عالمی سرمایہ دارانہ نظام، بجٹ خسارے اور قرض کی زنجیر

شہزاد شیخ
مالی سال2019-20ء کے بجٹ میں وفاقی حکومت نے محصولات کا ہدف 5822 ارب روپے رکھا تھا جبکہ اخراجات کا تخمینہ 8238 ارب روپے تھا۔ اس طرح 2416 ارب روپے کا خسارہ تھا۔ جس وقت ٹیکس وصولی کا یہ ہدف رکھا گیا تھا تو اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا۔ لیکن عمران خان کی حکومت کا کہنا تھا کہ ہم تبدیلی کے نعرے پر حکومت میں آئے ہیں، لہٰذا ہم یہ ہدف حاصل کرے دکھائیں گے۔ عمران خان صاحب اقتدار میں آنے سے قبل یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو آٹھ ہزار ارب ٹیکس جمع کرکے دکھائیں گے، اور ایسا اس لیے ممکن ہوگا کیونکہ وہ ایک ایماندار اور کرپشن سے پاک قیادت فراہم کریں گے۔ لیکن اب اقتدار میں آنے کے بعد عمران حکومت آئی ایم ایف سے یہ درخواست کررہی ہے کہ5822 ارب ٹیکس وصولی کے ہدف کو تبدیل کرکے 4700 ارب روپے کردیا جائے کیونکہ ایف بی آر اس سے زیادہ ٹیکس کسی صورت جمع نہیں کرسکتا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی حکومت ایماندار اور کرپشن سے پاک قیادت فراہم نہیں کرسکی جو اب بھی پاکستان کی وفاقی حکومت ٹیکس ہدف کو حاصل نہیں کرپارہی؟
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے پاکستان کے لوگوں کو یہ سبق زور شور سے پڑھایا جارہا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو ٹیکس لازمی دینا چاہیے، کیونکہ ہمارے ٹیکسوں سے ریاست چلتی ہے۔ جب ہم ٹیکس نہیں دیتے تو ریاست اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے قرض لیتی ہے۔ لہٰذا پاکستان اور اس کی معیشت کو تگڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اتنا ٹیکس ادا کریں جس سے ریاست کی تمام ضروریات پوری ہوں اور ریاست اپنے تمام قرض بھی ادا کرسکے۔ جب یہ سب کچھ ہوجائے گا تب ہی پاکستان اور ہم معاشی لحاظ سے مضبوط اور طاقتور ہوں گے۔
بادی النظر میں یہ بات مکمل طور پر درست معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس معاملے کو دو حوالوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے:
1۔ کیا واقعی حقیقت ایسی ہی ہے جیسے حکمران بیان کرتے ہیں؟
2۔ اسلام اس حوالے سے ہمیں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے؟
توحقیقت کیا ہے؟ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا، مالی سال 2019-20ء کے وفاقی بجٹ کا حجم 8238 ارب روپے ہے۔ ٹیکس کا ہدف 5822 ارب روپے (یہ ہدف پچھلے سال کے مقابلے میں 33فیصد زائد ہے) یعنی 2416 ارب روپے کا خسارے کا بجٹ۔ اس وقت پاکستان کا کُل قرض 107ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ پاکستان کا قرض اس کی کُل ملکی پیداوار (جی ڈی پی)کا 91فیصد ہے، اور یہ صورت حال اس وقت ہے جب پاکستان میں جی ڈی پی کی نسبت سے ٹیکس کی شرح 11.6فیصد ہے (جبکہ اس سے پچھلے سال یہ شرح 13 فیصدتھی)۔ 2018ء میں آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ(او ای سی ڈی)کے رکن ممالک کی جی ڈی پی کے تناسب سے اوسط ٹیکس کی شرح 34.3 فیصد رہی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح عالمی معیار سے بہت ہی کم ہے۔ لیکن اگر پاکستان ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو عالمی معیار پر لے آتا ہے تو کیا ریاست پاکستان کے پاس اس قدر وسائل ہوں گے کہ پھر اس کے بجٹ، خسارے کے بجٹ نہیں ہوں گے؟ اور جب اس کے بجٹ خسارے کے نہیں ہوں گے تو پھر اسے قرض بھی نہیں لینا پڑے گا۔ اور جب ہم مقروض نہیں ہوں گے تو یقیناً معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں گے۔
اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہم سب سے پہلے امریکہ کی مثال لیتے ہیں جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور واحد عالمی طاقت ہے۔ 1970ء سے امریکہ کا وفاقی بجٹ خسارے کا بجٹ چلا آرہا ہے۔2019ء میں امریکہ کے وفاقی بجٹ میں اخراجات کا تخمینہ 4450 ارب ڈالر جبکہ محصولات کا ہدف 3460 ارب ڈالر ہے۔ تو اس طرح تقریباً 1000ارب ڈالر خسارے کا اسے سامنا ہے۔ امریکہ کا کُل ملکی قرض 22670 ارب ڈالر ہے جو اس کی کُل ملکی پیداوار کا 106فیصد بنتا ہے۔ اور یہ تمام تر صورت حال اس وقت ہے جب امریکہ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 27.1 فیصد ہے۔
