تحریر:مائیکل ہیملٹن مورگن/ترجمہ و تلخیص:ناصر فاروق
دستار بند معالج عبداللہ ابن زہر، سلسلہ المرابطون کے امیر کا علاج کرنے شاہی محل جارہا تھا، رستے میں شاہراہ کنارے ایک خستہ حال شخص بیٹھا نظر آیا، اُس کا پیٹ خاصا سوجا ہوا تھا، اُس کے ہاتھ میں ایک صراحی تھی، وہ بہت تکلیف میں تھا۔ مگر ابن زہر رکا نہیں، اُسے پہلے ہی دیر ہورہی تھی۔ اگلے روز وہ پھر وہیں سے گزرا اور وہی شخص اُسی حالت میں سڑک کنارے نظرآیا۔ اس بار ابن زہر نے رک کر اُس سے پوچھا ’’اے شخص کیا تم بیمار ہو؟‘‘
اُس شخص نے اثبات میں سرہلایا۔
’’کیا خوراک لے رہے ہو؟‘‘
’’روٹی کے چند ٹکڑے اور اس صراحی کا پانی‘‘۔ بیمار نے جواب دیا۔
’’روٹی سے تمھاری یہ حالت نہیں ہوسکتی، یقیناً پانی میں کوئی مسئلہ ہے‘‘ معالج نے کہا۔ ’’پانی کہاں سے لیتے ہو؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
’’قصبے کے کنویں سے پانی بھرتا ہوں‘‘، اُس شخص نے جواب دیا۔
’’کنواں تو صاف ہے، یقیناً اس صراحی میں کوئی مسئلہ ہے، اسے توڑدو اور کوئی نیا برتن خرید لو‘‘، معالج نے مشورہ دیا۔
’’نہیں، میں یہ صراحی نہیں توڑسکتا، میرے پاس اورکوئی برتن نہیں‘‘، بیمار نے کہا۔
’’اور یہ جو تمھارا سوجا ہوا پیٹ باہر آرہا ہے یہ بھی ایک صراحی ہی ہے، صراحی دوسری بھی مل جائے گی مگر پیٹ دوسرا نہیں ملے گا‘‘۔
اس دوران بیمار شخص کا ایک ساتھی اپنی جگہ سے اٹھا اور پتھر سے صراحی توڑ دی۔ ٹوٹی صراحی سے پانی بہہ نکلا، جس میں مرا ہوا ایک مینڈک شامل تھا۔ ’’دیکھ اے شخص‘‘ معالج نے توجہ دلائی، ’’یہ مینڈک تجھے اپنے ساتھ لے جانے والا تھا، یہ لو ایک درہم اور نئی صراحی خریدلو‘‘۔
اگلی بار جب ابن زہر وہاں سے گزرا، تو اُس شخص کے پیٹ کی سوجن ختم ہوچکی تھی، اُس کا وزن بڑھ چکا تھا، اور چہرے کا رنگ واپس آچکا تھا۔ وہ آج معالج کے گُن گا رہا تھا۔
وہ جو تاریخ کے شکست خوردہ رُخ پرکھڑے ہیں، ان کے لیے ہار اختتام بن جاتی ہے۔ مگر شکست اور موت میں کبھی کبھی پیدائشِ نو اور آغازِنو کے امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اندلس میں بنوامیہ کے بعد، تہذیب اور معاشرت کے نئے سنہرے دورکا آغاز ہوا۔
الزہراوی کی موت کے بعد، اموی تصورِ ترقی معطل ہوا۔ مگر 1090ء میں المرابطون نئے عزم کے ساتھ منظر پر ابھرے۔ اس کے بعد 1145ء میں الموحدون کا درخشاں دور آیا۔ نئے حکمرانوں نے علمِ طب کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کیا۔ کئی نابغۂ روزگار سامنے آئے، ان نامور اطباء میں ابنِ زہر نمایاں تھا، جسے لاطینی میں Avenzoar بنادیا گیا۔
