دورہ کراچی میں سیاسی جماعتوں سے ملاقات
کمرشل ازم کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جس چیزکو مارکیٹ کرتا ہے، اُسے فیشن بنادیتا ہے۔ احتساب جیسے ناگزیر شعبے کو بھی نعرہ بناکر فیشن بنادیا ہے۔ یہی کچھ ہم سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کے ساتھ بھی کررہے ہیں۔ زیر عتاب جماعتیں ہوں یا اُن کی قیادت، اُن پر سبّ و شتم کے جاری سلسلے نے فیشن کی سی صورت اختیار کرلی ہے، کیوں کہ یہی ایک آسان ہدف ہیں۔ زیر عتاب سیاسی جماعتوں اور اُن کی قیادتوں کی کمزوریوں اور خامیوں کی آزاد میڈیا نشاندہی کرنے اور ان کی گرفت کرنے میں کسی تساہل سے کام نہیں لیتا۔ سوال اٹھانا میڈیا کی ذمہ داری ہے، جو اسے ادا کرنا ہوتی ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ خواہشات اور تعصبات کا اسیر طبقہ دن رات سیاست اور سیاست دانوں کو ہی سان پر رکھنے کی دانش وری کے خبط میں مبتلا ہے۔ بدقسمتی اور ستم ظریفی یہ ہوئی ہے کہ میڈیا میں ریٹنگ کی دوڑ نے سبّ و شتم کرنے والوں کی چاندی کردی۔ مگر کوئی یہ بھی تو بتائے کہ سیاست دانوں کی اُس پوری نسل کو ریاستی جبر کے تحت سیاست سے بے دخل کیوں کیا گیا تھا، جس پر بدعنوانی، رشوت ستانی اور قومی وسائل کی بندر بانٹ میں ملوث ہونے کا کوئی الزام تک نہیں تھا؟ انہوں نے تو عالمی مالیاتی اداروں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کوئی قرض بھی نہیں لیا تھا جس پر یہ الزام لگتا کہ انہوں نے غیر ملکی قرضے اپنے اللوں تللوں پر خرچ کرکے ملک کو گروی رکھ دیا تھا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرض تو پہلی بار 1958ء کے مارشل لا میں جنرل ایوب خان نے لیا تھا۔
1958ء کے مارشل لا کے تحت بے دخل کیے جانے والے سیاست دانوں نے تو نامساعد حالات اور بے سروسامانی میں بھی قائداعظمؒ کے ویژن کے مطابق خودانحصاری کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے محدود وسائل میں قوم کو 1947ء سے 1958ء تک سارے بجٹ خسارے کے بغیر دیے تھے۔
بانیِ پاکستان قائداعظمؒ اور ان کے دستِ راست ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان کے ایثار و قربانی کا موازنہ کسی دوسرے سے کیا ہی نہیں جاسکتا، تاہم قائداعظم کی قیادت میں سفر کا آغاز کرنے والے کئی دوسرے رہنمائوں کی بھی ملک و قوم کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں جس کی تفصیل کی گنجائش اس کالم میں نہیں ہے۔ سیاسی قیادت بھی کوئی فرشتوں کی جماعت نہیں تھی جس میں کمزوریاں نہ ہوں۔ تاہم سیاسی جدوجہد اور سیاسی عمل سے گزر کر تجربہ کار سیاست دانوں کو جنرل ایوب خان اپنی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ نہ چڑھاتے تو ملک دولخت ہوتا اور نہ ہی آج پاکستان اس دلدل میں پھنسا ہوتا جس کا ذمہ دار آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کئی بار ماضی کے غلط فیصلوں کو قرار دے چکے ہیں۔ مرض کی تشخیص تو بالکل درست کی گئی ہے مگر علاج کا طریقہ جب تک درست نہیں ہوگا، مرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی رہے گا۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو اب ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ جن کو وہ اپنی نرسری میں تیار کرکے، اپنی سند کا ’’ٹیگ‘‘ لگا کر مارکیٹ کرتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ طریقہ علاج ہی اتائی ہے، جس سے مریض یا تو جان سے چلا جاتا ہے (جیسا کہ سقوطِ ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آیا) یا مریض’’متعدی‘‘ بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ وطنِِ عزیز کو اس وقت جس بحران کا سامنا ہے اُس سے نکلنے کا راستہ قائداعظمؒ کے طے کردہ طریقے پر چلنے سے نکلے گا۔ وہ طریقہ ہے ہر سطح پر آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بناکر اچھی حکمرانی… جس کے بغیر خلقِِ خدا کی مشکلات و مصائب میں کوئی کمی آسکتی ہے اور نہ ہی ہم اپنی قومی سلامتی کے دشمنوں کی محفوظ خفیہ کمین گاہوں کو ختم کرنے پر مکمل طور پر قادر ہوں گے۔
