جو کچھ آپ آج کرتے ہیں وہ عام طور سے آپ کے کل کو متاثر کرتا ہے
پروفیسر اطہر صدیقی
یہ کہانی سچی ہے یا نہیں، اس کی فکر کون کرے! جو ظاہر میں نظر آتا ہے اس سے بارہا ہم کتنے غلط اندازے لگا لیتے ہیں۔
ان کا نام مسز تھامسن تھا۔ اسکول کے پہلے ہی دن جب وہ پانچویں کلاس کے سامنے کھڑی تھیں تو انہوں نے بچوں سے ایک ’’جھوٹ‘‘ بولا اور استادوں کی طرح انہوں نے طالب علموں کی طرف دیکھا اور کہاکہ وہ ان سب کو برابری سے بے حد چاہتی ہیں۔ لیکن یہ ناممکن تھا، کیوں کہ سامنے ہی کی قطار میں ایک چھوٹا لڑکا ٹیڈی اسٹوڈارڈ اپنی سیٹ پر ڈھیر ہوا بیٹھا تھا۔
مسز تھامسن ٹیڈی کو پچھلے سال ہی سے دیکھ رہی تھیں اور انہوں نے یہ غور کیا تھا کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بالکل نہیں کھیلتا۔ اس کے کپڑے بھی گندے ہوتے تھے اور اسے مستقل غسل لینے کی ضرورت تھی، اور ٹیڈی کبھی کبھی پریشان کن بھی ہوجاتا تھا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ مسزتھامسن اُس کے ٹیسٹ کاغذات پر گہرے لال قلم سے غلطیوں کی نشاندہی کرتی تھیں اور بڑا بڑا کراس (X) لگا دیتی تھیں اور اوپر فیل لکھ دیتی تھیں۔
جس اسکول میں مسز تھامسن پڑھاتی تھیں، وہاں ان کے ذمے بچوں کے پچھلے ریکارڈ کا معائنہ بھی شامل تھا۔ انہوں نے ٹیڈی کا ریکارڈ سب سے بعد میں دیکھنا طے کیا۔ بہرحال جب انہوں نے اس کی فائل کو بغور دیکھا تو ان کو حیرانی ہوئی۔ ٹیڈی کی پہلی کلاس کی استاد نے لکھا تھا:
’’ٹیڈی ایک ذہین بچہ ہے جو خوش مزاج بھی ہے۔ وہ اپنا کام بہت قاعدے اور صفائی سے کرتا ہے اور اچھے آداب و رسوم کا مالک ہے۔ کلاس میں اس کی موجودگی باعثِ خوشی ہے‘‘۔
اس کی دوسری کلاس کی ٹیچر نے لکھا تھا:
’’ٹیڈی ایک بہت ہی عمدہ طالب علم ہے، کلاس کے سب بچے اسے پسند کرتے ہیں، لیکن وہ اپنی ماں کی مہلک بیماری سے بے حد پریشان رہتا ہے۔ گھر پر بھی اس کی زندگی ایک مستقل کشمکش اور پریشانی سے دوچار ہے‘‘۔
اس کی تیسری کلاس کی ٹیچر نے لکھا تھا:
’’اپنی ماں کی موت کا سانحہ اُس پر بہت شاق گزرا ہے۔ وہ اپنی سی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے والد گھر میں کسی طرح کی دلچسپی نہیں لیتے، اور یہ بات اُس کے کام پر اثرانداز ہوگی اگر کوئی مثبت قدم نہ اٹھایا گیا‘‘۔
ٹیڈی کی چوتھی کلاس کی ٹیچر نے لکھا:
’’ٹیڈی کا جی اوب گیا ہے، وہ اسکول میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ اس کے زیادہ دوست بھی نہیں ہیں اور بعض اوقات وہ کلاس میں سو جاتا ہے‘‘۔
