عزم و استقامت کی چٹان نعمت اللہ خان

محمد شاہد شیخ
شیر دل انسان، عزم و استقامت کی چٹان، خلق ِ خدا کی خدمت تھا جس کا کام، اسی لیے وہ عزت و عظمت اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچے، دیانت داری کو شعار بنایا اور اپنی قائدانہ صلاحیت کا ہر جگہ لوہا منوایا۔ عزیزم علا الدین خانزادہ نے کیا خوب کہاکہ

اندھیری شب میں چمکتا ہوا ستارہ رہا
جو ڈوبتا تھا مرا شہر، وہ کنارہ رہا
وہ پیر تھا کہ جوانوں سے حوصلے والا
وہ میرے شہر میں خدمت کا استعارہ رہا

نعمت اللہ خان نے جماعت اسلامی میں شمولیت اگرچہ 1957ء میں ہی کرلی تھی لیکن انہوں نے رکنیت کا حلف ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں عمرہ کے بعد اٹھایا، اور اس حلف کی تجدید کا موقع مدینہ منورہ میں ملا۔ وہ شہر کراچی ہی نہیں، پاکستان اور دنیا بھر میں خدمتِ انسانیت کے حوالے سے مشہور ہوئے۔
نعمت اللہ خان یکم اکتوبر 1930ء کو شاہ جہاں پور اجمیر شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد عبدالشکور خان ریلوے میں کلرک تھے، جن کا 1940ء میں انتقال ہوگیا تو ان کی والدہ بسم اللہ بیگم نے اپنے لخت ِ جگر، نورِ نظر کو ماں کے پیار کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی اور ان کا تعلیم سے تعلق جوڑا۔ اجمیر شریف انڈیا میں ہی انہوں نے 1946ء میں میٹرک کرلیا تھا۔ وہ پُرجوش ہونے کے ساتھ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک بھی تھے۔ تحریک ِپاکستان شروع ہوئی تو 16سال کی عمر میں ہی مسلم لیگ نیشنل گارڈ اجمیر کے صدر بنادیئے گئے۔
نعمت اللہ خان نے ہجرت کا سفر خاندان میں تنہا کیا۔ کراچی کا بندر روڈ جسے اب ایم اے جناح روڈ کہا جاتا ہے، کی فٹ پاتھ پر ابتدائی وقت گزارا، بغیر بستر کے راتیں بسر کیں، پھر بھائی کی پاکستان آمد کے بعد لیاری میں ایک کچا کمرہ رہنے کو ملا، اور جب والدہ اور بہنیں بھی کراچی پہنچ گئیں تو عین اُس مقام پر جھونپڑی ڈالی جہاں اب قائداعظم کا مزار یا اس کا احاطہ ہے۔ وہ دُور سے خود پانی بھر کر لاتے اور محنت مزدوری کرکے اپنا اور اہلِِ خانہ کا پیٹ پالتے، لیکن غربت و مشقت کے باوجود تعلیم سے رشتہ نہیں توڑا۔ انٹر و بی اے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹر شریف المجاہد کی شاگردی میں شعبہ صحافت میں ڈپلومہ کیا اور پھر وکالت کا امتحان بھی دیا اور کامیابی کے بعد انکم ٹیکس کے ایک کامیاب وکیل بن گئے۔ والدہ بسم اللہ بیگم نے 1960ء میں ان کی طاہرہ صاحبہ سے شادی کردی اور پھر اللہ نے محنت کا صلہ دیا، وہ نارتھ ناظم آباد کے بلاک Fمیں اپنا بنگلہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، جس کا پلاٹ انہوں نے 19ہزار روپے میں خریدا تھا۔ یہاں ان کو اللہ نے 7بیٹوں اور 2 بیٹیوں سے نوازا۔ یہی وہ رہائش گاہ ہے جس کے ایک حصے میں سید منور حسن صاحب خاصے عرصے تک کرائے پر رہے ہیں۔
