ڈاکٹر فیاض عالم
میرا نعمت صاحب سے تعارف 1992ء میں ہوا جب میں نے پیما کی مرکزی شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے برادر تنظیموں کے اجلاسوں میں ادارۂ نورِ حق جانا شروع کیا۔ کچھ ہی عرصے میں خاں صاحب سے خاصی قربت ہوگئی اور انہوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ کام کیا کرو، خاص طور پر میڈیا کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ سٹی ناظم بنے تب راقم کو میڈیا کوآرڈی نیٹر کی ذمہ داری بطور خاص دلوائی۔ اس طویل رفاقت اور درجنوں منصوبوں میں اُن کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہونے کے بعد ایک بات میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ نعمت اللہ خان صاحب حیرت انگیز قوتِ فیصلہ کے مالک تھے۔ اگست 2002ء میں انہیں ایک تجویز پیش کی کہ کراچی میں سٹی گورنمنٹ کے تحت امراضِ قلب کا ایک بڑا اسپتال قائم کیا جائے۔ اُس وقت کمرے میں موجود کچھ لوگوں نے اِس تجویز کو ناقابلِ عمل خواب قرار دیا۔ 1970ء میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیوویسکولر ڈیزیز وفاقی حکومت اور کراچی کے مخیر حضرات کے تعاون سے بنایا گیا تھا، اور اس کے بعد امراضِ قلب کا کوئی اسپتال پورے صوبے میں کسی بھی حکومت نے نہیں بنایا تھا۔ خاں صاحب نے مجھ سے پوچھا ’’بن جائے گا؟ سوچ لو‘‘۔ پھر انہوں نے کہاـ’’اچھا ایک پریزنٹیشن دو! پھر دیکھتے ہیں‘‘۔
پھر 19 ستمبر 2002ء کو سوک سینٹر کے کمیٹی روم میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالصمد (مشہور ماہرِ امراضِ قلب)، پروفیسر ڈاکٹر زاہد رشید، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ، ڈاکٹر عبداللہ متقی، ڈاکٹر اورنگزیب رہبر اور راقم موجود تھے، اور خاں صاحب، ڈی سی او شفیق الرحمٰن پراچہ، ای ڈی او فنانس شعیب صدیقی و دیگر افسران کو امراضِ قلب کے مجوزہ اسپتال کے منصوبے کی بریفنگ دی جارہی تھی۔
بریفنگ ختم ہوئی تو خاں صاحب نے راقم کو اشارے سے قریب بلایا اور کہا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ جس کام کے پیچھے پڑجاتے ہو، وہ اللہ کروا ہی دیتا ہے، لیکن ایک بار پھر سوچ لو کہ اتنا بڑا منصوبہ سٹی گورنمنٹ بنا سکے گی؟ جبکہ دو سال پہلے ہی گزر چکے ہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’خاں صاحب آپ تہیہ کرلیں، اِن شاء اللہ یہ اسپتال آپ ہی کے دور میں بنے گا‘‘۔ پروفیسر عبدالصمد صاحب سے نعمت اللہ خان صاحب کی اُس روز پہلی بار ملاقات ہوئی۔ بریفنگ کے اختتام پر شفیق الرحمٰن پراچہ صاحب نے اس منصوبے کو مفید قرار دیا اور نعمت اللہ خان صاحب نے اعلان فرمایا کہ سٹی گورنمنٹ فیڈرل بی ایریا کے علاقے میں امراضِ قلب کا دوسرا اسپتال قائم کرے گی۔ دو مراحل میں بنایا جانے والا اسپتال 450 بستروں پر مشتمل ہوگا۔ 2 جنوری 2003ء کو سٹی کونسل نے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے قیام کے لیے متفقہ قرارداد منظور کی جو مسلم پرویز نے پیش کی تھی۔ 9 جنوری 2004ء کو اسپتال کے پہلے مرحلے کی عمارت کا سنگِ بنیاد نعمت اللہ خان صاحب نے رکھا۔ عمارت کی تعمیر ایک سال سے بھی کم عرصے میں مکمل ہوگئی اور سات کروڑ روپے کی مشینیں اور فرنیچر وغیرہ بھی خرید لیے گئے۔ 25 مئی کو ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر عبدالصمد نے بلوچستان کے دور دراز علاقے سے آئے ہوئے ایک مریض کی انجیو گرافی کی، اگلے چند ماہ میں 500 مریضوں کی انجیوگرافی اور انجیو پلاسٹی کی گئی، اور نعمت اللہ خان صاحب کی ہدایت کے مطابق انجیو گرافی کے صرف 3000 جبکہ انجیوپلاسٹی کے 35000 روپے لیے گئے۔ 3 جون 2005ء کو نعمت اللہ خان صاحب نے کراچی میں امراضِ قلب کے دوسرے اور سٹی گورنمٹ کے تحت پہلے امراضِ قلب کے اسپتال کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس اسپتال کے منصوبے کو خواب سے تعبیر کی شکل دینے کے لیے ڈاکٹر محمد خالد (رکن جماعت اور راقم کے کلاس فیلو)، پروفیسر عبدالصمد اور ڈاکٹر زاہد رشید نے دیوانہ وار محنت کی اور اس منصوبے میں نعمت اللہ خان صاحب نے غیر معمولی دلچسپی لی۔ اس اسپتال کے ساتھ ہی ہمارا ہر ٹائون میں ایک چیسٹ پین سینٹر بنانے کا منصوبہ تھا۔ محترمہ عائشہ منور نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی اپنے فنڈز کو ایک چیسٹ پین سینٹر کے قیام کے لیے مختص کروایا جو کورنگی میں بنایا جارہا تھا، اس کے علاوہ ایک چیسٹ پین سینٹر کا سنگِ بنیاد ماڈل کالونی میں بھی رکھا گیا تھا۔ آج حکومتِ سندھ اسی ماڈل پر کراچی کے مختلف علاقوں میں چیسٹ پین سینٹر بنارہی ہے۔ امراضِ قلب کا اسپتال نعمت اللہ خان صاحب کی سٹی نظامت کا سب سے اہم منصوبہ تھا جسے ابتدا میں ناقابلِ عمل قرار دیا گیا تھا، لیکن خان صاحب کی حیرت انگیز قوتِ فیصلہ اور اپنی ٹیم کے لوگوں پر مکمل اعتماد، اور اللہ تعالیٰ کی توفیق کی بدولت انہوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