پاکستان کے مسائل کی جڑ اچھی طرزِ حکمرانی کا فقدان ہے۔ ایسی حکمرانی جو منصفانہ اور شفاف بھی ہو، اور لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا بھی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عمومی طور پر حکومتی یا نظام کی ناکامی پر بہت زیادہ ماتم کرتے ہوئے حکمران طبقات پر سخت تنقید کرتے ہیں لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہمارا سیاسی، سماجی، انتظامی اور قانونی نظام اور معیشت کن بنیادوں پر کھڑے ہیں، اورکیا اس نظام کی موجودگی میں کوئی بھی سیاسی یا جمہوری حکومت بڑی انقلابی تبدیلیاں لاسکتی ہے! اگرچہ یہ بات درست ہے کہ نظام میں اگر خرابیاں ہیں تو انہیں دور کرنے کے لیے حکومتوں کی طرف ہی دیکھنا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ حکومتوں، سیاست اور جمہوریت کی کمزوری نظام کی تبدیلی میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
پاکستان نے اپنے نظام میں سیاسی اور فوجی دونوں طرز کی حکمرانی کو دیکھا ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں فوجی حکمرانی کے طاقت ور ادوار بھی دیکھے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیاسی اور فوجی دونوں طرز کی حکمرانی کے باوجود ہم اپنے نظام میں ایسی اصلاحات یا تبدیلیاں پیدا نہیں کرسکے جو قومی ضرورت کے زمرے میں آتی تھیں۔ سیاسی اور فوجی حکومتوں نے نظام کی تبدیلی کے مقابلے میں پہلے سے موجود روایتی مروجہ نظام پر ہی بھروسا کرکے نظام کو چلانے کی کوشش کی۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اوّل: وہ اپنی حکمرانی کے نظام میں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کوئی انقلابی تبدیلی پیدا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ دوئم: ممکن ہے کہ جو پہلے سے روایتی یا مروجہ نظام چل رہا ہے وہ ان کے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کو فائدہ دیتا ہو، اور بڑی تبدیلی ان کا ایجنڈا ہی نہ ہو۔
اس وقت جو حکومت نظام چلانے کی کوشش کررہی ہے اسے بھی ہر محاذ پر دیگر حکومتوں کی طرح لاتعداد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ جس طرح ماضی کی حکومتوں نے نظام کی تبدیلی پر کمزوری دکھائی یا سمجھوتے کیے، ویسا ہی طرزِعمل ہمیں موجودہ حکومت کے نظام میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان تبدیلی کے نام پر آنے کے باوجود کوئی بڑی تبدیلی لانے میں داخلی اور خارجی محاذ پر مشکل کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو بار بار مافیا پر مبنی گٹھ جوڑ، یا حکمرانی یا ادارہ جاتی نظام کی طرف نشاندہی کرنا پڑتی ہے، اور یہی ان کے بقول تبدیلی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک میں روایتی اور غیر روایتی یعنی کسی بڑی تبدیلی کے سلسلے میں مختلف طبقات کے درمیان ایک سرد جنگ موجود ہے۔ ویسے بھی طاقت کے جو مراکز ہوتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان مراکز میں نئے فریق داخل نہ ہوں، اور یہ عوام کی طاقت سے زیادہ ان کی طاقت کے دائرۂ کار میں نظام کو چلائیں۔ اس کھیل میں نہ تو نظام تبدیل ہوتا ہے اور نہ ہی عام آدمی کو بااختیار کیا جاتا ہے کہ اس کا نظام پر اعتماد بحال ہو۔ ہمارے یہاں جو سیاسی جنگ چل رہی ہوتی ہے اسے بعض اوقات ہم اپنی خوش فہمی یا سادہ لوحی میں اپنے مفادات کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں، جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ اس جاری جنگ کے نتیجے میں طاقت کے مراکز کے درمیان ہی فتح اور شکست ہوتی ہے، اور عام آدمی اس جنگ کے نتائج سے ثمر حاصل نہیں کرپاتا۔
پاکستان اس وقت جن داخلی اور خارجی خطرات سے دوچار ہے، ان سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ہمیں عملی طور پر غیر معمولی اقدامات ہی کی ضرورت ہے۔ یہ کام مصنوعی یا روایتی انداز سے نہیں ہوگا، اورنہ ہی یہ ذمہ داری کسی ایک فریق کی ہے، اور نہ یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں کیا جاسکے گا۔ پاکستان کے تمام شعبوں میں چیلنج بہت پیچیدہ اورگمبھیر ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر معمولی صلاحیتیں درکار ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے پیچ ورک کی مدد سے کوئی بڑی تبدیلی لاسکیں گے، وہ غلطی پر ہیں۔