میں سے کھائو جو زمین میں حلال، پاکیزہ ہیں“۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ آغاز چمگادڑ سے ہوا۔ مدافعتی نظام اس کا اتنا مضبوط ہے کہ وائرس اس کے اندر پرورش پاتا اور طاقتور ہوتا چلا جاتاہے۔ ایک آدھ نہیں چار وائرس اس سے پھیلے ہیں۔ آدمی کو سبق سیکھ لینا چاہیے تھا مگر نہ سیکھا۔ کیوں یہ مصیبت نازل ہوئی؟ ایک تو یہی حرام۔ ثانیاً یہ کہ زمین ظلم سے بھر گئی تھی۔ 57 اسلامی ممالک میں سے کوئی ایک بھی اویغور مسلمانوں کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ دن رات یمن کے بے گناہوں پہ بمباری ہوتی ہے اور کوئی بولتا ہی نہیں۔ روہنگیا، چیچنیا، کشمیر اور شام کے مظلوم مسلمان کس عذاب سے گزرے اور گزر رہے ہیں۔ پھر سرمایہ دار طبقات ہیں، جو انسانوں کا لہو پیتے رہتے ہیں۔ طاقتور ممالک کمزور قوموں کو اجاڑنے کے درپے رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو عرب خاموش کہ کاروباری مفادات عزیز ہیں۔ بھارت نے کشمیر اور امریکہ نے ایران اور وینزویلا کا محاصرہ کیا تو عالمی ضمیر سویا رہا۔ آدمی جب جانور ہوگیا اور محض جبلتوں کی تسکین میں مبتلا، تو آزمائش اتری۔ جسمانی طہارت کا مسلمان خیال رکھتے ہیں مگر کوچہ و بازار کی صفائی سے بے نیاز۔ ایران اور بوسنیا کے سوا شاید ہی کوئی مسلمان ملک ہو، جس میں صفائی کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہو، حالانکہ یہ شرطِ ایمان ہے، اور یہ بات بنی نوعِ انسان کے سب سے بڑے محسن نے بتائی تھی۔ بھولنے والی نہ تھی مگر ہم نے بھلا دی۔ سب کچھ ہی بھلا دیا۔ الا بلا ہم کھاتے رہتے ہیں۔ بوتل بند مشروبات، ڈبوں میں بند خوراکیں اور کھانے پینے کی وہ اشیا جو ہفتوں اور مہینوں الماریوں میں پڑی رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے تازہ کھانا تھا۔ سادہ، صحت مند اور قوت بخش۔ دودھ، پھل اور سبزیاں۔ زیتون، جو اور شہد۔ اپنا ذائقہ مگر اس نے بگاڑ لیا اور اب قیمت چکا رہا ہے۔ ساری دنیا بین الاقوامی کمپنیوں کی اسیر ہے، حکومتیں ان کی سرپرست اور میڈیا ان کا غلام۔ لندن میں ایک شہری نے چند دن ایک مشہور مشروب اور اس کمپنی کی خوراک پہ اکتفا کیا، پرسوں جس نے دنیا بھر میں پھیلے اپنے 35 ہزار ریستوران بند کیے ہیں۔ پھول کر کپّا ہوگیا۔ اسی پر بسر کرتا تو زندگی خطرے میں پڑ جاتی۔ بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بے دلی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں۔ آدمی اگر صفائی کو شعار کر لے۔ حرام اور حلال میں تمیز کرنے لگے اور ظلم کی ایسی فراوانی نہ ہو تو کیا عجب ہے کہ جلد ہی علاج دریافت ہوجائے۔ چند ماہ تو بہرحال اسی حال میں بِتانا ہیں۔ آدمی سفاک ہوگیا تھا۔ معیشت کی تباہی اور موت کے خوف سے دل اب نرم پڑتے جارہے ہیں۔ جرائم کم ہورہے ہیں اور عادات تبدیل کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ بار بار اب ہاتھ دھونے ہیں۔ چہرے کو چھونے سے گریز کرنا ہے۔ تنہائی مسلط ہے اور اس لیے کہ آدمی غور و فکر کرے۔ یہی تو پروردگار چاہتا تھا۔ یہی تو اس نے فرمایا تھا: گونگے، بہرے اور اندھے سوچتے نہیں۔ گہرے غور و فکر، خوراک کی تبدیلی، عادات اور اندازِ فکر کی تبدیلی ہی میں بقا ہے۔ فرمایا: بحر و بر ظلم سے بھر گئے، اور یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مالک کی منشا اس کے سوا کیا ہے کہ آدمیت اپنی اصلاح کرے۔
( ہارون رشید،روزنامہ 92نیوز۔ بدھ 25 مارچ 2020ء)
کورونا اور علاج
