۔5اگست کے بعد پہلا تاریخی یوم یکجہتی کشمیر
وزیرعظم عمران خان کا آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے اہم خطاب
۔5 اگست 2019ء کے بعد رواں برس 5 فروری کو منایا جانے والا پہلا یوم یکجہتی کشمیر تھا۔ پانچ اگست کشمیر کی تاریخ کے بہت سے تاریک دنوں میں سے ایک دن ہے۔ اس دن بھارت کی انتہاپسند اور جنونی مودی حکومت نے طاقت کے نشے میں کشمیر کو اپنے تئیں ہضم اور ہڑپ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر تاریخ نے کشمیر کو انگریزی محاورے ’’ہاٹ پوٹیٹو‘‘ یعنی گرم آلو کے مصداق بنا ڈالا ہے۔ چھے ماہ ہوگئے ہیں یہ گرم آلو بھارت کا منہ جلا رہا ہے، بھارت اسے نگلنے کی سکت اور ہمت تو نہیں رکھتا مگر وہ منہ جلنے کی وجہ سے اُگلنے پر مجبور ہوگا۔ کشمیری عوام کا عزم و حوصلہ، مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کا جذبہ، بیرونی دنیا میں بسنے والے کشمیری اور پاکستانی عوام کی ثابت قدمی اور حکومتِ پاکستان کی کوششیں بالآخر بھارت کو اس مقام اور منزل پر لا چھوڑیں گی۔
پانچ اگست کے بعد جہاں بھارت نے کشمیر کے معاملے میں یک طرفہ فیصلہ لیا، وہیں آزادکشمیر کے موجودہ اسٹیٹس کے مستقبل کے حوالے سے بھی شکوک اور افواہوں کا ایک بھرپور سلسلہ چل پڑا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک قیاس آرائی یہ بھی گردش کرتی رہی کہ حکومتِ پاکستان نے آزادکشمیر پر بھارت کے کسی ممکنہ حملے کے پیش نظر اس خطے کے پاکستان کے صوبوں خیبر پختون خوا اور پنجاب میں انضمام کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری افواہ جو زیادہ مضبوط تھی اُس کا تعلق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے سے تھا۔ یہ افواہیں اس قدر زوردار اور تیقن کے جامے میں لپٹی ہوئی تھیں کہ وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر خان کو بے بسی کے ساتھ کہنا پڑا تھا کہ شاید میں آزادکشمیر کا آخری وزیراعظم ہوں۔ فاروق حیدر کے اس جملے نے عوامی حلقوں میں تجسس اور خوف کو بڑھا دیا تھا۔ بعد میں خود راجا فاروق حیدر نے اس معاملے کی تحقیق کی تو اندازہ ہوا کہ یہ سوشل میڈیا پر اُڑائی جانے والی درفنطنی ہے۔ اب دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھی اسلام آباد میں اس بات کی وضاحت کردی کہ آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی کوئی تجویز زیرغور نہیں۔
پانچ اگست کے بعد یہ تاثر بھی موجود ہے کہ حکومتِ پاکستان نے عملی طور پر مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ توڑنے کی کوشش نہ کی تو وادی میں کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔ مگر ’’مہربانوں‘‘ نے پانچ اگست سے بہت پہلے ہی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا، اور یہ زنجیریں توڑنا آسان نہیں۔
پانچ فروری کو یوم یکجہتی کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بہت اہم اعلان کیا۔ انہوں نے کشمیری قیادت کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ آپس میں مل بیٹھ کر لائحہ عمل وضع کریں پھر حکومتِ پاکستان کے ساتھ بیٹھیں تاکہ ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جا سکے جو اس بات کا جائزہ لیتی رہے کہ کشمیری اور پاکستانی قیادت مل کر کس طرح مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر میڈیا میں کشمیر کے حوالے سے موافق ماحول کی بات کی اور اس امکان سے فائدہ اُٹھانے کی بات بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی پوری کوشش تھی کہ پانچ اگست کے بعدآزادکشمیر کی طرف سے عسکری کارروائی ہو تاکہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں قتلِ عام کا موقع ملے اور دنیا کو یہ بتانے کا موقع ملے کہ کشمیر میں دہشت گردی ہورہی ہے۔ بھارت کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان کی اس تقریر کے چند نکات کی وجہ سے یہ دن روایتی نہیں رہا بلکہ اِس بار یوم یکجہتی اس لحاظ سے غیر روایتی اور تاریخی رہا کہ وزیراعظم پاکستان نے پہلی بار حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں کشمیریوں کو ایک فریق اور شریک کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ماضی میں کشمیری قیادت اکثر یہ گلہ کرتی رہی کہ حکومتِ پاکستان کشمیر پالیسی کی تشکیل میں ان سے مشاورت نہیں کرتی۔ اصولی طور پر یہ شکوہ بجا بھی ہے۔ جس خطے کے مستقبل اور معاملات پر بات ہورہی ہے اس کا ’’اِن پُٹ‘‘ نہ لینا اور اُسے کسی بھی سطح کے مشاورتی عمل میں شریک نہ کرنا ناانصافی ہوتا ہے۔ کشمیریوں کے جذبات و احساسات کو جس اچھے طریقے اور گہرائی کے ساتھ کشمیری نمائندہ سمجھ سکتا ہے اُس طرح کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی مخمصوں کے پردوں میں لپٹی رہی ہے۔ اس کا مجموعی طور پر کشمیر کے زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یہ وزارتِ خارجہ کے بندکمروں میں تشکیل پاتی اور فائلوں میں مقید ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہ شاید گزرے وقتوں میں تو گوارا تھا، اب مودی نے پانچ اگست کے بعد جنگ کو فیصلہ کن موڑ پر پہنچا دیا ہے۔ اب ہم ان مخمصوں، حماقتوں اور تجربات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اس وقت ہم ’’وقت کم اور مقابلہ سخت‘‘کی کیفیت سے دوچار ہیں، ایک ذرا نظر چُوکی تو دشمن کشمیری عوام کو دبوچ لے گا۔ ہمیں ہر لمحہ چوکس اور چوکنا رہنا ہے۔ دفتر خارجہ کی الماریوں میں سجی ماضی کی گرد آلود اور کرم خوردہ فائلوں میں دفن کشمیر پالیسی بدلتے ہوئے وقت اور حالات کا ساتھ نہیں دے سکی۔ اب ایک ہنگامی اور انقلابی کشمیر پالیسی کی ضرورت ہے جو نہ صرف سری نگر کے حالات بلکہ وہاں کے جذبات سے ہم آہنگ ہوں۔ وزیراعظم عمران خان نے اب گیند کشمیری قیادت کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اب پہلا امتحان کشمیری قیادت کا ہے کہ وہ بصیرت اور پردے کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خوشامد پسندانہ روش کو ترک کرتے ہوئے ٹھوس تجاویز تیار کریں۔ حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ ان تجاویز کو اپنی کشمیر پالیسی کے اندر سمودے، تاکہ عالمی منظر میںمسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پیدا ہونے والے امکانات اور مواقع سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جا سکے۔