اب مسز تھامسن کی سمجھ میں آچکا تھا کہ مسئلہ کیا تھا، اور انہیں اپنے رویّے پر شرم آئی، اور انہیں اُس وقت اور بھی شرمندگی محسوس ہوئی جب کلاس کے بچے سوائے ٹیڈی کے، ان کے لیے خوب صورت کاغذ میں لپٹے رنگین ربن سے بندھے ہوئے کرسمس کے تحفے لے کر آئے۔ اس کا تحفہ ایک بھاری، معمولی بادامی رنگ کے کاغذ میں بے ڈھنگے پن سے لپیٹا ہوا تھا۔ مسز تھامسن نے اور تحفے کھولنے سے پہلے ٹیڈی کا تحفہ کھولا۔
کچھ بچے ہنسنے لگے جب انہوں نے دیکھا کہ پیکٹ میں سے ایک نقلی ہیروں سے بنا بازو بند، جس کے کچھ پتھر بھی غائب تھے، اور ایک عدد آدھی استعمال شدہ پرفیوم کی شیشی برآمد ہوئی۔ مسز تھامسن نے بچوں کی ہنسی کو وہیں روک دیا جب انہوں نے خوشی کے اظہار کے ساتھ بازو بند کے خوب صورت ہونے کی تعریف کی اور اپنے ہاتھ کی کلائی پر پرفیوم بھی لگایا۔ ٹیڈی اسکول کے بعد وہاں یہ کہنے کے لیے اتنی دیر تک رکا رہا:۔
’’مسزتھامسن، آج آپ ایسے مہک رہی ہیں جیسے میری ماں مہکا کرتی تھیں‘‘۔
بچوں کے چلے جانے کے بعد وہ تقریباً ایک گھنٹے تک روتی رہیں۔ اُس دن کے بعد سے انہوں نے پڑھانا، لکھانا اور حساب پڑھانا چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔
اُس دن سے مسز تھامسن نے ٹیڈی کا خاص طور سے خیال کرنا شروع کیا۔ جیسے جیسے انہوں نے اُس کی طرف دھیان دیا اُس کا دماغ کھلنے لگا اور جتنی زیادہ انہوں نے ہمت افزائی کی، اتنی ہی تیزی سے وہ متاثر ہوتا گیا۔ سال کے آخر میں ٹیڈی کلاس کا سب سے بہترین طالب علم بن گیا، باوجود اس مفروضے کے کہ ٹیچر کی حیثیت سے وہ سب بچوں کو ایک سا پیار کرتی ہیں۔ ٹیڈی ان کے خاص شاگردوں میں سے ایک ’’چہیتا شاگرد‘‘ بن گیا۔
ایک سال بعد، انہیں اپنے دروازے کے نیچے ٹیڈی کا ایک نوٹ ملا جس پر لکھا تھا کہ اس کی پوری زندگی میں وہ سب سے اچھی استاد رہی تھیں۔ چھے سال گزر گئے، ٹیڈی کا ایک اور نوٹ انہیں ملا۔ اس نے لکھا تھا کہ اس نے ہائی اسکول ختم کرلیا تھا اور کلاس میں تیسرے نمبر پر آیا تھا۔ وہ اب بھی اُس کی تمام زندگی میں آج تک سب سے اچھی استاد رہی تھیں۔
اس کے چار سال بعد، انہیں ایک اور خط ملا، جس میں لکھا تھا کہ گوکہ وہ کبھی کبھی بہت سخت وقت سے گزرا تھا لیکن اس نے اسکول نہیں چھوڑا، اور اب جلد ہی وہ سب سے اچھے نمبروں سے ہائی اسکول پاس کرلے گا۔ اس نے مسز تھامسن کو یقین دلایا تھا کہ وہ اب بھی اُس کی تمام زندگی میں سب سے اچھی اور محبوب استاد رہی ہیں۔
اور پھر چار سال اور گزر گئے اور ایک اور خط آیا۔ اِس مرتبہ اُس نے وضاحت کی تھی کہ بی ایس سی کی ڈگری لینے کے بعد اُس کا ارادہ مزید اور آگے جانے کا ہوگیا تھا۔ خط میں بیان کیا گیا تھا کہ ابھی تک وہی اس کی سب سے اچھی اور محبوب استاد رہی تھیں۔ لیکن اب اس کا نام قدرے لمبا ہوگیا تھا اور خط میں دستخط کے نیچے لکھا تھا:
