سانحہ گلبہار: وجوہات کیا اور ذمے دار کون؟۔

محمد انور
عمارتوں کی تعمیرات اور ان کا نظام کنٹرول کرنے کے لیے بااختیار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور واضح قوانین کی موجودگی کے باوجود جب غیر قانونی عمارتیں تعمیر ہوکر آباد بھی ہوجائیں تو حیرت ہی ہوتی ہے اور جب ایسی تعمیرات از خود منہدم ہوجاتی ہیں تو حکومت اور متعلقہ تمام اداروں کے پاس اظہار افسوس اور عمارت گرنے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کرانے کے دعوئوں اور باتوں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا ۔
گزشتہ جمعرات 5 مارچ کو کراچی کے قدیم اور گنجان آبادی والے علاقے گلبہار جس کا پرانا نام گولیمار تھا ، میں 75 گز پر تعمیر کی جانے والی 5 منزلہ عمارت منہدم ہوگئی، جس کے نتیجےمیں اس غیرقانونی عمارت سے جڑی ہوئی دو اور عمارتیں بھی گرگئیں ۔ اس سانحے میں 27 افراد جانوں سے چلے گئے، مرنے والوں میں وفاقی اردو یونیورسٹی کا ایک پروفیسر اور ان کے خاندان کے لوگ بھی شامل تھے ۔
اس حادثے کی اصل ذمے دار سندھ بلدنگ کنٹرول اتھارٹی ( ایس بی سی اے ) جس کا دائرہ کار 2013ء تک صرف کراچی تک محدود تھا بعدازاں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے قوانین میں ترمیم کرکے اس کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھادیا، اس طرح اس کا نام کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کردیا گیا ۔ اس طرح کراچی کے اس ادارے کو براہ راست صوبے کے حوالے کردیا گیا ۔ صوبے کی براہ راست نگرانی میں جانے کے بعد اصولا اس اتھارٹی کی کارکردگی بہتر نہین بلکہ بہت بہتر ہونی چاہیے تھی مگر اس کے برعکس نتیجہ نکلا اور یہ ادارہ سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی ہونے کے باوجود ” اینٹی سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی اور سندھ بلڈنگز کنٹرول آرڈیننس کی شکل اختیار کرگیا پھر یہاں عمارتوں کی تعمیرات میں لفظ کنٹرول اور قانون کے معنی ہی بدل گئے نتیجے غیرقانونی تعمیرات کا طوفان آگیا ۔ لے آوٹ پلان اور نقشوں میں ترامیم معمولی بات بن کر قانون سے بالاتر ہوگئی ۔قانون کی جگہ ” روپے ” کے وزن نے لے لی ۔ نااہل لوگوں کو بھرتی کرلیا گیا اور مختلف ڈویژن یا زون میں تعیناتی کے لیے اہلیت کی جگہ نے افسران کے مال خرچ کرنے کی استعداد نے لے لی ۔ نتیجے میں بغیر کسی نقشے اور اجازت نامے کے مکمل غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا گلبہار میں تعمیر ہونے والی مذکورہ عمارت بھی اسی غیرقانونی عمارتوں کی تسلسل تھی ۔ ایس بی سی اے میں کسی افسر کو قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی فرصت بھی نہیں رہی ۔ گوکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے عمارتوں کی تعمیرات کے ذمے دار اس ادارے کو اپنے لیے “سونے کی چڑیا ” سمجھ کر کراچی کی عمارتوں ہی نہیں علاقوں تک کا نقشہ بگاڑ دیا ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ غیر قانونی تعمیرات کا ذمے دار کون ہے بحیثیت صحافی میرا جواب ہوتا ہے کہ وہ جو ایس بی سی اے کے پہلے ڈائریکٹر جنرل منظور قادر عرف کاکا کو اس پوسٹ پر تعینات کرنے کا حکم دیا ، وہ جس کے اشارے پر پوری سندھ حکومت چلا کرتی تھی اور مبینہ طور پر اب بھی چلتی ہے ۔ منظور قادر محض ایک آرکیٹیکچر تھا وہ جو کچھ کرسکتا تھا کیا اور ایک رات اسپتال جانے کا کہہ کر ملک سے ہی باہر چلا گیا ۔ نیب کو مطلوب منظور قادر کو تو شائد کبھی نہیں گرفتار کرسکے مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ نیب نے اسے گرفتار کرلیا جس نے منظور قادر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے پر ” چراغ پا ” ہوکر ” اینٹ سے اینٹ ” بجانے کی دھمکی دے ڈالی تھی ۔
ذکر کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا ہورہا ہے ۔ گلبہار کے واقعے کے بعد اب حکومت اپنی موجودگی کو ظاہر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرے گی ۔ لیکن دلچسپ امر یہ کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات پر نوٹس عدالت عظمٰی نے لیا تھا ۔ عدالت کے حکم پر کارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ایس بی سی اے کے 28 افسران کو معطل بھی کیا گیا ۔ یکمشت 28 افسران کی معطلی ایس بی سی اے کی تاریخ میں پہلی بار ہوئی ہے جو بہرحال ایک مثال ہے ۔