ابنِ زہر وہ پہلا طبیب تھا جس نے اپنے کام کو دواسازی تک محدود رکھا۔ اُس نے جامعہ قرطبہ سے باقاعدہ علم الادویہ کا اکتساب کیا تھا۔ اُس نے بیشتر زندگی اشبیلیہ میں بسر کی۔ اپنی ستّر سالہ زندگی میں اُس نے پہلے المرابطون کے شاہی طبیب کے طور پر ذمے داری نبھائی، پھرکسی خلش پر زنداں بھجوا دیا گیا۔ جب رہائی ملی، الموحدون نے اسے شاہی معالج مقررکردیا۔
اگرچہ لاشوں کی چیرپھاڑ ناپسندیدہ تھی، مگر ابنِ زہر کے بارے میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ لاش کے حصے بخرے کرکے تشریح الاعضاء کررہا تھا۔ اُس نے گردے کی پتھری کے علاج کے لیے صحت بخش خوراک اور صحت مند طرزِ زندگی کے طریقے واضح کیے۔ اُس نے الرازی کی طرح جانوروں پر نئی ادویہ کے تجربات جاری رکھے۔ وہ شاید پہلا طبیب تھا جس نے تفصیل سے پیراسائیٹ اور اس سے پیدا ہونے والے امراض پر لکھا۔ ابنِ زہر نے سانس کی نالی کی جراحی کو عملاً ممکن بنایا، سانس کے مریضوں کے لیے زندگی آسان بنائی۔ ابنِ زہر نے نئے اطباء کے لیے تربیتی پروگرام کی بھرپور حمایت کی۔ بارہویں صدی کے اس اہم آدمی نے بیٹی اور نواسی کی جانب سے علم الادویہ میں دلچسپی کو بہت سراہا اور اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ یہ لوگ زیادہ تر زچگی سے متعلق تھے، تاہم ایک ایسی شاندار روایت قائم کررہے تھے، جو مسلم معاشروں میں دورِ جدید تک قائم رہی۔
عبداللہ بن زہر نے پیشروؤں کی مانند بہت کچھ لکھا۔’’کتاب التیسیر فی المداواہ والتدبیر‘‘ میں اُس نے خاکوں کی مدد سے تفصیلاً اہم امراض اور علاج پرلکھا ہے۔ اُس نے لوہے کا ایک سوئی نما آلہ بنایا جوپیٹ اوربطن تک آسانی سے داخل کیا جاتا، اور متاثرہ آنت باہر آجاتی، جسے بڑی مہارت سے واپس جگہ پر داخل کردیا جاتا۔ اس دوران آنت کو نیم گرم پانی سے دھویا جاتا، اور ممکنہ زخم کا علاج کیا جاتا، یا ناسور کاٹ کر الگ کردیا جاتا۔ ٹانکوں کے لیے ریشم کا دھاگا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ سارا عمل ایک مشاق فرد انجام دیتا، جسے باقاعدہ عملی تربیت دی جاتی تھی۔ ٹانکوں پردوا بھی لگائی جاتی، جو زخم کو جلد مندمل کردیتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت بخش خوراک تجویز کی جاتی تھی تاکہ مریض مرض کے پلٹنے سے محفوظ رہے۔
المرابطون اور الموحدون کے ادوار عبداللہ بن زہر الایادی اور اُس کے خاندان کے سنہرے دن تھے۔ اُن کی تقدیر حکمران طبقے کے حالات سے جُڑی تھی۔ پانچ نسلوں تک یہ خاندان علم طب سے وابستہ رہا اور ترقی کرتا رہا۔
تاہم اس دوران اندلس چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں ٹوٹ رہا تھا۔ ایک یہودی خاندان اس صورت حال سے پریشان تھا۔ خاص طور پر الموحدون عیسائی اتحادیوں سے مل کر قرطبہ کے یہودیوں پر زندگی تنگ کررہے تھے۔ ان حالات میں یہ خاندان قاہرہ منتقل ہوگیا، جو اُن دنوں سلطان صلاح الدین ایوبی کے زیرانتظام تھا۔