’’ڈاکٹر تھیوڈور ایف۔ اسٹوڈارڈ، ایم ڈی
کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ اس لیے کہ اس موسم بہار میں ایک اور خط آیا۔ ٹیڈی نے لکھا تھا کہ اسے ایک اچھی لڑکی مل گئی تھی جس سے وہ شادی کرنے جارہا تھا۔ اُس نے بتایا کہ چند سال پہلے اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ اگر مسز تھامسن راضی ہوں تو شادی کی تقریب میں اُس جگہ تشریف رکھیں جو عام طور سے دولہے کی ماں کے بیٹھنے کے لیے مختص ہوتی ہے۔
یقیناً مسز تھامسن وہیں بیٹھیں۔ اور یہی نہیں، اُس دن انہوں نے وہی بازو بند بھی پہنا، جس کے کئی پتھر غائب تھے، اور وہ پرفیوم بھی لگایا جس کی خوشبو سے ٹیڈی نے آخری بار کرسمس پر اپنی ماں کو یاد کیا تھا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور ڈاکٹر اسٹوڈرڈ نے مسز تھامسن کے کان میں زیرلب کہا:
’’آپ کا شکریہ مسز تھامسن، مجھ پر یقین رکھنے کے لیے بے حد شکریہ، مجھ پر اعتماد کے لیے اور یہ سمجھانے کے لیے کہ میں کچھ کرسکتا تھا‘‘۔
مسز تھامسن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور انہوں نے اُس کے کان میں کہا:
’’ٹیڈی، تم سب بالکل غلط سمجھے ہو۔ دراصل تم تھے جس نے مجھے یہ سکھایا کہ میں کیا کرسکتی تھی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ کیسے پڑھانا چاہیے، جب تک میں تم سے نہیں ملی تھی۔
یاد رکھیے: آپ کہیں بھی جائیں اور کچھ بھی کریں، آپ کو موقع میسر ہوگا کہ آپ کسی انسان کو متاثر کرسکیں یا اُس کی سوچ بدل سکیں۔ مہربانی سے مثبت طریقے سے کرنے کی کوشش کیجیے۔
……٭٭٭……
(نوٹ از مترجم) ’’آج سے ساٹھ برس پہلے میں جب ایک اسکول میں بیس برس کی عمر میں ساتویں درجے کا کلاس ٹیچر تھا تو میرے ایک طالب علم، ناظم حسین نے مجھے ایک مثبت طریقے سے متاثر کیا تھا، ناظم کلاس میں ہمیشہ اوّل آنے والا طالب علم تھا اور مجھ کو اُس نے اپنا رول ماڈل بنالیا تھا۔ اُس کو دیکھ کر میں نے طے کیا تھا کہ اگر دوبارہ مجھے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع ملا تو میں ناظم حسین کی طرح محنت کروں گا اور اوّل آنے کی کوشش کروں گا۔ بس دو سال بعد میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 1953ء کے ایم ایس سی، زولوجی اور سائنس فیکلٹی کے امتحانات میں پوری یونیورسٹی میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔ ایک طالب علم بھی ایک استاد کو انسپائر کرسکتا ہے‘‘۔
(بحوالہ خودنوشت سوانح: ’’میں کیا میری حیات کیا‘‘ 2008ء)
۔’’جو کچھ آپ آج کرتے ہیں وہ عام طور سے آپ کے کل کو متاثر کرتا ہے‘‘۔