عام آدمی پارٹی عرف ’’آپ‘‘ کے سربراہ اروند کجریوال نے تیسری مرتبہ فروری ۲۰۲۰ء میں دہلی کے ریاستی انتخابات میں ۷۰ میں سے ۶۲ نشستیں حاصل کرکے بی جے پی کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ انتخابات سے پہلے مودی اور اُن کے وزرا مسلمانوں اور ’’آپ‘‘ کے خلاف زہریلے بیانات دیتے رہے تھے۔ ’’آپ‘‘ کے سربراہ نے اُن کے خلاف نہ تو کوئی بیان دیا اور نہ ہی کوئی تردید شائع کی، بلکہ اپنی عوامی خدمات کی شکل میں جواب دیا۔ مفلوک الحال غریب عوام کو سہولتیں فراہم کیں، بسوں میں سفر کی سہولتیں اور غریب بے گھر لوگوں کو مفت فلیٹ اور طبی سہولتیں فراہم کیں، اور پانی، گیس اور بجلی کے بیشتر یونٹ مفت فراہم کیے۔
دہلی کے انتخابی میدان میں بدترین شکست سے دوچار ہونے کے بعد بی جے پی کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے تسلیم کیا ہے کہ ’گولی مارو‘ اور ’ہند پاک میچ‘ جیسے بیانات دہلی میں پارٹی کی کراری ہار کا سبب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے لیڈروں کو ایسے بیانات نہیں دینے چاہیے تھے۔ پارٹی نے بھی خود کو ایسے بیانات سے الگ کرلیا تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ان بیانات سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہوں نے شاہین باغ میں گزشتہ دوماہ سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی بات چیت کی دعوت دی۔ یہ وہی امیت شاہ ہیں جو ابھی پچھلے ہفتے تک دہلی کے عوام سے ای وی ایم کا بٹن اتنی زور سے دبانے کے لیے کہہ رہے تھے کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے۔ انہوں نے دہلی کی انتخابی جنگ کو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایک خطرناک معرکے میں تبدیل کردیا تھا۔ انتہائی زہریلی انتخابی مہم سے دہلی کی فضا اتنی آلودہ ہوگئی تھی کہ لوگوں کو سانس لینا مشکل ہورہا تھا۔ لیکن جیسے ہی گیارہ فروری کو ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، غرور سے اکڑے ہوئے بی جے پی لیڈروں کے چہرے ان کی گردنوں کے اندر دھنس گئے۔ کیونکہ دہلی کے عوام نے شرمناک فرقہ وارانہ ایجنڈے کو مسترد کرکے صحت و تعلیم اور بجلی و پانی جیسے موضوعات پر ووٹ دیا اور بی جے پی کو دھول چٹادی۔
دہلی کے انتخابات کی تاریخ۔ ایک نظر میں
٭ ۱۹۵۲ء۔ دہلی کے پہلے انتخابات منعقد ہوئے اور کانگریس کے چودھری برہم پرکاش وزیراعلیٰ بنے۔
٭ ۱۹۵۶ء۔ اسمبلی معطل کرکے مرکز کے زیرانتظام علاقہ قرار دے دیا گیا۔
٭ ۱۹۹۳ء ۔باضابطہ اسمبلی الیکشن کی دوبارہ شروعات ہوئیں اور کانگریس کی ۱۴ کے مقابلے میں بی جے پی نے ۴۹ نشستیں جیت کر حکومت بنالی۔
٭ ۱۹۹۸ء۔ کانگریس نے ۷۰ میں سے ۵۲ نشستیں جیت کر حکومت بنالی، بی جے پی کو کل ۱۴ نشستیں ملیں۔
٭ ۲۰۰۳ء۔ کانگریس کو ۴۷ اور بی جے پی کو ۲۰ نشستیں ملیں، کانگریس نے حکومت بنالی۔
٭ ۲۰۰۸ء۔ کانگریس کو ۴۳ اور بی جے پی کو ۲۳ نشستیں ملیں، کانگریس نے حکومت بنالی۔
٭ ۲۰۱۳ء۔ بی جے پی نے ۳۱، ’’آپ‘‘ نے ۲۸ اور کانگریس نے ۸ نشستیں حاصل کیں۔ ’’آپ‘‘ اور کانگریس نے مخلوط اقلیتی حکومت بنالی۔