سن 1199ء… موسیٰ بن میمون، یا میمونائڈز، ماہر فلکیات، ماہرِ طب اور فلسفی قرطبہ میں پیدا ہوا، پیدائشی زبان عربی تھی۔ وہ شاہی طبیب تھا، اور سلطان صلاح الدین کا کئی بار علاج کرچکا تھا۔ موسیٰ بن میمون پربہت بڑے خاندان کی ذمے داری تھی۔ طب کا پیشہ ہی اُس کی ضروریات پوری کررہا تھا۔ سارا دن علاج معالجہ میں مصروف رہتا تھا۔ شاہی مریضوں کے بعد وہ عوام میں جاتا، اورہر طرح کے بیمار کا علاج کرتا، اور رات گئے گھر کا رخ کرتا تھا۔ اُس کی شہرت خاصی دور تک پھیل چکی تھی۔ موسیٰ بن میمون کو صلیبی جنگجو سپہ سالار رچرڈ لائن ہارٹڈ کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کی گئی، جسے اُن نے نظرانداز کردیا۔
میمونائڈز نے ادویہ، بیماریوں اور علاج کے طریقوں پردس جلدوں کی ضخیم کتاب لکھی۔ اُس نے فالج، جگر کی بیماریوں، اور ذیابیطس کے بارے میں جالینوس کے نظریات مسترد کردیے۔ اُس نے ہیپا ٹائٹس کی وضاحت میں لکھا کہ جگر کی سوزش کی آٹھ علامات ہیں: تیز بخار، باربار پیاس لگنا، بھوک کا کم لگنا، زبان کا سرخ اور پھرسیاہ پڑجانا، قے ہونا، رنگ زرد پڑجانا، اور جسم کے دائیں حصے میں درد اٹھنا، اور اُس کا بتدریج ہنسلی کی ہڈی تک پہنچ جانا۔ میمونائڈز نے سانپ کے کاٹے کا علاج چارٹ کی شکل میں واضح کیا، جس کی مدد سے کاٹے کے قریبی حصے کوکس کر باندھ دینے کی تکنیک سمجھائی، تاکہ زہر کو پھیلنے سے روکا جاسکے، اور اس دوران کوئی مشاق شخص منہ کے ذریعے زہر زخم سے باہرکھینچ سکے، اور ایسا کرنے سے پہلے وہ شخص منہ کے جراثیم کو تیل سے پاک کرسکے۔
تاہم یہ تلخ حقیقت ہے کہ موسیٰ بن میمون کو علم طب میں عظیم کارناموں کے بجائے فلسفہ کے سبب یاد رکھا گیا۔ اُسے قرون وسطیٰ کے عظیم فلسفی کے طور پر مشہور کیا گیا۔ حالانکہ علم طب میں اُس کا کام بنیادی نوعیت کا ہے۔ اُسے یہودیوں کی تاریخ میں روحانی پیشوا قرار دیا گیا اور اسی حیثیت میں یاد رکھا گیا۔ جبکہ اُس کی زندگی اور کارناموں کا سارا دور مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان گزرا۔ مزید قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ آٹھ صدیوں تک موسیٰ بن میمون اور دیگر یہودی علماء نے مسلم معاشروں میں پناہ لی، اور ترقی کے بہترین مواقع پائے۔ جب اندلس پر صلیبیوں نے آفت ڈھائی، موسیٰ بن میمون اور اُس کے خاندان نے مسلم معاشرے میں ہی باقی زندگی گزارنا پسند کی۔
