متحدہ حزبِ اختلاف کا وزیراعلیٰ ہائوس پر دھرنا
پیر17فروری 2020ء کی شام انسان دشمن عناصر نے اپنے مذموم و مردود مقاصد پانے کے لیے شہر کوئٹہ کے در و دیوار لرزا د یے۔ آٹھ شہری جان سے چلے گئے، شہر کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد زخموں سے چُور ہوگئی، پولیس کے 2 اہلکار بھی فرض نبھاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان اہلکاروں نے ہی خودکش بمبار کو روکا اور آگے جانے نہ دیا۔ وہ اس کو قابو کررہے تھے کہ اس نے جسم سے بندھے بم کا دھماکا کردیا۔ یہ سانحہ عدالت روڈ پر پیش آیا۔ چند میٹر کے فاصلے یعنی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک مذہبی گروہ کا اجتماع ہورہا تھا۔ دھماکے کے مقام پر پولیس اہلکار ان کی سیکورٹی پر مامور تھے۔ قیاس کیا گیا کہ حملہ آور اس اجتماع کے اندر جانا چاہتا تھا کیونکہ اردگرد بظاہر کوئی دوسرا ہدف نہ تھا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو، شاید نیت فرقہ وارانہ منافرت یا فساد کی تھی۔ بہرحال نشانہ پولیس اور دوسری فورسز بھی ہوسکتی ہیں، کیوں کہ پولیس کی ایک بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی۔
18فروری کو تربت کے علاقے ’’بلنگور‘‘ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ’’تنکول کور‘‘ کے مقام پر فرنٹیئر کور بلوچستان کی 125ونگ کی ایک چیک پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے مختلف اطراف سے خودکار اسلحہ سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ اہلکار جاں بحق ہوگئے، جن کے نام نائیک سرور خان، لانس نائیک الیاس خان، لانس نائیک نقیب اللہ، لانس نائیک عبداللہ اور سپاہی ضیاء الرحمان بتائے گئے ہیں۔ حملہ آوروں کے ساتھ مقابلہ دیر تک چلتا رہا۔ مزید نفری پہنچی تو حملہ آور محفوظ مقام کی طرف فرار ہوگئے۔ یہ علاقہ ایران کی سرحد سے ملحق ہے، جہاں مختلف مسلح تنظیمیں کمین گاہیں رکھتی ہیں۔ بعد میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے ترجمان بلوچ خان نے ذمہ داری قبول کرلی۔ یاد رہے کہ یہ اتحاد بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل ا ے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اور بلوچ ری پبلکن گارڈ (بی آر جی) پر مشتمل ہے۔ یہ تنظیمیں ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصے سے تخریب و دہشت کی راہ پر ہیں۔ سرکاری ملازمین، مزدوروں، اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلا، سیاسی رہنمائوں، کارکنوں، پولیس، لیویز اور دوسری فورسز کے اہلکاروں کو مار چکی ہیں۔ سرکاری و نجی املاک کو تباہ کرچکی ہیں۔ ہزاروں زندگیوں کے چراغ گل کرچکی ہیں۔ مردم کُشی و تباہی میں دوسرے گروہ جنہوں نے مذہب کا عنوان اپنا رکھا ہے، ان سے پیچھے نہیں۔ یہ بھی بڑی بھیانک کارروائیاں کرچکے ہیں۔ گویا یہ عناصر اب بھی تخریب و دہشت گردی کی راہ پر ہیں۔
شارع عدالت کے اندوہناک سانحے کے بعد علی الخصوص بلوچستان کے اندر ریاست مخالف سیاسی و ابلاغی مہم شروع ہوئی، جو بادی النظر میں ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت و نصرت کا رحجان رکھتی ہے۔ کسی ایک کی زبان سے نہیں سنا کہ یہ دہشت گرد ٹولہ ہے۔ ان کی کمک کہاں سے آرہی ہے اور کہاں محفوظ کی گئی ہے۔ مگر شرمناک طور پر عوام کو گمراہ کرنے کی سعی کی جارہی ہے کہ ان دہشت گردوں کا تعلق ریاست اور اس کے سیکورٹی اداروں سے ہے۔ جبکہ ان بدباطن لوگوں سے مخفی نہیں کہ یہ سارے گروہ افغانستان کے اندر کابل رجیم کی آغوش میں ہیں۔ ان کی ڈوریں این ڈی ایس اور بھارتی جاسوسی کے ادارے ہلارہے ہیں۔ یقیناً جہاں حکومتیں، پولیس، سول و دوسرے جاسوسی کے ادارے شامل یا غفلت کے مرتکب ہوں ان پر تنقید ہو، ان سے جواب طلب کیا جائے کہ عوام کی جان اور مال کی حفاظت حکومتوں اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہ امر فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ یقیناً کسی حکومت، ادارے یا فورس کی نہیں، اسے پورے معاشرے کو لڑنا ہے۔ اور وہ حلقے و طبقات بھی مجرم ہیں جو اپنے بیانیوں کے ذریعے دہشت گردوں کو تقویت دے رہے ہیں۔ یقینی طور پر یہ لوگ مخصوص اور تفویض کردہ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
20 فروری کو بلوچستان اسمبلی میں متحدہ حزبِ اختلاف نے وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے کچھ وقت کے لیے دھرنا دیا۔ سلوگن اپنے حلقوں میں مداخلت، مہنگائی اور دوسرے مسائل و مطالبات کے ساتھ بدامنی بھی تھی۔ بات اگر بدامنی کی کی جائے تو حزب اختلاف اس حوالے سے حکومت مخالف سیاست کررہی ہے۔ اوّل تو انہیں کوئٹہ کے متذکرہ بم دھماکا جیسے سانحات پر کابل کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف بولنا چاہیے تھا جو بھارت کے احکامات پر عمل پیرا ہے، جس نے ان گروہوں کو اپنے ہاں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ دوئم، حزبِ اختلاف کو کیچ میں ایف سی اہلکاروں کو قتل کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف بھی بولنا چاہیے تھا جو آئے روز اس نوع کی وارداتیں کرتے رہتے ہیں، اور حکومت سے ایوان کے فلور پر ان گروہوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ آئی جی پولیس محسن حسن بٹ اراکین کو تازہ واقعات کے باب میں بریفنگ دے چکے ہیں۔ حزبِ اخلاف تقاضا کرے کہ اعلیٰ سطح پر مزید بریفنگ دی جائے۔ مابعد بریفنگ کی روشنی میں وہ قوم اور نوجوانوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کریں۔ یقیناً حقائق اس مخصوص طبقے کے خیال،گمان اور سوچ کے برعکس ہیں۔ تضادات اور ابہام کی سیاست اور نوجوان طبقے کو گمراہی کی راہ پر ڈالنا ان کی سوچی سمجھی سیاست کا حصہ ہے۔