٭ ۲۰۱۵ء۔ ’’آپ‘‘ نے ۶۷ اور بی جے پی نے کُل تین نشستیں جیتیں، ’’آپ‘‘ کی حکومت بنی۔
٭ ۲۰۲۰ء۔ ’’آپ‘‘ نے ۶۲ اور بی جے پی نے ۸ نشستیں حاصل کیں۔ ’’آپ‘‘ کی حکومت بنی۔
اہنسا، رواداری اور عدم تشدد کی جیت
حقیقت یہ ہے کہ دہلی کے عوام نے عام آدمی پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر ہی ووٹ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ اروند کجریوال کی قیادت میں اس حکومت نے اپنے بجٹ کا ۷۵ فیصد حصہ بجلی، پانی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں کے نام کردیا۔ سرکاری اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت اس حد تک سدھاری گئی کہ لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرانا شروع کردیا۔ محلہ کلینک اور سرکاری اسپتال اپنی سہولتوں کے اعتبار سے اتنے ماڈرن بنادئیے گئے کہ دور دور سے لوگ یہاں علاج کے لیے آنے لگے۔ سرکاری بسوں میں خواتین کو مفت سفر کی سہولت فراہم کی گئی اور غریب طبقے کے لیے ۲۰۰ یونٹ تک بجلی کے بل فری کردیے گئے اور انہیں پانی بھی مفت ملنے لگا۔ یہ تمام ایسی سہولتیں تھیں جن کا دہلی والوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اپنی ان خدمات کے ساتھ جب عام آدمی پارٹی انتخابی میدان میں اتری تو بی جے پی کے پاس اس کا کوئی توڑ نہ تھا اور وہ اس میدان میں بالکل دیوالیہ تھی۔ لہٰذا کجریوال سرکار کے حق میں بہتی ہوئی اس زبردست لہر کو روکنے کے لیے بی جے پی نے اپنے پٹارے سے وہی گھسا پٹا فرقہ وارانہ صف بندی کا موضوع نکالا اور فضائی آلودگی سے متاثرہ دہلی کی فضا میں فرقہ واریت کا انتہائی خطرناک زہر گھولنا شروع کردیا۔ اس کام کے لیے دہلی کے شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو نشانے پر لیاگیا۔ کجریوال کو اس دھرنے کا ’ماسٹر مائنڈ‘ قرار دے کر شاہین باغ کے خلاف ایسی گھنائونی مہم چلائی گئی کہ لوگوں نے اپنی آنکھیں اور کان بند کرنا شروع کردیے۔ دہلی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ انتہائی مضبوط بنیادوں پر مرکز کے اقتدار پر براجمان ’دنیاکی سب سے بڑی پارٹی‘ ہونے کی دعویدار بی جے پی، دہلی جیسی چھوٹی سی ریاست کا اقتدار حاصل کرنے کے لیے اس حد تک نیچے گر جائے گی۔
دہلی کی اصل باگ ڈور تو مرکزی حکومت کے ہی ہاتھوں میں ہے، کیونکہ یہاں پر نظم ونسق کی ذمہ داری مرکز کے پاس ہونے کی وجہ سے دہلی پولیس براہِ راست مرکزی وزیر داخلہ کے کنٹرول میں ہے۔ اس کے علاوہ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داریاں بھی مرکز کے پاس ہیں۔ نئی دہلی میونسپل کارپوریشن بھی مرکزی حکومت کے قبضے میںہے۔ دہلی سرکار کے پاس محض بجلی، پانی، تعلیم اور صحت کے شعبے ہیں اور ان ہی شعبوں میں اس نے انقلاب برپا کیا ہے۔
کجریوال کا تعلیمی اور ملازمتی پس منظر