عظیم مسلمان اطباء نے مسلم شہروں میں یادگارکام کیے۔ شہروں کے ایسے اعلیٰ انتظامی ڈھانچے دنیا میں کہیں اور موجود نہ تھے، اور صدیوں تک کوئی ہم پایہ شہر وجود میں نہ آسکا تھا۔ ان مسلم شہروں میں شاندار محلات فنِ تعمیر کا شاہکار تھے۔ شہریوں کے لیے سہولیات کی فراوانی تھی۔ نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق بیمار،غرباء اور مساکین کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، اعلیٰ معیارکے شفاخانے اور دوا خانے قائم کیے گئے تھے۔ ان سہولیات سے ضرورت مند استفادہ کرتے تھے، کیونکہ صاحبِ ثروت حضرات گھروں پر ہی علاج کرواتے تھے۔ مسلم مشرقی شہروں میں یہ شفا خانے ’’بیمارستان‘‘ کہلاتے تھے، فارسی میں اس کا مطلب ہے ایسی جگہ جہاں بیمار افراد کا علاج اور دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ یہاں جسمانی بیماریوں کے علاوہ ذہنی امراض کا علاج کیا جاتا تھا۔ ان شہروں میں طبی سہولیات کے معیارات یورپ سے بہت بہتر تھے۔ سن 705ء سے 715ء کے درمیان پہلا معلوم اسپتال دمشق میں قائم ایک طبی مرکزتھا، جسے بنوامیہ کے دور میں تعمیرکیا گیا تھا۔ یہ زیادہ تر جذام کے مریضوں کے لیے وقف تھا، جنھیں عوام سے الگ رکھا جاتا تھا۔ کئی دہائیوں بعد، آٹھویں صدی کے اواخر میں، ہارون رشید نے گندیشاپور کے ایک طبیب کو بغداد میں پہلا شفا خانہ کھولنے کی دعوت دی۔ نویں صدی میں الرازی نے بغداد کے ’’البیمارستان العضدی‘‘ کی نظامت سنبھالی۔ وہ نئے بیمارستان کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب کرنے کے لیے کئی مقامات پرگوشت رکھوا دیتا، جہاں گوشت دیر سے خراب ہوتا، وہاں نئے بیمارستان کا سنگِ بنیاد رکھ دیتا تھا۔ اس شفاخانے میں بیس سے پچیس اطباء مقررکیے جاتے تھے، ان میں ماہر جراح، ماہر امراضِ چشم، اورphysiologists عضویات دان شامل ہوتے تھے۔ بارہویں صدی عیسوی میں یہاں علاج کی غرض سے آنے والے کہتے تھے کہ یہ گویا ’’عظیم محل کی مانند‘‘ تھا۔
سن 1000ء تک عباسی بغداد میں پانچ بڑے اسپتال تعمیر کیے جاچکے تھے، جہاں ہرطرح کا علاج اوردیکھ بھال کی جاتی تھی۔ جراحی کے مراکز، نفسیاتی مریضوں کے وارڈ، اور روزمرہ کے مریضوں کے لیے کلینک قائم کیے گئے تھے۔ ضرورت مند افراد کے لیے یہاں علاج بالکل مفت تھا۔
مصر میں تیرہویں صدی کے المنصوری شفا خانے میں آٹھ ہزار بستروں کا انتظام تھا، اس کی سالانہ آمدنی دس لاکھ درہم تھی۔ اس کی پالیسی تھی کہ ہر طرح کا مریض خواہ امیر ہو یا غریب، اُس کا علاج بہرصورت کیا جائے گا۔ مردوں اور خواتین کے وارڈ الگ تھے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے الگ الگ سردخانوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ المنصوری میں لیکچر ہال بھی بنائے گئے تھے۔ ہر مرض کے علاج کے لیے الگ وارڈ تعمیر کیا گیا تھا۔ اسپتال کی اپنی فارمیسی تھی۔ اسپتال کی جانب سے پالیسی واضح تھی: بیمارستان المنصوری تمام مریضوں کا علاج کرے گا یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہوجائیں، خواہ وہ یہاں کے باشندے ہوں یا کہیں دورسے آئے ہوئے ہوں، کمزور ہوں یا توانا، امیر ہوں یا غریب، پڑھے لکھے ہوں یا اَن پڑھ، بے روزگار ہوں یا برسر روزگار… ان کے علاج میں آنے والے تمام مصارف انتظامیہ پورے کرے گی۔ علاج کے لیے معاوضے کی ادائیگی سمیت کوئی شرط عائد نہ تھی۔ یہ ساری خدمات اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے نام وقف تھیں۔
