سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے صحرا کے آسمان پہ نگاہ کی اور پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کوئی ہوگا ، جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں۔ فرمایا: ہاں، ابوبکرؓ! وہ سب معتبر اور معزز تھے۔ شاعر نے کہا تھا:کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند، کوئی تارہ، ابوبکرؓ کی بات ہی دوسری تھی۔ ابدالآباد تک ان پہ رشک کیا جائے گا۔ پیغمبرانِ عظام کے سوا، ان کے سرخیل، اللہ کی آخری کتاب میں جن کے باب میں لکھا ہے: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔ غارِ ثور میں وہ دو میں سے دوسرے تھے، اور یہ بات بھی کتاب میں لکھی ہے۔ اُس کتاب میں، جس میں کوئی شک و شبہ ہوسکتا ہے اور نہ جس میں تحریف ممکن ہے، جس کی حفاظت کا مالک نے خود ذمہ لیا۔ نزولِ رحمتِ پروردگار سے اوّل بھی، نبوت کا نور عطا ہونے سے پہلے بھی جنابِ ابوبکر ؓ آپؐ کے دوست تھے۔ روایتوں میں لکھا ہے کہ تب بھی آپؐ ان ؓ کے ہاں تشریف لے جایا کرتے۔ لکھا ہے کہ تب بھی وہ ؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ عہدِ جاہلیت میں بھی ابوبکرؓ دوسروں جیسے نہیں تھے۔ مسافروں کو پناہ دیتے، مظلوموں کی مدد کرتے اور محتاج کی دست گیری۔ اپنے باطن اور اپنی روح میں ابنِ ابی قحافہ تب بھی مسلمان تھے۔ تب بھی صراطِ مستقیم پر۔ اس لیے قبولِ اسلام میں ایک ذرا سا تامل بھی آپ ؓ کو ہرگز گوارا نہ ہوا۔ بعد کے برسوں میں، خدائے واحد پر ایمان کے سبب جب وہ ستائے گئے، آزردگی میں مکّہ سے باہر نکلے،تو کسی نے ان ؓ کا راستہ روکا اور یہ کہا: اے محتاجوں اور مفلسوں کی دست گیری کرنے والے تُو اس شہر سے کیسے جا سکتاہے۔ کہا تو یہی مگر اس کے لہجے نے یہ بھی کہا: تیرے بعد اس شہر میں کیا باقی بچے گا۔ سننِ ترمذی میں لکھا ہے: سرکارؐ نے ارشاد فرمایا: ہر ایک کا احسان میں نے اتار دیا، سوائے ابوبکرؓ کے۔ خاموش، ہمیشہ غور و فکر میں غلطاں، ہمیشہ افتادگانِ خاک کی سرپرستی اور ہمیشہ صداقت کے متلاشی۔ اللہ اور اس کے سچے رسولؐ کی اطاعت کے ہمیشہ منتظر۔ خیال کا رہوار پرواز کرتا ہے اور ہم انہیں مکہ مکرمہ میں لو سے بھری ہوئی ایک گلی میں پاتے ہیں۔ قدرے تیزی سے چلتے ہوئے، جو انؓ کا شعار نہ تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے انہیں مطلع کیا گیا کہ اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے ایک، امیّہ اپنے غلام کو کوڑوں سے پٹوا رہا ہے۔ اس غلام کا نام بلال ؓ تھا۔ ابدالآباد تک جو روشنی کا لہکتا ہوا استعارہ رہے گا۔ تیرہ سو برس کے بعد فاتح عالم سکندرِاعظم سے جس کا موازنہ کرتے ہوئے امّتی اقبالؔ کو یہ کہنا تھا ” رومی فنا ہوا ، حبشی کو دوام ہے“۔ بلالؓ کسی جرم کے مرتکب نہیں تھے۔ وہ سادہ اطوار، نجیب، محنتی اور فرماں بردار تھے۔ اگرچہ اللہ پر وہ ایمان لے آئے تھے۔ اگرچہ امیّہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی، لیکن ٹھیک اس وقت کوئی خطا سرزد نہ ہوئی تھی کہ آقا مشتعل ہوتا۔ اس لمحے تو عمارؓ معتوب تھے، اللہ اور اس کے آخری پیغمبرؐ پر ایمان لانے والے ایک اور غلام۔ عمارؓ پر کوڑے برساتے برساتے عرب سردار تھک گئے تو انہوں نے جواں سال سخت جان بلال ؓ کو طلب کیا۔ غلام سے کہا گیا کہ یہ لازمی فریضہ اب وہ انجام دیں۔ قریش کے اکابر غضب کا شکار تھے کہ عمارؓ ان کی بات کیوں نہیں مانتا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منحرف کیوں نہیں ہوجاتا؟ بلالؓ کے ہاتھ میں انہوں نے کوڑا تھما دیا لیکن پھر ایک عجب واقعہ ہوا۔ ایک بھی لفظ کہے بغیر بلالؓ نے کوڑا نیچے گرا دیا۔ جب اس نے محمدؐ اور ان کے رب کی اطاعت کرلی تو امیّہ کا غلام وہ کہاں رہا تھا۔ عرب سردار چیخ اٹھے: ایک غلام انکار کیسے کرسکتا ہے! لیکن وہ کرچکے تھے اور دائمی طور پر اپنے باطن میں غلام کی تقدیر ایک موڑ مڑ گئی تھی، ایک روشن راستے پر، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ عمارؓ کو بھول کر اب وہ بلال ؓ کے درپے تھے۔ بے رحمی سے انہوں نے اس کی پیٹھ پر کوڑے برسائے۔ اس پر کسی کو کیا تعجب ہوتا! صدیوں سے غلاموں کے ساتھ یہی ہوتا آیا تھا۔ چاہے یا نہ چاہے، آقا کا دین ہی غلام کا دین ہوتا ہے۔ یہ کیسے غلام تھے، پیروی سے جنہوں نے انکار کردیا تھا۔ گویا وہ آزاد تھے۔ آزاد وہ کیسے ہو گئے؟ ان کی قیمت چکائی گئی تھی۔ جس کی قیمت چکا دی جائے، اس کی مرضی کیا اور منشا کیا! وہ تو گویا اس پورے نظام کو ادھیڑنے پر تلے تھے، جو زمانوں سے چلا آتا تھا۔ یہ بغاوت گوارا کرلی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جمع جڑا یہ نظام پرزے پرزے ہوکر بکھر جائے۔ نہ کوئی آقا رہے، نہ کوئی اطاعت گزار۔ کوئی حکم دینے والا اور نہ کوئی بجا لانے والا۔ نہ کوئی چھت باقی رہے نہ کوئی فرش۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ ان مجبوروں اور محتاجوں کو یہ اختیار کس نے دیا تھا؟ تعجب کی بات یہ تھی کہ برستے کوڑوں کے بیچ، درماندگی، التجا اور فریاد کے بجائے بلالؓ ’’احد، احد‘‘ پکارتے رہے۔ پکارتے رہے، حتیٰ کہ ان کی سانسیں ٹوٹنے لگیں۔ آتشِ انتقام میں جلتے امیّہ کو اس پر ملال ہوا کہ غلام ؓ مرنے والا ہے، لیکن پھر کسی نے ٹٹول کر دیکھا اور کہا کہ ابھی وہ زندہ ہے، ابھی وہ سانس لے رہا ہے۔ اتنے میں ابوبکر ؓ آپہنچے، اور ابوبکرؓ کا آپہنچنا ایک عام سی بات نہیں تھی۔ ہر کہیں وہ قدم نہ رکھتے تھے۔ بے سبب وہ کہیں نہ جاتے تھے۔ ہمیشہ کے دھیمے لہجے میں ابوبکرؓ نے انہیں مطلع کیا کہ وہ مرتے ہوئے بلالؓ کے خریدار ہیں۔ چالاک امیّہ نے قیمت لگائی اور بہت زیادہ۔ قرینہ مکّہ میں یہ تھا کہ ایسے میں بھائو تائو کیا جاتا۔ بعض اوقات اتنی دیر تک کہ ماتھے سے پسینہ پھوٹنے لگتا۔ صرف عامیوں کا نہیں، شرفا کا طریق بھی یہی تھا۔ آج مگر ابوبکرؓ نے کچھ بھی نہ کہا اور سکّے گن دیے۔ چودہ سو برس کے بعد ایک مغربی شاعر نے لکھا: امیّہ خوش تھا کہ کئی گنا زیادہ قیمت اس نے وصول کرلی۔ بلالؓ کے رستے زخموں پر دل گرفتہ ہونے کے باوجود ابوبکرؓ اپنے دل میں شاد تھے کہ اپنے اور بلال ؓ کے لیے کیسی بڑی نعمت، کتنی ارزاں انہوں نے خرید لی۔ چند بے معنی سکّوں کے عوض، جو خال خال، کبھی کبھار ہی کسی اعلیٰ مقصد پہ صرف ہوتے ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے، صحرا کے آسمان پہ نگاہ کی اور پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کوئی ہوگا، جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں۔ فرمایا: ہاں، ابوبکرؓ ! وہ سب معتبر اور معزز تھے۔شاعر نے کہا تھا ” کوئی پھول بن گیا ہے، کوئی چاند، کوئی تارہ“
(ہارون رشید، روزنامہ92- 18 فروری 2020ء)
ملکی معیشت آئی ایم کے ہاتھوں یر غمال
عمران خان صاحب اپنے سیاسی جلسوں اور انتخابی مہمات میں آئی ایم ایف کے خلاف کھل کر بات کیا کرتے تھے اور انہوں نے احتساب کے نام پر ہی عوام کو اپنے ساتھ ملایا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ آئی ایم ایف کے حامی بن گئے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کو یرغمال بنالیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کی معیشت بدحال ہوچکی ہے، اس صورتِ حال میں عوام کا پارلیمانی نظام پر اعتبار متزلزل ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ دوسری جانب بھارت میں بھی معاشی اور سماجی مسائل کی وجہ سے نریندر مودی کی اپنی حکومت پر گرفت کمزور ہورہی ہے اور دہلی کے انتخابات میں عبرت ناک شکست کی وجہ سے مودی اپنی حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کرسکتا ہے محدود جنگ کا آپشن اُن میں سے ایک ہے۔ بھارت کی جانب سے اس آپشن پر غور کیا جارہا ہے، جبکہ امریکہ اور یورپی ممالک پاکستان کو بھرپور جواب دینے سے منع کرتے ہیں اور ”شملہ پلس‘‘ معاہدہ کروانے کی امید دلا رہے ہیں۔ تاہم محدود کشیدگی بھی پاکستان اور خطے کے امن کے لیے شدید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان انڈیا کو بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے، مگر پاکستان کے اتحادی ممالک ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جب ہم ایک کال پر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو آگے خود ہی سوچ لیں کہ ہم اپنے فیصلوں میں کس حد تک آزاد ہیں۔
(کنور دلشاداحمدخان، روزنامہ دنیا۔ 18فروری 2020ء)