کیونکہ اس وقت ہمارے مجموعی نظام میں ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ سرجری سے مراد ایسا آپریشن نہیں جو سب کچھ تباہ کردے، بلکہ اس کے مقابلے میں مسائل کی درست نشاندہی، ان کا ادراک اور حل کی جانب بغیر کسی سمجھوتے یا مفاہمت کے خود کو ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ کیونکہ بعض اوقات بڑی سرجری انسانی زندگی کو بچانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے، اور ہم اس سے اپنا دامن نہیں بچاسکتے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت طاقت کے مراکز میں ایک دوسرے کے ساتھ جو ٹکرائو ہے، اور الزام تراشی یا خود کو بالادست بناکر پیش کرنے کی جو جنگ جاری ہے، وہ قومی مفاد میں نہیں۔ فوج، عدلیہ، انتظامیہ، بیوروکریسی، سیاسی قیادت، میڈیا جو خود کو نظام میں بڑی طاقت یا فریق کے طور پر پیش کرتے ہیں، وہی کسی نہ کسی شکل میں مسئلے کا حل بننے کے بجائے بگاڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر طاقت کے مراکز مسئلے کے حل میں خود کو ایسا فریق بنا لیتے ہیں جو مزید مسائل پیدا کرنے یا انہیں پیچیدہ بنانے کا سبب بنتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طاقت کے مراکز سے جڑے تمام فریق خود کو مسیحا، یا واقعی فرسودہ نظام کو بدلنے کے خواہش مند کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر عملی طور پر ان کے اقدامات خود ایک بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
نظام کی تبدیلی پر اگر ہم متفق ہیں تو اس تبدیلی کے نئے خدوخال یا رولز آف گیم کیا ہوں گے، ہمیں اس پر ایک نئی اور سنجیدہ بحث درکار ہے جو مسئلے کے حل کے لیے ہو۔ اس کے دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر یا طاقت کے مراکز اپنی اپنی سطح پر بیٹھ کر مسائل کا تجزیہ کریں، اور اس تجزیے کی بنیاد پر مسئلے کا حل پیش کریں۔ اس مسئلے کے حل میں اپنی داخلی کمزوریوں یا ناکامیوں کو بھی بنیاد بناکر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنی ہوگی۔ دوئم، انفرادی سطح یا اپنے داخلی ادارہ جاتی محاذ پر تجزیہ کرنے کے بعد تمام فریق یا طاقت کے عملی مراکز کو ایک باہمی مشاورت درکار ہے کہ ہمیں نظام کی تبدیلی کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ اس مشاورت کا نتیجہ نظام کی تبدیلی اور فریقین کی اپنی اپنی ذمہ داری کے ساتھ سامنے آئے گا، اور یہ عمل درآمد کے ایک مکمل نظام کو بھی پیش کرے گا کہ ہمیں عملی سطح پر کیا کرنا ہوگا۔
اس مکالمے کے لیے ہمیں پہلے سے موجودہ دائرۂ کار سے باہر نکل کر کچھ بڑا سوچنا ہوگا اور تمام فریقین کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا کہ ہم سب نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہمیں طاقت کے مراکز میں ایک دوسرے کی بالادستی کے بجائے توازن پر مبنی تعلقات درکار ہیں۔ اور اس کا مقصد ایک دوسرے کو کمزورکرنا یا نیچے گرانا نہیں بلکہ مدد اور تعاون کی فضا قائم کرکے باہمی جدوجہد کے ساتھ نظام کی تبدیلی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ بیوروکریسی ہو یا سیاسی وانتظامی ڈھانچہ… سب میں بڑی سرجری درکار ہے، اور اس سرجری کو بنیاد بنانے کا مقصد عام آدمی کی حیثیت کو مضبوط بنانا ہے۔ ملک میں ناکامی کا ذمہ دار کسی ایک فریق کو بناکر پیش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ اس کا ردعمل باہمی ٹکرائو کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے نظام کے بارے میں سوچیں، جس کی مدد و سہارے سے سیاسی نظام کھڑا ہے۔کیونکہ اگر نظام کمزور ہوگا، یا بڑے مافیاز کے کنٹرو ل میں ہوگا، اس صورت میں کوئی بھی حکومت اس طاقت ور مافیا کے سامنے مؤثر مزاحمت نہیں کرسکے گی۔
ہمیں سیاسی، سماجی، قانونی، معاشی خدوخال کو بنیاد بنا کر ایک نئے نظام کی طرف پیش رفت کرنی ہے، جس میں اختیارات کی سیاسی، انتظامی اور مالی تقسیم اس انداز سے ہو کہ ملک کی تمام اکائیوں میں اعتماد، برابری اور منصفانہ سوچ پروان چڑھے۔ ماضی میں سب نے ہی غلطیاں کی ہیں، ان غلطیوں کا ماتم کرنے کے بجائے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ طاقت کے مراکز میں نیا مکالمہ کیا ہوگا، اورکون اس میں پہل کرے گا؟ اصولی طور پر جو نظامِ حکومت چلارہے ہیں اُن کو ہی یہ ادراک ہونا چاہیے اور وہی حکومت، حزبِ اختلاف سمیت تمام فریقین کی مشاورت سے اس مکالمے کا آغاز کریں، تاکہ ہم نظام کی درستی کے لیے کسی اچھے نتیجے پر پہنچ سکیں۔