قاہرہ میں مزید دوبڑے شفا خانے قائم کیے گئے۔ دمشق میں پانچ شفا خانے تعمیرکیے گئے۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، اور شمالی افریقا میں بھی کئی شفاخانے بنائے گئے۔ تاہم اندلس میں یہ سلسلہ بعد میں شروع ہوا۔ چودھویں صدی کے آخر میں ایک شفاخانہ غرناطہ میں تعمیرکیا گیا۔ عثمان ترک اور مغل بھارت میں کئی بڑے شفاخانے قائم کیے گئے۔
مسلم شفا خانوں میں ذہنی امراض کے علاج پر مؤرخ نے لکھا کہ آٹھویں صدی میں مراکش کے شہر فیض میں ذہنی مریضوں کے لیے باقاعدہ علاج کا مرکز تعمیر کیا گیا۔ ذہنی امراض کے کئی ایسے مراکز بغداد، دمشق، حلب، اور قاہرہ میں بھی قائم کیے گئے۔
موسیقی اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے ذریعے ذہنی مریضوں کی تھراپیاں کی جاتی تھیں۔ علاج کے دیگر نئے اور انوکھے طریقے وضع کیے گئے تھے۔ ہارون الرشید کے پہلے اسپتال کے افتتاح کے بعد، نصف صدی تک بغداد سے دیگر مسلم شہروں میں ادویہ کی ترسیل بڑے پیمانے پر ہوئی۔ بعد ازاں شاہی سرپرستی میں چلنے والے شفاخانوں نے اپنے دواخانے خود قائم کیے، جہاں شربت (Syrup)، مرہم، سفوف، اور دیگر نوعیت کی دوائیں دستیاب تھیں، جنھیں تجربہ گاہوں میں تیار کیا جاتا تھا۔ سرکاری معائنہ کار ان تجربہ گاہوں کے معیارات کا متواتر جائزہ لیتے رہتے تھے۔ وہ زائدالمیعاد ادویہ کے استعمال کو روکتے اورطے شدہ معیارات پرگہری نظر رکھتے تھے۔ مسلم طبی ادارے عیسائی یورپ کے مقابلے میں اتنے زیادہ ترقی یافتہ کیوں تھے؟ اس لیے کہ مسلم معاشروں میں علمِ طب کو تحقیقی اور تجرباتی بنیادوں پر بالکل واضح کردیا گیا تھا۔ جبکہ یورپ کی اکثر عیسائی خانقاہوں میں مریضوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا، توہم پرستی عروج پرتھی، اُن کے پاس علاج کی کوئی جدید تکنیک یا ذرائع نہ تھے۔
مسلم شہروں میں طب کا ماحول بہت روشن تھا۔ دیگر ماہر معالجین کی طرح ابنِ نفیس بھی شعبہ طب میں بہت مقبول ہوا۔ وہ قبل از دور جدید کا سب سے عظیم ماہر امراضِ قلب تھا۔ سن 1213ء میں دمشق کے قریب چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا۔ علم الادویہ کی ابتدائی تعلیم کے بعد، اُس نے زندگی کا بیشتر زمانہ قاہرہ میں ہی گزارا۔ وہ المنصوری اسپتال کا پہلا منتظم تھا۔ وہ جامعہ علم الادویہ کا سربراہ بھی تھا۔ یہیں اُس نے تشریح الاعضا پرحیرت انگیز حقائق دریافت کیے، اور دل کی کارگزاری (Functioning) کو واضح کیا، کہ کس طرح خون دل سے ہوتا ہوا پھیپھڑوں میں جاتا ہے، اور وہاں جاکر ہوا میں مل جاتا ہے۔
