زندہ قومیں عمل اور جرات سے پہچانی جاتی ہیں

پاکستان دولت میں ایران سے کم تر اور ترقی کی دوڑ میں ترکی سے پیچھے ہے، مگر سرکاری رہائش گاہوں اور موٹروں کے شاہانہ استعمال، نیم سرکاری اداروں کے ٹھاٹھ باٹھ اور بیرونی مہمانوں پر ناحق اور ناجائز اخراجات کے سلسلے میں سب سے آگے ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے، پاکستان کے وزیر خزانہ کے دفتر میں ایک قالین بچھا ہوا تھا، بڑی اچھی حالت میں تھا۔ ترکی کے ایوانِ صدر کی راہرو میں بچھے ہوئے قالین سے کہیں زیادہ صاف اور خوش رنگ تھا، لیکن وزیر موصوف کے معیار پر پورا نہ اترا۔ حکم ہوا کہ اسے بے داغ سفید رنگ کے قالین سے تبدیل کردو۔ تعمیل ہوئی۔ اسلام آباد میں بارش بہت ہوتی ہے، سیکریٹریٹ کی ساری عمارتیں پورچ کے بغیر ہیں، لوگ گیلے کپڑوں اور گندے جوتوں سمیت اندر داخل ہوتے ہیں۔ وزیر خزانہ جو خزانے کی حفاظت پر مامور تھے وہ اپنے دفتر میں نہ صرف سفید قالین بچھواتے ہیں بلکہ اپنی میز کرسی کے پیچھے جو دیوار ہے اسے تہ دار سرخ کمخواب سے ڈھانپ دیتے ہیں۔ ایک دوست کو جس نے 1946ء میں اپنی ملازمت کا آغاز نئی دِلّی میں برطانوی ہند کی وزارتِ خزانہ سے کیا تھا، کئی دہائیوں کے بعد بھارت کے وزیر خزانہ کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا، کہتے ہیں کہ وہی ساگوان کی میز جو انگریز استعمال کرتے تھے اسی طرح کمرے میں رکھی ہوئی ہے۔ فرش لکڑی کا ہے۔ چلتے ہوئے کھٹ کھٹ کی آواز آتی ہے، مگر کسی نازک مزاج نے اسے دیوار سے دیوار تک قالین سے ڈھکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ اس ذرا سے حصے میں جہاں صوفہ رکھا ہوا ہے ایک چھوٹا اور سادہ قالین بچھا ہوا ہے۔
ہمارے یہاں ملک کی دولت کو حکومت کے سیاسی اور انتظامی کارندے جس بے دردی سے عَلانیہ ضائع کرتے ہیں، اگر اس کی مثالوں کا دفتر جمع کیا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں میں اسے الف لیلہ کے قصوں کی طرح شوق اور حیرت سے پڑھا جائے گا۔ سوئٹزرلینڈ دنیا کا ایک امیر ترین ملک ہے۔ اس کے معتمدِ تجارت سے میں نے اسلام آباد سے رخصت ہوتے ہوئے یونہی پوچھ لیا کہ وہ جنیوا کے راستے جارہا ہے یا زیورچ کے؟ اس نے کہا: میں ہمیشہ زیورچ کے راستے واپس وطن پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ وہاں ریلوے اسٹیشن ہوائی اڈے سے نزدیک ہے۔ اگر جنیوا جائوں تو سامان اٹھا کر دور تک چلنا پڑتا ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا ہوائی اڈے پر تمہاری اسٹاف کار اور تمہارا عملہ تمہیں لینے کے لیے نہیں آتا؟ آخر باسل ہے ہی کتنی دور! اس نے کہا: اگر اسٹاف کار صدر مقام سے باہر کسی دوسرے شہر محض استقبال کے لیے پہنچ جائے تو اخبارات اس واقعے کو اسکینڈل کے طور پر شائع کریں گے اور جو افسر یا وزیر اس حرکت کا مرتکب ہوگا اسے استعفیٰ دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ مجھے موٹروں کے وہ کارواں یاد آئے جو وزیروں کے استقبال کے لیے دوسرے شہروں میں بھیجے جاتے ہیں۔ مجھے بے شمار افسر اور وزرا یاد آئے جو اپنے سرکاری استحقاق سے کہیں زیادہ تعداد میں موٹریں استعمال کرتے ہیں۔ اخراجات ذیلی اداروں میں تقسیم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ کھاتہ در کھاتہ درج ہوکر نظروں سے اوجھل ہوجائیں۔ ایک صاحبِ اقتدار سیاست دان کابینہ ڈویژن کی موٹروں کو اس طرح تصرفِ بے جا میں لائے کہ جب کسی موٹر کے لیے کوئی محکمہ مطالبے کی پرچی بھیجتا تو وہ اس اندراج کے ساتھ واپس آجاتی ”تمام موٹریں ڈیوٹی پر ہیں۔ آپ کو ٹرانسپورٹ کرایہ پر لینے کی اجازت ہے“۔ اُن دنوں کابینہ کے پول میں ساٹھ باسٹھ موٹریں ہوا کرتی تھیں۔
ہماری پسماندگی میں سب سے بڑا حصہ اس خوف اور ماحول کا ہے جس کی وجہ سے ہم حکمرانوں سے حکمرانی کے دوران کوئی سوال نہیں پوچھتے۔ جہاں یہ سوال پوچھنے کی روایت ترک کردی جائے کہ سربراہِ ریاست کے پاس دوسری چادر کہاں سے آئی ہے تو پھر حکمرانوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ دوسری چادر کے بجائے کپڑا بنانے کے کارخانے اور انہیں سرمایہ فراہم کرنے والے بینکوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔
میں انقرہ میں ایوانِ صدر کی گیلری کے دوسرے سرے پر دروازے کے پاس کھڑا قالینی پٹی پر نظریں گاڑے گہرے سوچوں میں ڈوبا ہوا ہوں۔ صدرِ ترکیہ کے عملہ کا ایک فرد میرے پاس آیا اور کہنے لگا: سر، رسمی ملاقاتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک رسمی اور برف کی طرح سرد ملاقاتیں، ٹھنڈی گرمیوں والی منافقتی ملاقاتیں، کلینکی سفارتی ملاقاتیں جیسے ہر شخص نے دستانے پہن رکھے ہوں، ماسک میں چہرہ چھپایا ہوا ہو اور پرفیوم کی جگہ کپڑوں پر ڈیٹول لگائی ہو۔ دوسری وہ ملاقاتیں جن کا آغاز ضابطے کے مطابق رسمی ہوتا ہے مگر مدتِ ملاقات کے ختم ہونے تک وہ غیر رسمی بن جاتی ہیں۔ تکلّفات کا حجاب اٹھ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے۔ آج کی ملاقات اس دوسری قسم کی ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ آپ تہران سے آرہے ہیں مگر ایران کے بارے میں بات کرنے کی نوبت تک نہ آئی۔ افسرِ تشریفات کی بات ختم ہوئی تو اس گھسے ہوئے قالین نے مجھ سے کہا: کیا آپ میرا ایک پیغام اہلِ پاکستان کو پہنچادیں گے۔ زندہ قومیں عمل اور جرأت سے پہچانی جاتی ہیں، نہ کہ فرش اور فرنیچر سے۔ اسراف جرم ہے۔ غربت میں اسراف دہرا جرم ہے۔
(”لوحِ ایام“…مختار مسعود)

بیاد مجلس اقبال

جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر

علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