اسی طرح چین جو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اُس کی صورت حال بھی امریکہ سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ 2018ء میں چین نے 3301 ارب ڈالر کا بجٹ پیش کیا۔ محصولات کا ہدف 2800 ارب ڈالر تھا۔ یعنی 375ارب ڈالر کے خسارے کا بجٹ تھا۔ چین کا کُل ملکی قرض 5200 ارب ڈالر ہے جو اس کی کُل ملکی پیداوار کا 47.6 فیصد بنتا ہے (2018)۔ اور یہ تمام تر صورت حال اس وقت ہے جب چین میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 21.1 فیصد ہے (2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق)۔کچھ یہی صورت حال تمام ترقی یافتہ ممالک یعنی برطانیہ، جاپان، فرانس، کینیڈا، جرمنی، اٹلی کی بھی ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ بھائی یہ بہت بڑے ممالک ہیں، عالمی طاقتیں ہیں، ان کے خرچے بھی بڑے ہیں، آپ اپنے جیسے ممالک سے مقابلہ کریں۔ تو آئیں بھارت اور برازیل کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
بھارت کا بجٹ خسارہ 90 ارب ڈالر ہے جبکہ اس کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح تقریباً 11فیصد ہے اور کُل ملکی قرض 1292ارب ڈالر ہے جو اس کی کُل ملکی پیداوار کا تقریباً 45 فیصد بنتا ہے۔ برازیل کا بجٹ خسارہ 15ارب ڈالر ہے جبکہ اس کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح تقریباً 22 فیصد ہے اور کُل ملکی قرض 1359ارب ڈالر ہے جو اس کی کُل ملکی پیداوار کا تقریباً 80فیصد بنتا ہے۔
ان اعداد و شمار سے یہ نظر آتا ہے کہ جن ممالک کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 20 سے 30فیصد ہے انہیں بھی بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ بجٹ خسارے سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 30 یا 40فیصد سے بھی زیادہ ہونا چاہیے؟
تو مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ ممالک جن کے ہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے اُن کے ہاں بھی سوائے ڈنمارک کے خسارے کے بجٹ پیش ہوتے ہیں اور ملکی قرض بڑھ رہے ہیں۔ فن لینڈ میں ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح 54 فیصد ہے لیکن اس کے باوجود بجٹ خسارے کا ہے اور قرض ٹو جی ڈی پی کی شرح 59فیصد ہے۔ ڈنمارک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی 50فیصد ہے اوربجٹ خسارے کا نہیں ہے، لیکن قرض اور جی ڈی پی کی شرح 34 فیصد ہے۔
جو بات ان اعداد و شمار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں چاہے کتنا ہی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ کرلیا جائے ملکی بجٹ خسارے کا ہی رہتا ہے جس کے نتیجے میں حکومتیں قرض لیتی ہیں اور اس طرح ملکی قرض بھی بڑھتا ہی رہتا ہے۔
آخر سرمایہ دارانہ نظام میں ایسی کیا خرابی ہے کہ جس کی وجہ سے چاہے ملکی پیداوار اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہوجائے، محصولات ہمیشہ اخراجات سے کم ہی رہتے ہیں؟ بجٹ خسارے کے ہی پیش ہوتے ہیں؟ اور نتیجتاً حکومتیں قرض پر قرض لینے پر مجبور ہوتی ہیں؟
اس صورت حال کی دو بنیادی وجوہات ہیں:
1۔ آزاد ملکیت کے نام پر تیل، گیس، بجلی اور معدنیات کے ذخائر پر نجی شعبے کی اجارہ داری۔ یہ وہ شعبہ ہے جہاں سے بے پناہ دولت پیدا ہوتی ہے لیکن سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں دولت کے ان ذخائر کو آزاد ملکیت کے تصور کے تحت نجی شعبے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ بے پناہ دولت چند ہاتھوں میں محدود ہوجاتی ہے اور ریاست کو ٹیکس کے نام پر چند کوڑیاں ہی ملتی ہیں جبکہ اربوں ڈالر کا منافع نجی مالکان لے جاتے ہیں۔
2۔ فری مارکیٹ اکانومی کے نام پر حکومتیں خود کو کاروبار سے الگ رکھتی ہیں جس کی وجہ سے ان شعبوں میں جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے اور منافع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے جیسا کہ دفاعی صنعتیں، ٹیلی کمیونیکیشن، ایوی ایشن، ریلوے، ہوائی جہاز سازی، بحری جہاز سازی، ٹرانسپورٹ، تعمیرات، ادویہ وغیرہ، نجی شعبہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور اربوں ڈالر نفع کما کر چند کوڑیاں ٹیکس کے نام پر ریاست کے خزانے میں جمع کراتا ہے۔
اس صورت حال میں جب ریاست قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والے وسائل سے دست بردار ہوجائے تو پھر ریاست کا خزانہ کون اور کیسے بھرے گا؟ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں سرمایہ داروں پر ٹیکس کم سے کم لگائے جاتے ہیں کیونکہ اسمبلیوں میں انتخابات جیت کر آنے والے پر انھوں نے ہی سرمایہ کاری کی ہوتی ہے۔ اب رہ جاتے ہیں عوام، جو پہلے ہی غریب ہوتے ہیں اور ان پر ٹیکس کا کتنا ہی بوجھ ڈال دیا جائے وہ کسی صورت ریاست کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے امریکہ ہو یا چین، بھارت ہو یا پاکستان، ریاست کے بجٹ، خسارے کے ہوتے ہیں اور عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کے بعد بھی یہ خسارہ پورا نہیں ہوتا اور پھر ریاست قرض پر قرض لیتی چلی جاتی ہے۔