ابنِ نفیس کے زمانے تک، دل کے میکانزم پر یونانی ماہر جالینوس کا نظریہ سند سمجھا جاتا تھا۔
النفیس نے بڑے غور سے دل سے پھیپھڑوں تک خون کی گردش کا مشاہدہ کیا۔ جراحی اور علاج کے دوران کئی ایسے مرحلے آئے جب خون کی گردش اُس پر واضح ہوئی۔ ابن سینا کی ’’القانون فی الطب‘‘ کی شرح میں اُس نے لکھا کہ: خون دل کے دائیں خانے سے بائیں خانے میں داخل ہوتا ہے، مگر یہ منتقلی براہِ راست نہیں ہوتی۔ دل کے پردے میں نہ واضح سوراخ نظرآتے ہیں اور نہ اس میں کوئی شگاف ہوتا ہے، جیسا کہ جالینوس سمیت کچھ لوگوں کا خیال ہے۔ درحقیقت خون دل کے دائیں خانے سے شریان کے ذریعے پھیپھڑوں میں پہنچتا ہے، وہاں یہ ہوا (آکسیجن) میں مل جاتا ہے، پھر شریان سے ہوتا ہوا دل کے بائیں خانے میں پہنچتا ہے۔
نفیس کی یہ دریافت جدید علم طب کے لیے الخوارزمی کے ’صفر‘کی مانند تھی، جس نے جدید ریاضی کی بنیاد رکھی۔ النفیس وہ پہلا طبیب تھا جس نے رگوں اور شریانوں کے نظام کا وہ پورا نقشہ بنایا، جودل تک خون منتقل کرتا ہے۔ مگر افسوس، تاریخ گُم گَشتہ نے عرب دنیا سے باہر اُس کا بیشترکام پردۂ اخفا میں رکھا، یہاں تک کہ 1547ء میں اُس کا کچھ کام اطالوی طبیب Andrea Alpago نے ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کے ساٹھ سال بعد ولیم ہاروے نے ’’دل میں خون کی گردش‘‘ کی وضاحت کی، جسے انکشاف کا درجہ دیا گیا، اور یہ کارنامہ اُس کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ یہ برطانوی شاہی خاندان کا طبیب تھا۔ اس نے University of Padua سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ ابن نفیس کے کام کا ترجمہ کرتے ہوئے الپاگو نے ’’دل میں خون کی گردش کے نظام‘‘ کا حصہ چھوڑ دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اطالوی حکام کے سخت ردعمل سے خوف زدہ تھا، کہ کہیں اُسے بُرا بھلا نہ کہا جائے اور سزاوار نہ ٹھیرایا جائے! مگر یہ بھی ممکن ہے کہ الپاگو نے قریبی رفقاء سے ابن نفیس کے کارناموں اور دریافتوں کا ذکرکیا ہو، اور ولیم ہاروے Padua یونیورسٹی میں احباب کے ذریعے ’’دل میں خون کی گردش‘‘ تک پہنچ پایا ہو! ہاروے نے 350 سال بعد ابن نفیس کی دریافتوں اور نظریات کو اپنے نام سے منسوب کروا لیا۔ 1628ء میں سب ولیم ہاروے کے نام منتقل ہوچکا تھا۔ تاہم تاریخ گُم گَشتہ کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ جب ابن نفیس کا کام ترجمہ ہوا، یورپی نشاۃ ثانیہ مسلم دریافتوں اور انکشافات کے رعب سے باہر آچکی تھی۔ یوں ابن نفیس کو لاطینی نام تک نہ دیا گیا، اور نہ اُس کے احسانات کا اعتراف کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب یورپ جاگ رہا تھا، اورمسلم دنیا پر زوال کے سائے پڑ رہے تھے۔