۱۶ اگست ۱۹۶۸ء کو ہریانہ کے ضلع بھوانی کے علاقے سوانی میں اعلیٰ متوسط طبقے کے تعلیم یافتہ اگروال خاندان کے گوبند رام اور گیتادیوی کے گھر ان کے پہلوٹھی کے بچے نے آنکھ کھولی۔ گوبندرام کجریوال، میسرا (Mesra) میں واقع برلا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل اور سند یافتہ الیکٹریکل انجینئر تھا۔ گوبند رام کے اس پہلے لڑکے اروند کجریوال (Arvind Kejriwal) کا بچپن زیادہ تر سونی پت، غازی آباد اور حصار کے شمالی ہندوستانی قصبوں میں گزرا۔ اس نے حصار کے کیمپس اسکول (Campas School) اور سونی پت کے کرسچن مشنری ہولی چائلڈ اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۸۵ء میں اس نے غارگ پور کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے امتیازی نمبروں سے کُل ہند بنیاد پر ہونے والا مکینکل انجینئرنگ کا امتحان پاس کرلیا۔ ۱۹۸۹ء میں اس نے ٹاٹا اسٹیل نامی معروف ادارے میں شمولیت اختیار کرلی اور جمشید پور میں تعینات ہوا۔ ۱۹۹۲ میں اپنے شعبے سے استعفیٰ دے کر سول سروس کے امتحانات کی تیاری کے لیے طویل رخصت حاصل کرلی اور خاصا وقت کلکتہ (اب کول کٹا) میں گزارا، اور وہاں مدر ٹریسا سے ملاقات کی اور خیراتی مشنریز (Charity Missionaries) اور شمال مشرقی بھارت میں اماکرشنا مشن اور نہرو یوواکنڈورا (Nehru Yuva Kendra) کے اداروں کو رفاہی کاموں کے لیے اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کیں۔ اروند کجریوال اعلیٰ ملازمتوں کا امتحان پاس کرکے ۱۹۹۵ء میں انڈین ریونیو سروس (IRS) میں اسسٹنٹ کمشنر آف انکم ٹیکس کے عہدے پر تعینات ہوگئے۔ مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ تنخواہ کے ساتھ دو سال کی طویل رخصت پر چلے گئے۔ نومبر ۲۰۰۲ء میں انہوں نے دوبارہ اپنی ملازمت کا عہدہ سنبھال لیا۔ ۲۰۰۶ء میں جب وہ دہلی میں محکم انکم ٹیکس میں جوائنٹ کمشنر کے اعلیٰ عہدے پر تعینات تھے، انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومتِ ہند سے ان کا تنازع کھڑا ہوگیا تھا، ان کا مؤقف یہ تھا کہ ان کی سرکاری بدعنوانیوں کے خلاف مہم میں شرکت کے سبب ان کو بدنام کرنے اور ضرر پہنچانے کی کوشش کی گئی، جبکہ انہوں نے ڈیڑھ سال تک ملازمت اور ڈیڑھ سال تک بغیر تنخواہ کی رخصت پر جاکر حکومت کی تین سال کی لازمی ملازمت کی شرط پوری کردی تھی۔ کئی سال تک حکومت کے ساتھ یہ تنازع جاری رہا اور آخرکار ۲۰۱۱ء میں اُس وقت حل ہوا جب انہوں نے اپنے دوستوں سے قرض لے کر حکومت کو نو لاکھ ستائیس ہزار سات سو ستاسی (۷۸۷،۲۷،۹) روپے واپس کردیے۔
اروند کجریوال کا سیاسی سفر
سیاست میں سرگرم عمل فعال افراد پر سب سے زیادہ نکتہ چینی اس بات پر کی جاتی تھی کہ عوام کے منتخب نمائندوں سے انہیں اپنی شرائط منوانے اور اپنے اشاروں پر چلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کجریوال اور ان کے رفقا اسی سبب سے سیاست میں داخل ہوئے اور انتخابی سیاست کے میدان میں آئے کہ اس رجحان کی روک تھام کرسکیں۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں انہوں نے ’’عام آدمی پارٹی۔ آپ (AAP)‘‘ قائم کی اور کجریوال کو پارٹی کا قومی کنوینر (National Convener) منتخب کرلیا گیا۔ انہوں نے ۲۰۱۳ء کے دہلی کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں کانگریس کی شیلا ڈکشٹ کے خلاف انتخاب لڑا اور انہیں پچیس ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔ ان کا انتخابی نعرہ یہ تھا کہ انہوں نے انکم ٹیکس کمشنر کی حیثیت سے کروڑوں روپے بٹورنے کے بجائے عوام کی خدمت کرنا اپنا مشن بنالیا ہے۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو ۳۱، عام آدمی پارٹی کو ۲۸، جبکہ کانگریس کو صرف ۸ نشستیں ملیں۔ کجریوال نے کانگریس اور جنتا دل کے چند دوسرے ارکانِ اسمبلی کی مدد سے اپنی حکومت بنالی اور ۲۸ دسمبر ۲۰۱۳ء کو دہلی کے دوسرے سب سے کم عمر وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ چودھری برہم پرکاش کو دہلی کے سب سے کم عمر وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔
۱۴ فروری ۲۰۱۴ء کو انہوں نے دہلی اسمبلی سے جین لوک پال بل منظور کرانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ کجریوال نے انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام عائد کیا کہ ان کا انسدادِ رشوت ستانی اور بدعنوانی کے قانون کے نفاذ کو روکنے کا مقصد معروف صنعت کار مکیش امبانی جو ریلائنس انڈسٹریز کے چیئرمین اور منتظم اعلیٰ ہیں، کے خلاف حکومت کی ایف آئی آر (FIR) کے اندراج کو روکنا تھا۔ اپریل میں اپنے ایک بیان میں جناب کجریوال نے کہا کہ یہ میری غلطی تھی کہ میں نے عوام کو اپنے استعفے سے پہلے اس فیصلے کی وجوہ سے آگاہ نہیں کیا۔ جنوری میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے استعفیٰ دینے سے پہلے انہوں نے ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا کے عام انتخابات میں ایک نشست پر الیکشن لڑنے کے بارے میں کہا تھا کہ وہ اس میں حصہ نہیں لیں گے، لیکن اپنی پارٹی کے ارکان کے اصرار پر وہ ۲۵ مارچ کو بی جے پی کی طرف سے وزارت ِعظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے خلاف بنارس سے الیکشن لڑنے کو تیار ہوگئے تھے، لیکن اس میں انہیں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا اور تین لاکھ ستّر ہزار ووٹوں کے فرق سے وہ ہار گئے۔
۲۰۱۵ء کے دہلی اسمبلی کے انتخابات
دہلی کے ۷۰ حلقوں کے انتخابات میں کجریوال کی عام آدمی پارٹی نے ۶۷ نشستیں حاصل کرلیں اور بی جے پی کو صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی، جبکہ کانگریس کو ایک نشست ملی۔ اروند کجریوال، نوپر شرما (Nupur Sharma) کو ۳۱ ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دے کر دوسری مرتبہ دہلی کی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ ۱۲ فروری ۲۰۱۵ کو دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک بڑے مجمع کے سامنے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس کے بعد ان کی پارٹی نے دہلی اسمبلی میں جین لوک پال بل منظور کرالیا۔ وزارتِ اعلیٰ کی اس دوسری میعاد کے دوران دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر اور وزیراعلیٰ کے مابین تنازعات کا ایک سلسلہ بہت عرصے تک چلتا رہا۔ عام آدمی پارٹی نے ۲۰۱۵ء میں پہلی مرتبہ محلہ کلینک قائم کیے جو دہلی میں صحت کے بنیادی مراکز تھے، اور ۲۰۱۸ء میں پوری ریاست میں مزید ۱۸۷ مراکز قائم کیے گئے جس سے بیس لاکھ عام افراد مستفید ہوئے۔