ڈاکٹر طاہر شمسی کا غیر معمولی نام ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ ان کی رائے کے سامنے سب نے سر تسلیم خم کرلیا تھا۔ ان کی دین داری اور خدا ترسی کا بھی چرچا ہوا تو دل ان کی طرف اور مائل ہوا۔ وہ کورونا کا ایک ممکنہ علاج بتا رہے تھے۔ اس وقت میرے دائیں بائیں دو سائنس دان موجود تھے۔ ایک میری اہلیہ جو وائرولوجی کی ماہر ہیں۔ دوسرے ایک دوسرے سائنس دان جنہوں نے ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ وہ امریکہ میں بھی رہے ہیں اور چین میں بھی کام کرکے آئے ہیں۔ وہ مجھے ایک دن پہلے ہی بتا رہے تھے کہ چین میں وائرس کے تین بڑے مراکز تھے جن میں ایک ووہان گنا جاتا ہے۔ وہ آج کل لاہور آئے ہوئے تھے۔ مجھے بتاتے رہے کہ چین میں اس پر کیا کام ہوا ہے۔ وہاں سائنس کس قدر ترقی کرچکی ہے۔ اب جب ڈاکٹر شمسی نے بات کی تو مجھے اُس گفتگو سے ڈانڈے ملتے دکھائی دیے جو ہم دو دن سے کررہے تھے۔ بس بحث چھڑ گئی۔ جب ویکسین بنانے کا طریقہ ایجاد نہ ہوا تھا اور انسان اس طریقہ کار سے واقف نہ تھا کہ پولیو، ریبیز(کتے کے کاٹنے کی بیماری) اور خسرہ وغیرہ کا علاج کیسے ہوتا ہے۔ اس وقت نوعِ انسانی کے پاس طبی طریق کار کیا تھا۔ 1890ء سے پہلے کیسے علاج کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر شمسی نے بتایا: اس وقت انفعال مدافعت (passive resistance)کا طریقہ اختیار کیا جاتا۔ اس میں ایک طریقہ وہ ہے جو ٹرمپ کے منہ سے نکل گیا اور انہوں نے کہہ دیا۔ ایف ڈی اے(FDA) نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ ایف ڈی اے نے اس کی تردید کردی۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ہی کی ممتاز یونیورسٹی جان ہاپکن نے یہ تجویز حکومت کو پیش کی ہے کہ دو علاقوں میں اس کا تجربہ کیا جائے، ان میں ایک ملیریا کی دوا ہے، دوسری گنٹھیا کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ملیریا کی دوا تو دنیا نے اب بنانا ہی بند کردی ہے، شاید ضرورت نہیں رہی، مگر پاکستان میں بنتی ہے، اس کا خام مال بھارت میں تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے غالباً اس دوا کا آرڈر بھی پاکستان کی ایک کمپنی کو دیا ہے۔ مطلب یہ کہ یہ بات بالکل بے معنی نہیں ہے۔ سائنس میں اس کی گنجائش ہے۔ طاہر شمسی نے ایک دوسرا طریقہ بتایا اور وہ یہ کہ اس مریض کے خون کا پلازما لے کر اُس مریض کو لگائیں جو خطرناک حد تک بیمار ہو۔ یہ بات انہوں نے مختصر طور پر کہی، اس لیے میرے ساتھ بیٹھے دونوں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پلازما براہِ راست نہیں لگایا جاتا، بلکہ اس میں سے گلوبلن نکال کر استعمال ہوتا ہے جس میں اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔ میرا خیال ہے شاید طاہر شمسی نے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ اس لیے کہ پلازما اکٹھے کرنا، پھر اسے مریض میں استعمال کے لیے الگ الگ کرنا اور خون کے گروپ کے مطابق تیار کرنا کچھ وقت مانگتا ہے۔ ہمارے اس نوجوان سائنس دان نے کمپیوٹر سے نکال کر وہ تحقیقی پیپرز دکھائے جو چین کے تجربے پر چھپ بھی چکے ہیں۔ لگتا ہے چین نے یہ قدیم طریق کار استعمال کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں شرح اموات 10فیصد ہیں جبکہ چین میں 2.7فیصد ہیں۔ خیال رہے ہمارے سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے اندر موجود ہے۔ انہیں برسرِکار لانا چاہیے۔ اس وقت نسٹ (Nust)نے ایسی کٹ تیار کرلی ہے جو کورونا کا ٹیسٹ بہت سستا کرتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بھی کچھ کام ہورہا ہے۔ یہ ایک لمبی لڑائی ہے جس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ وائرس مختلف شکلوں میں آتا رہا ہے۔ پہلی بار پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918ء میں فلو کا وائرس آیا جس میں اتنے لوگ مرے تھے جتنے جنگِ عظیم میں بھی نہیں مرے۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ اوسطاً ان کی عمر 34سال تھی۔ آج کا وائرس ضعیف لوگوں پر اثر کررہا ہے۔ اس کو ہسپانوی فلو کہتے تھے۔ پھر دوبارہ ایک اور طرح کا فلو1957ء اور 1968ء میں آیا۔ ان میں ایک ہانگ کانگ فلو کہلایا۔
(سجاد میر روزنامہ 92 نیوز۔ پیر 23 مارچ 2020ء)