مسلمانوں کے علوم کا بہت بڑا ذخیرہ اندلس کے طائفوں (چھوٹی ریاستوں) کے ذریعے ہوا۔ یہاں بین التہذیبی ماحول بہت پروان چڑھ چکا تھا۔ یورپ کے طلبہ مسلمان جامعات سے تعلیم حاصل کررہے تھے۔ ترجموں کے اہم کام ہورہے تھے۔ جنوبی فرانس اور جنوبی اٹلی کے شہروں میں بھی مسلم علوم کا بہاؤ تیزتھا۔ مونٹے کیسینی کے سینٹ بینی ڈکٹ کی خانقاہ، اور اطالوی شہر پالرمو اورسسلی ان علوم کی منتقلی کے اہم مقامات تھے۔ قرونِ وسطیٰ کا فرانسیسی کیتھولک پادری سلویسٹر دوئم ریاضی اور سائنس میں مسلمانوں کی ترقی کو تحسین کی نظرسے دیکھتا تھا۔
ابھی جب کہ یورپ اَن پڑھ تھا، غربت اور جاگیردارانہ شکنجوں میں جکڑا ہوا تھا، اعلیٰ مسلم علوم صرف گرجا گھروں تک منتقل اور محفوظ کیے گئے تھے۔ سن 1065ء میں تیونس کے قسطنطین نے علم طب پر مسلمانوں کے مخطوطات اور مسودات یورپ کے پہلے ’میڈیکل اسکول‘ Salerno پہنچائے، جہاں پادریوں نے انھیں لاطینی میں ترجمہ کیا۔ سوسال بعد، چیسٹرکے رابرٹ نے برطانیہ میں الخوارزمی کے کام کا بڑے پیمانے پر عربی سے لاطینی میں ترجمہ کروایا۔ اس میں الجبرا پر اُس کا مقالہ بہت اہم ہے، جسے لاطینی میں Liber algebrae et almucabala کا عنوان دیا گیا۔ یہ ایلگوریتھم پرالخوارزمی کا عمدہ کام ہے۔ اسپین سیگوویا کا کیتھولک حکمران فرڈی نینڈ اول عربوں کی علمی ترقی کا بڑا معترف تھا۔ بارہویں صدی میں کریمونا کے جیرارڈ نے، جو اطالیہ سے ہسپانیہ منتقل ہوچکا تھا، عربی زبان سیکھنے اور مسلم علوم کے ترجمے کا مقصد واضح کیا۔ فرانسیسی آرچ بشپ ریمنڈ مسلمانوں کی علمی ترقی کا مداح تھا، اُس کی سرپرستی میں جیرارڈ نے مسلم ریاضی اور علم الادویہ کا بڑا ذخیرہ ترجمہ کیا۔ اُس کے ترجمے راجر بیکن، البرٹس میگنس، تھامس ایکوانس، اور کاپرینکس کے کام کی بنیاد قرار پائے۔ اشبیلیہ کے یہودی دانشور جان نے دورانِ تعلیم عربی علوم پر کافی کام کیا۔ برطانیہ کے Abelard of Bath نے بھی مسلم علوم کے ترجمے کیے۔ مشہور ہے کہ اُس نے باقاعدہ مسلمان کا بہروپ بھرکر مقامی ذرائع علوم تک رسائی حاصل کی، تاکہ انھیں چُراکر اپنا بنایا جاسکے، اور اُسے اپنے نام سے منسوب کیا جاسکے۔ کئی دیگر کم معروف مترجمین ہیں، جنھوں نے مسلم علوم کا خاصا ذخیرہ عربی سے منتقل کیا۔ ان میں سے چند نام یہ ہیں: William of Lunis, Dominicus Gondisalvi, Hugh of Santalla, Petrus Alphonsi, Abraham ben Ezra, John ofSeville, اور Savasorda۔ اس طرح یورپیوں نے اپنے مسلم پیشروؤں سے نظری اور عملی علوم کا بہت بڑا ذخیرہ حاصل کیا۔ یہاں تک کہ یونان کے خالص علوم مسلم دانش کے ذریعے ہی سمجھے گئے، ایک ایسی دانش جو صدیوں تک یونانی علوم کی تشریح وتوضیح پرصرف ہوئی۔