انسان کے لیے سیدھا راستہ

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ’’کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مومن کنجوس ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ پھر پوچھا گیا کہ ’’مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں‘‘۔ (مالک، بیہقی)۔

سید طاہر رسول قادری
وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ
ترجمہ:’’اور اللہ ہی کے ذمے ہے سیدھا راستہ بتانا، جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔‘‘ (النحل:9) ۔
انسان کے فکر و عمل کے راستے ایک اور یکساں نہیں ہیں، اور اس اختلاف کا اندازہ لگانے کے لیے اگر ایک بہت بڑے ہال میں لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کو جمع کرکے یہ پوچھا جائے کہ انسان کی اصل ضرورت کیا ہے تو بھانت بھانت کے جوابات آئیں گے۔ کوئی کہے گا روٹی، کپڑا، مکان۔ کوئی کہے گا عزت، شہرت، دولت۔ کوئی کہے گا عیش وعشرت اور عافیت و آرام۔ کوئی کہے گا صلح و امن، اور کوئی کہے گا جنگ۔ کوئی کہے گا غلبہ و اقتدار، اور کوئی کہے گا کھلی آزادی۔ کوئی کہے گا جمہوریت، اور کوئی کہے گا بادشاہت اور آمریت۔ کم ہی لوگ ہوں گے جو کہیں گے کہ ان کو سیدھا راستہ اور اس کے لیے رہنمائی چاہیے۔
اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اگرچہ ’’سیدھا راستہ‘‘ انسان کی بنیادی ضرورت ہے، مگر وہ اپنی اس ضرورت کو پہچانتا ہے، اور نہ بطور خود پہچان سکتا ہے۔ اس لیے وہ جہل اور نادانستگی کی وجہ سے اپنی خواہشات کے مطابق زندگی کا ایک راستہ متعین کرلیتا ہے، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہوسکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہوسکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو۔ اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہوسکتا ہے جو صحیح نظریہ حیات پر مبنی ہو۔
اس صحیح نظریے اور صحیح راہِ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف اُن ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں، اور جو قدرت کے صلائے عام میں ملتی رہتی ہیں۔ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہوگئی۔
غور کرنے کی بات ہے کہ وہ اللہ رب العالمین جو ہماری چھوٹی بڑی، اعلیٰ ادنیٰ تمام ضرورتیں اور حاجتیں پوری کررہا ہے… پیٹ کے لیے خوراک اور طرح طرح کی اجناس پیدا کیں۔ سانس کے لیے ہوا، مرض کے لیے دوا، آرام کے لیے نیند، معاش کے لیے توانائی، سوچنے کے لیے عقل اور تڑپنے کے لیے دل دیا… وہ اللہ انسان کی غیر حیوانی ضرورت یعنی روحانیت، نجات، خدا شناسی اور صراط مستقیم جیسی اہم ترین اور بنیادی ضرورت پوری کرنے کا بندوبست نہ کرتا…!کیا ہے اور بلاشبہ کیا ہے۔ نبوت اور وحی کا سلسلہ کیا ہے؟ یہ تو وہی خدائی انتظام ہے، جو انسان کی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے کیا گیا ہے… جو اب آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہوگیا ہے۔
جب تک کوئی شخص اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اس آخری کتاب اور اس آخری پیغامِ الٰہی، احکاماتِ الٰہی اور ہدایاتِ الٰہی کو دل سے تسلیم نہیں کرے گا، اپنی بنیادی ضرورت کو نہ تو جان ہی سکے گا اور نہ پاسکے گا… اور جب تک نہ جانے گا اور نہ پائے گا، اُس وقت تک اس کی زندگی حیوانیت کے زمرے سے نہیں نکل سکے گی۔ وہ اپنی عقل و فکر سے پہلے بھی راستے نکالتا رہا ہے اور بھٹکتا رہا ہے، فساد مچاتا رہا ہے، اور تباہیوں کو دعوت دیتا رہا ہے… اور جب تک ایسا کرتا رہے گا، برباد ہوتا رہے گا۔
یہ تو ہے آیتِ الٰہی کے پہلے حصے کی تشریح کہ ”اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ دکھانا، جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں‘‘- دوسرے حصے میں دوسری اہم اور قابلِ غور وفکر بات یہ کہی گئی ہے کہ ’’اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا‘‘۔
یعنی اگرچہ یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس ذمہ داری کو جو نوعِ انسان کی رہنمائی کے لیے اس نے خود اپنے اوپر عائد کی ہے، اس طرح ادا کرتا کہ سارے انسانوں کو پیدائشی طور پر دوسری تمام بے اختیار مخلوقات کی مانند برسرِ ہدایت بنادیتا… لیکن یہ اس کی مشیت کا تقاضا نہ تھا۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت ایک ایسی ذی اختیار مخلوق کو وجود میں لانے کی متقاضی تھی جو اپنی پسند اور اپنے انتخاب سے صحیح اور غلط ہر طرح کے راستوں پر جانے کی آزادی رکھتی۔ اسی آزادی کے استعمال کے لیے اس کو عمل کے ذرائع دیے گئے۔ عقل و فکر کی صلاحیتیں دی گئیں۔ خواہش اور ارادے کی طاقتیں بخشی گئیں۔ اپنے اندر اور باہر کی بے شمار چیزوں پر تصرف کے اختیارات عطا کیے گئے۔ اور باطن و ظاہر میں ہر طرف بے شمار ایسے اسباب رکھ دیے گئے جو اس کے لیے ہدایت و ضلالت دونوں کے موجب بن سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے معنی ہوجاتا اگر وہ پیدائشی طور پر راست رو، مومن و مطیع بنادیا جاتا۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے تخلیقی وتکوینی جبر کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے جو اس کی حکیمانہ غرض کے خلاف ہے، رسالت کا طریقہ اختیار کیا۔ تاکہ انسان کی آزادی بھی برقرار رہے، اور اس کے امتحان کا منشا بھی پورا ہو، اور راہِ راست بھی معقول ترین طریقے سے اس کے سامنے پیش کردی جائے۔
(”52 دروسِ قرآن۔ انقلابی کتاب“۔ حصہ دوئم)