اللہ نے سیاسی عمل کے ذریعے قائداعظمؒ کی قیادت میں یہ ملک ہمیں عطا کیا ہے۔ اس کی بقا، سلامتی اور استحکام کا راز بھی آئین کی پاسداری کرنے والی سیاسی جماعتوں کو خوف سے آزاد فضا میں مکمل آزادی سے کام کرنے دینے میں مضمر ہے۔ اسی سے ریاست کے تمام آئینی اداروں کے درمیان اعتبار و اعتماد کا وہ رشتہ بحال اور مستحکم ہوگا جو دفاعِ وطن کے لیے ہر صورت میں ناگزیر ہے۔ جس کے فقدان کی وجہ سے ٹکرائو ہوتا ہے، اور احتساب کا ہر عمل متنازع اور غیر شفاف نظر آتا ہے۔ آزاد دنیا میں اسے انتقام کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاتا۔ اعلیٰ عدالتوں میں یہ مقدمات آئین اور قانون کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے جس کے باعث یہ بے وقعت ہوجاتے ہیں۔ کرپشن اور نااہلی کے موذی مرض نے ملک و قوم کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ اس کا تدارک ناپسندیدہ سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کرکے من پسندوں کو اقتدار پر متمکن کرانے سے نہیں ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ یہ تمام فارمولے ناکام ہوچکے ہیں۔ اب ہمارے فیصلہ سازوں کو وقتی ضرورتوں، مصلحتوں اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر وطنِ عزیز کو لاحق شدید خارجی اور داخلی خطرات سے نمٹنے کے لیے مکالمے کی اس تجویز کا خیرمقدم کرنا چاہیے جس کا مطالبہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ٹی وی ٹاک شوز میں تواتر کے ساتھ کررہے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں کراچی میں اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل جناب احسن اقبال، سیکرٹری اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب اور سابق گورنر سندھ جناب زبیر عمر کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں کے دفاتر میں جاکر ان سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان میں وزیراعظم عمران خان کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی شامل تھی، اور ایم کیو ایم کے مخالف دھڑے کے سید مصطفیٰ کمال، ایم کیو ایم کے سابق سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور حکومت کی حریف جماعت، جماعت اسلامی بھی تھی۔ ہر جگہ جناب شاہد خاقان عباسی نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں یہ بات کہی کہ ان ملاقاتوں کا مقصد نہ تو حکومت میں شامل جماعتوں اور دھڑوں سے مل کر حکومت کوگرانا ہے، اور نہ ہی پارلیمنٹ میں کسی عدم اعتماد کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ جو ایک خوش آئند بات ہے۔ عدم اعتماد کے بارے میں وہ یہ واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ عدم اعتماد کی قرارداد کا پاس ہونا تو درکنار، اس کا تو موجودہ حالات میں پیش کرنا ہی آسان نہیں ہے۔
یہ بات ایک بالغ نظر اور زمینی حقائق کا ادراک رکھنے والا دبنگ سیاست دان ہی کہہ سکتا ہے۔ اس لیے اُن کی تجویز کا جناب عمران خان سمیت تمام قوتوں کوخیرمقدم کرنا چاہیے اور اس مکالمے کے لیے سب کو تیار ہونا چاہیے جو وہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات کو غیر متنازع رکھنے کے لیے پیش کررہے ہیں (چاہے وہ 2023ء میں پانچ سال کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد ہوں، یا حالات کے جبر کے تحت وزیراعظم عمران خان کو قبل از وقت کرانے پڑیں)۔ ان کی اس بات سے کسی کے لیے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک میں صاف شفاف، آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات ہوں تاکہ حقیقی معنوں میں کہا جاسکے کہ یہ انتخابات پری پول رگنگ، ڈے آف پولنگ رگنگ اور بعداز پول رگنگ سے مکمل طور پر پاک ہیں، جنہیں آزاد دنیا صاف شفاف تسلیم کرے اور انتخابات ہارنے اور جیتنے والے بھی۔ اور جو ان کے نتائج کو متنازع بنانے کی کوشش کرے وہ خود متنازع ہوجائے۔