دہلی کی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے ۲۰۲۰ء کے دہلی کے انتخابات سے پہلے ایسے ایک ہزار مراکز قائم کرنے کا ہدف مقرر کیا۔ ان محلہ کلینک میں حفظانِ صحت کی لازمی خدمات فراہم کی جاتی ہیں جن میں بلامعاوضہ دوائیں، علاج کی تشخیص کی سہولتیں اور ڈاکٹر کے مشورے کی سہولتیں میسر ہیں۔ یہ کلینک عوام سے رابطے کے پہلے اور بنیادی مرکز ثابت ہوئے جن میں بروقت انہیں طبی سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں اور ان پر مالی بوجھ میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ اکتوبر ۲۰۱۹ء سے نئی دِلّی میں دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن نے خواتین کو بسوں میں مفت سفر کی سہولت فراہم کرنا شروع کردی ہے۔ خواتین کو گلابی رنگ کے ٹکٹ فراہم کیے گئے ہیں جن کو دکھا کر وہ بسوں میں مفت سفر کرتی ہیں، اس ٹکٹ پر کجریوال کا ایک پیغام بھی درج ہوتا ہے۔
دہلی کے ۲۰۲۰ء کے ریاستی انتخابات
عام آدمی پارٹی نے ۲۰۲۰ء کے دہلی کے انتخابات میں کل ستر نشستوں کے انتخابات میں باسٹھ نشستیں جیت کر پالا مار لیا، جبکہ بی جے پی کو کُل آٹھ نشستیں مل سکیں۔ گزشتہ دو مرتبہ کے ریاستی انتخابات ہارنے کے بعد بی جے پی نے ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں سردھڑ کی بازی لگادی تھی۔ خود نریندر مودی اور وزیرداخلہ امیت شاہ نے دہلی کے ایک انتخابی جلسے میں عام آدمی پارٹی کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کیا تھا، مگر دہلی کے ووٹروں نے عام آدمی پارٹی کے خلاف ملک کی سیاسی تاریخ کے سب سے زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار کرکے عوامی خدمت کرنے والوں سرخرو کردیا۔
عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور اس کے رہنما جس محنت، لگن اور دیانت داری سے غریب اور مسائل میں گھرے ہوئے عوام کی خدمت کررہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے وہ دن دور نہیں جب عوامی خدمت کے کارنامے دہلی اور مغربی بنگال کے علاوہ پورے ہندوستان میں اپنی جگہ بنالیں گے اور نفرت، تعصب اور تشدد کے رجحان کو بدستور بدترین شکستوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ہم کجریوال کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے دوسرے صوبوں اورعلاقوں میں اپنی پارٹی اور خدمت کا پرچار کریں، وہاں اپنے دفاتر قائم کریں، اور اپنی خدمت کا دائرہ وسیع کرکے ملک گیر پارٹی بن کر اگلے انتخابات میں حصہ لیں۔ یقینا کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ غریب عوام کو مفت پانی، بجلی دینے، خواتین کو بسوں میں مفت سفر، جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو فلیٹ دینے کے کارنامے یقیناً قابلِ ستائش اور صحیح عوامی خدمت کے عکاس ہیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حکمرانوں کو بھی عملی طور پر مہنگائی کے مسائل اور نااہل حکمرانی کے تلے پسے ہوئے مظلوم عوام کی خدمت کی ’’آپ‘‘ کی طرح توفیق دے، اور وہ صرف سابق حکمرانوں اور مخالف سیاسی جماعتوں پر الزام تراشی پر تکیہ نہ کریں، ورنہ ہماری موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا انجام انتہائی عبرتناک ہوگا۔