امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن ، متاثر الاٹیز اور دیگر کا خطاب
محمد انور
بحریہ ٹائون کراچی کے لاکھوں الاٹیز کے اربوں روپے نہیں، بلکہ مجموعی طور پر 4 کھرب 44 ارب روپے پھنس گئے۔ اس رقم کے بدلے متاثرین کو اُن کے بُک کرائے گئے پلاٹ، بنگلے، فلیٹ اور دکانیں بھی مل سکیں گی یا نہیں اس بارے میں کسی کو یقین نہیں ہے۔ لاکھوں الاٹیز اس حوالے سے پریشان گھوم رہے ہیں۔ بحریہ ٹائون کی جانب سے ملنے والے تسلی بخش جواب سے انہیں اطمینان نہیں ہورہا ہے، کیونکہ ان کے سامنے سینکڑوں چیک بائونس ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ تاہم بحریہ ٹائون انتظامیہ کا اصرار ہے کہ انہیں ان کا حق ضرور ملے گا۔
بحریہ ٹائون کراچی کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کا مجموعی رقبہ 25 ہزار ایکڑ تھا، لیکن عدالت نے فیصلہ کیا کہ تقریباً 8 ہزار ایکڑ اراضی متنازع ہے اس لیے اس کی الاٹمنٹ منسوخ کی جاتی ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد بحریہ ٹائون انتظامیہ اور ملک ریاض کے قبضے میں صرف 17 ہزار 9 سو ایکڑ زمین رہ گئی ہے جس پر بحریہ ٹائون کا حق دعویٰ ہے۔
بحریہ ٹائون کراچی ہاؤسنگ اسکیم ملک میں نجی شعبے کی سب بڑی رہائشی اسکیم ہے۔ یہ اسکیم کراچی میں نیو کراچی کے بعد دوسرے نئے کراچی کے قیام کا ذریعہ بھی ہے، جس سے شہریوں کو رہائش کی جدید سہولیات ملنا ہیں۔
1460 اسکوائر میل رقبے پر پھیلے ہوئے کراچی کی تخلیق کولاچی کے نام سے 1729ء میں ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اس شہر کی آبادی محض چار لاکھ تھی۔ یہ برطانیہ دورِ حکومت میں سندھ کا ایک حصہ تھا مگر سندھیوں کی توجہ سے محروم تھا۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے لاکھوں مہاجروں نے اسے آباد کیا۔ کراچی کو ملک کا پہلا صنعتی اور تجارتی شہر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے، تاہم وقت کے ساتھ حکمرانوں نے اس پر ضرورت کے مطابق توجہ دینے کے بجائے اس کے وسائل پر قبضہ کرنا شروع کیا، نتیجے میں یہاں1993ء کے بعد 2019ء تک سرکاری شعبے کی کوئی رہائشی و تجارتی اسکیم وجود میں نہیں لائی جاسکی۔ 2019ء میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سہیل خان کی ذاتی دلچسپی اور کوشش سے تیسر ٹائون ہائوسنگ اسکیم کے نام سے پلاٹوں کی بڑی اسکیم کا اعلان کیا گیا۔ جبکہ اس سے قبل کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 1987ء میں ہاکس بے اسکیم تو متعارف کرائی لیکن حکمرانوں کی عدم توجہ سے اس علاقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے ہاکس بے ہائوسنگ اسکیم برسوں گزرنے کے باوجود آج تک آباد نہیں ہوسکی۔ کراچی کی ترقی اور یہاں کے لوگوں کے مسائل کے سدباب اور ضروریات پوری کرنے کے لیے کم و بیش 10 لاکھ رہائشی پلاٹ، مکانات اور فلیٹوں کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ جبکہ ساتھ ہی کراچی کے آباد حصے کو ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی، نکاسیِ آب کی سہولیات کے ساتھ صفائی ستھرائی، شہریوں کے لیے سستی اور تیز رفتار روڈ اور ریل ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ ان ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکومت سے جڑے وزرا اور دیگر شخصیات کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے بجائے ان مسائل کے حل پر توجہ دینی ہوگی۔ لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی اپنی ترجیحات تبدیل کرچکی ہیں جس کی وجہ سے یومیہ بنیادوں پر مختلف مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ کھیل کے میدان ہی کیا، سیف سٹی منصوبے پر بھی توجہ نہیں دی جارہی۔
ان حالات میں نجی شعبے کی بحریہ ٹاؤن اسکیم بچے ہوئے کراچی کی ترقی اور آبادکاری کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے قانونی معاملات اور حکمرانوں کی عدم توجہ یا پھر ذاتی مفادات کی وجہ سے قوانین پر بروقت عمل نہ ہونے سے ان دنوں اس اسکیم کا تقریباً 8 ہزار ایکڑ رقبہ اسکیم سے باہر ہوگیا ہے، جبکہ باقی 18 ہزار ایکڑ پر جو ترقیاتی کام چل رہے ہیں وہ بلڈر کے مقدمات اور مالی مشکلات کی وجہ سے سست روی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بحریہ ٹائون کے لاکھوں الاٹیز اپنے پلاٹ اور مکان وغیرہ کے حصول کے لیے شدید پریشان ہیں۔ تاہم انہیں عدالتِ عظمیٰ پر یقین ہے کہ وہ تمام متاثرین کو ان کا حق دلانے کے لیے جلد سے جلد کارروائی کرتے ہوئے کوئی آسان راستہ نکالے گی۔
جماعت اسلامی کراچی نے بحریہ ٹائون کے متاثرین کی مدد اور رہنمائی کے لیے غیر معمولی اور سیاسی روایت سے ہٹ کر جدوجہد کی ہے اور کررہی ہے، جس کے نتیجے میں بحریہ ٹائون کے ملک ریاض ادارہ نورِحق پہنچ کر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کے ذریعے یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ متاثرین کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔ جبکہ حافظ نعیم الرحمان نے بھی متاثرین کو یقین دلایا ہے کہ جب تک بحریہ ٹائون کے تمام الاٹیز کو اُن کا حق نہیں مل جاتا، جماعت اسلامی اُن کے ساتھ ہوگی۔