نعمت اللہ خان نے ہجرت کے بعد جہاں محنت و تعلیم اور صلاحیتوں سے خود کو بنایا، وہیں خدمتِ خلق کا بیڑا بھی اٹھایا۔ انہوں نے غریب بچوں و بچیوں کی شادیاں کرانے، ان کے لیے تعلیم و روزگار کا بندوبست کرنے اور بیماروں کے لیے علاج معالجے، علاقے کی صفائی، ستھرائی پر بھی دن و رات ایک کیے رکھے۔ وہ چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے عادی بن گئے تھے، اور خدمتِ خلق اور اقامتِ دین کے کام میں انہوں نے کبھی بیماری اور جسمانی کمزوروی کو آڑے نہیں آنے دیا۔ وہ ذیابیطس، بلند فشارِ خون اور کئی بیماریوں سے پیرانہ سالی میں بھی لڑتے رہے، لیکن دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے تھر کے ریگستانوں میں اونٹ پر بیٹھ کر جانا ہو جہاں انہوں نے درجنوں کنویں اور فلاحی شفاخانے و اسکول قائم کیے، یا سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کشتی میں بیٹھ کر سفر کرنا ہو، یا زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے دشوار گزار اور سنگلاخ پہاڑوں پر پہنچ جانا… انہوں نے بیماری کا عذر قبول نہیں کیا۔ وہ کراچی کے ہنگامہ خیز ماحول میں بھی میدان میں رہے جب اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کا قتل ِ عام ہوتا تھا، لسانیت و تعصب کا بیج بوکر کراچی سے سروں کی فصلیں کاٹی جارہی تھیں اور اہلِ کراچی کو آگ وخون میں نہلایا جارہا تھا، اُس وقت بھی نعمت اللہ خان حق و صداقت اور عوام کی خدمت کا پرچم لیے میدان ِ عمل میں رہے۔ وہ سندھ اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی رہے اور اپنے حلقے میں بہترین کام بھی کرائے اور عوامی حقوق پر آواز بھی اٹھائی۔ اس آوازِ حق کی پاداش میں انہوں نے درجنوں کارکنوں کی نعشیں اپنے کاندھوں پر اٹھائیں لیکن کبھی ظلم و جبر اور دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے نہیں ہٹے، اور صبرو استقامت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
نعمت اللہ خان سے جب راقم نے اپنے مربی مرحوم صفدر علی چودھری کی ہدایت پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا تو انہوں نے کہاکہ میں مسلم لیگی کارکن تھا لیکن مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر نے میری کایا پلٹ دی، اس لٹریچر نے میرا قرآن سے تعلق جوڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا رشتہ قائم کیا، میں جماعت اسلامی کا کارکن بن گیا اور نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں کہ ’’بہترین مشغلہ انسانیت کی خدمت ہے‘‘ کو شعار بناکر جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت خلق سے وابستہ ہوگیا، 1974ء میں جب میں مکہ مکرمہ میں عمرہ کرکے بیٹھا تھا تو جماعت اسلامی پاکستان کی سعودی عرب میں قائم تنظیم کے کچھ دوست آئے اور کہاکہ آپ کی رکنیت منظور ہوگئی ہے۔ انہوں نے حرم شریف میں ہی مجھ سے حلفِ رکنیت لے لیا، اور جب میں مسجد نبوی اور روضہ رسولؐ پر پہنچا تو وہاں محترم چودھری صفدر علی (سابق ناظم نشرواشاعت جماعت اسلامی پاکستان) بھی موجود تھے اور دیگر جماعتی ساتھی آگئے کہ امیر محترم نے تو ہماری ذمہ داری لگائی تھی کہ آپ سے رکنیت کا حلف لے لیں، تو انہوں نے مسجد نبویؐ میں ریاضِ الجنتہ کے مقام پر بیٹھ کر ایک بار پھر حلفِ رکنیت پڑھوایا۔ گویا تجدیدِ رکنیت ہوگئی۔ اس کے بعد ضلع وسطی کراچی سے لے کر صوبہ سندھ کی نائب امارت تک ذمہ داری رہی، صوبائی و مرکزی شوریٰ میں رہا اور اب کراچی کا امیر ہوں۔