عمارت گرنے کے بعد کیا ہورہا ؟ ۔

گلبہار میں پانچ منزلہ بے نام عمارت گرنے کے بعد فوج چار دن میں اس کا مکمل ملبہ ہٹانے میں کامیابی حاصل ہوئی دو لاشوں کو اخری روز کی کارروائی میں نکالا جاسکا ۔ اس عمارت کے گرنے کے بعد ایس بی سی اے کے متعلقہ افسران اور بلڈنگز انسپکٹر میں سے کسی کو بھی معطل تک نہیں کیا گیا ۔ تاہم یہ معلوم ہوا کہ عمارت کے منہدم ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے کمیٹی نے انکوائری کا آغاز کردیا ہے ۔ اب تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق مذکورہ عمارت کو پانچ منزلہ بنانے کے بعد اب چھٹی منزل کی تعمیر کے لیے پلرز کی شٹرنگ لگائی جارہی تھی جبکہ تعمیرات کے لیے بلاک اوپر تک پہنچائے جارہے تھے، ساتھ ہی عمارت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے غیر فنی بنیادوں پر کام کیا جارہا تھا ۔ ماہرین عمارات کا کہنا ہے کہ عمارت کے بنیادوں کے پلرز کو مستحکم کرنے کے لیے پلرز کے قریب کھدائی کا کام بھی جاری تھا کہ عمارت میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں تھیں جو 24 گھنٹے میں پوری عمارت کے گرنے کا سبب بن گئی ۔
عمارت کے گرنے کے بعد ایس بی سی ایس نےایک گز تا 399 گز سمیت تمام پلاٹوں پر خلاف قانون تعمیرات کو منہدم کرنے کے لیے کارروائی شروع کردی ہے۔ ایس بی سی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل انجینئر آشکار داور کا کہنا ہے کہ لیاقت آباد میں 40 گز کے پلاٹ پر تعمیر کی جانے والی سات منزلہ اور گزری میں 60 گز پر تعمیر کی گئی نو منزلہ عمارت کو مکینوں سے خالی کرواکر گرانے کی کارروائی شروع کردی گئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ گلبہار ، لیاقت آباد ، ناظم آباد ، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا ، گلشن اقبال ، محمود آباد ، لائنز ایریا ، گزری، دہلی کالونی ، لیاری ، کھارادر ، میٹھادر ، ملیر اور شاہ فیصل کالونی میں 40 تا 200 گز کے پلاٹوں پر کم و بیش 3 ہزار خطرناک بلند عمارتیں موجود ہیں جن کی تعمیرات بغیر کسی نقشے اور اجازت سے مکمل کی گئیں ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے تمام خلاف قانون تعمیرات کا این ای ڈی یونیورسٹی کی مدد سے جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرے گی ۔ بعدازاں ان تعمیرات کو رینجرز کی مدد سے گرادیا جائے گا ۔ انجینئر آشکار داور کا کہنا ہے کہ “میں پورشن خریدنے والوں کو بھی متنبہ کرتا ہوتا کہ وہ 399 گز کے پلاٹوںپر تین منزلہ یا تین سے زائد فلور والی عمارتوں میں پورشن مت خریدیں کیونکہ یہ بھی خلاف قانون ہیں، انہیں بھی کسی بھی وقت منہدم کردیا جائے گا ۔ انجینئر آشکار داور نے بتایا ہے کہ رہائشی و رفاہی پلاٹوں پر ایس بی سی اے کی اجازت کے بغیر قائم کیے گئے بنکوئیٹ اور شادی ہالوں کو بھی جلد منہدم کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ جس کی وجہ سپریم کورٹ کا ایسے غیر قانونی شادی ہال اور لانز کو ختم کرنے کا حکم ہے ۔

عمارتیں منہدم ہونے کی ایک بڑی وجہ ! ۔

ارضیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں پینے کے پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیر زمین پانی کا حصول اب معمول بنتا جارہا ہے ۔ شہر کے گلبہار ، ناظم آباد، خاموش کالونی ، پرانا گولیمار ، لیاری ، کھارادر، میٹھادر ، فیڈرل بی ایریا ، نارتھ کراچی، نئی کراچی ، گلشن اقبال سمیت متعدد علاقے کے لوگ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے زیر زمیں پانی کے حصول کے لیے مجبورا بورنگ کرانے لگے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں زیر زمین پانی ختم ہوکر زمین بیٹھنے کا تناسب بڑھ چکا ہے ۔ زمین کے بیٹھنے کی وجہ سے عمارتوں کے دھنسنے کی شکایات میں اضافہ ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں حکومت کو زیر زمیں پانی کے حصول کے لیے بورنگ اور کنویں کھدوانے پر بھی فوری پابندی عائد کرنی چاہیے ۔