کراچی جانا ہوتا تو نعمت اللہ خان صاحب سے چائے یا کھانے پر میری ملاقات بھی ہوجاتی۔ ایک مرتبہ وہ کسی پروگرام میں جارہے تھے، مجھے دیکھ کر کہاکہ میں فلاں جگہ جارہا ہوں آؤ تم بھی چلو۔ میں ساتھ ہولیا۔ کار کی پچھلی نشست پر بیٹھا تھا اور اگلی نشست پر جماعت کے ایک اور برزگ تشریف فرما تھے۔ خان صاحب ڈرائیو کررہے تھے۔ ان صاحب نے کئی مرتبہ کہاکہ نعمت صاحب گاڑی یہاں سے موڑیئے، پھر یہاں سے موڑیئے۔ نعمت اللہ خان نے گاڑی روک دی اور کہاکہ کیا میں کراچی میں نیا آیا ہوں! ایک ایک گلی و راستہ مجھے پتا ہے۔ وہ صاحب پھر مسکراتے ہو ئے خاموش ہوگئے۔ کچھ لطائف و واقعات کا سلسلہ بھی ہوا اور ہماری منزل آگئی جہاں نعمت صاحب کا خطاب تھا۔ نعمت صاحب کی محبت کا ایک ایسا تعلق قائم ہوا کہ جب میں کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھا اور آپریشن کے کئی مراحل سے گزر کر نئی زندگی کی طرف بڑھ رہا تھا تو یہاں دیگر کی طرح نعمت اللہ خان صاحب بھی آتے رہے اور ڈاکٹروں سے معلومات لیتے رہے۔
ایک مرتبہ تو مجھے ہوش تھا، انہوں نے نہایت محبت سے میری پیشانی و سر پر ہاتھ پھیرا اور دلاسہ دیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد جب ایک ڈنر پر میری اُن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہاکہ اللہ بہت بڑا ہے، میں نے کس حالت میں تمہیں کراچی کے نجی اسپتال میں دیکھا تھا، اللہ مُردے میں بھی جان ڈال دیتا ہے۔ نعمت اللہ خان اُس وقت ناظم کراچی نہیں تھے لیکن جب بھی اسپتال آتے توآغا خان اسپتال انتظامیہ کا کوئی فرد اور ڈاکٹر بھی ساتھ ہوتے، وہ فکر مندی سے دیکھتے اور دعا کرکے چلے جاتے۔ ان کا یہ مشفقانہ تعلق بعد میں بھی قائم رہا۔
نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے سٹی ناظم منتخب ہوئے۔ وہ 2001ء سے 2005ء تک کراچی کے ناظم رہے۔ انہوں نے نہایت دیانت داری سے اپنی قائدانہ صلاحیتوں،مثالی نظم و ضبط اور خدمت خلق کی ناقابلِ فراموش مثالیں قائم کیں جس کا اعتراف ان کے دوست ہی نہیں دشمن بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کراچی کو میئر عبدالستار افغانی کی طرح ترقی کی شاہراہ پر ڈالا بلکہ ترقی کی ایسی بنیادیں ڈالیں کہ بعد میں آنے والے اس نقشے پر چلنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے کراچی بلدیہ کے معمولی بجٹ کو اربوں کا بجٹ بنادیا۔ 6 ارب کا بجٹ 42 ارب تک پہنچادیا۔ کراچی کی روشنیاں بحال کیں، سستے، اچھے اور معیاری منصوبے بنائے اور انہیں تکمیل تک پہنچایا۔ ان میں18 فلائی اوور، 2 انڈر پاس، 2 کوریڈور، 30 ماڈل پارک، 500گرین بسیں،32 نئے کالج اور دل کے امراض کا اسپتال کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز قائم کیا، اور پہلے سے قائم اسپتالوں و اسکولوں کا معیار بہتر بنایا۔ انہوں نے ترقیاتی کام ہی نہیں کرائے بلکہ کراچی میں امن و یکجہتی کی عمدہ مثالیں قائم کیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلک یا زبان سے تعلق رکھنے والا ہو آج نعمت اللہ خان کی رحلت پر اشک بار ہے۔ نعمت اللہ خان 9 عشروں پر محیط مثالی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔ جو نیکیاں انہوں نے سمیٹی ہیں اللہ یقیناً انہیں آخرت میں بھی بہترین مقام دے گا اور جنت الفردوس میں جگہ مرحمت فرمائے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