معروف تھنک ٹینک ’’لاہور سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ‘‘ کے زیر اہتمام اہم مکالمہ
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ہم سیاسی، سفارتی اور عسکری محاذ پر مسئلہ کشمیر کے پُرامن حل کے حامی ہیں، اور اسی بنیاد پر کوشش کررہے ہیں کہ دنیا کشمیر کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے حل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس وقت مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر ایک بنیادی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بالخصوص عالمی میڈیا، حقوق انسانی کے ادارے، علمی اور فکری محاذ پر کام کرنے والے عالمی، علاقائی وقومی ادارے… سبھی اس بنیادی نکتے پر متفق ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی پالیسیاں انسانی حقوق کے خلاف اور بنیادی حقوق کی معطلی سمیت سفاکی پر مبنی ہیں۔
اس وقت کشمیر کے مسئلے پر دنیا کی جانب سے بھارت پر جو دبائو پڑا ہے اور اس کی مختلف شکلیں مختلف سطح پر نظر آرہی ہیں، اس کے باوجود بھارت اپنی ڈھٹائی پر قائم ہے۔ بھارت پر یہ دبائو محض پاکستان یا عالمی برادری کی جانب سے ہی نہیں پڑ رہا، بلکہ خود بھارت کی داخلی سیاست اور مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارت نواز لوگوں میں بھی مودی کی پالیسی پر سخت ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت، میڈیا اور اہلِ دانش نے جس شدت سے گزشتہ ایک برس اور بالخصوص بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں آئین کی شق 370 اور 35-Aکے خاتمے کے بعد جو ردعمل دیا ہے وہ خاصا وزن رکھتا ہے، اوربالخصوص وزیراعظم عمران خان نے سیاسی اور سفارتی محاذ پر خود کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سفیر کے طور پر پیش کرکے دنیا کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی ہے۔
پاکستان میں اہل ِدانش اور سیاسی حلقوں میں یہ بنیادی نکتہ زیر بحث ہے کہ یہ جو دبائو بھارت پر بڑھ رہا ہے، اوراس کے باوجود مسئلہ کشمیر کا حل تو کجا وہاں 190دن سے زیادہ جاری کرفیو کا ہی خاتمہ نہیں ہوسکا، کیسے بھارت اور بالخصوص اِس وقت وہاں کی جنونی ہندو حکومت کو مجبور کیا جاسکے گا کہ وہ نہ صرف کرفیو کا خاتمہ کرے بلکہ وہاں موجود لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور ان کے سیاسی حق کو تسلیم کرے۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی اور سفارتی محاذ پر مستقبل کے تناظر میں کیا حکمت عملی ہونی چاہیے کہ عالمی برادری اور مؤثر قوتیں مسئلے کے حل میں پیش رفت کریں!
لاہور سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ (ایل سی پی آر)ایک معروف تھنک ٹینک ہے جس کے سربراہ معروف سفارت کار، سابق سیکریٹری خارجہ اور مختلف ملکوں میں بطور سفیر خدمات انجام دینے والے دانشور شمشاد احمد خان ہیں، اور ان کے معاون معروف میڈیا دانشور اور لکھاری ڈاکٹر مجاہد منصوری ہیں۔ یہ تھنک ٹینک اس سے قبل پاکستان بھارت تعلقات، پاک افغان بحران، اور ملک کی داخلی، علاقائی اور خارجہ پالیسی کے تناظر میں مختلف اہلِ دانش کے درمیان مکالمے کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔ اسی طرز کا ایک اہم مکالمہ 5 فروری کو ’’محصور کشمیر: عالمی چیلنج اور پاکستان کاکردار‘‘ کے موضوع پر کیا گیا۔ اس مکالمے کی دو باتیں اہم تھیں۔ (1) اس مکالمے کی صدارت خالی کرسی نے کی، اور اسے مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے ساتھ جوڑا گیا۔ (2) بقول شمشاد احمد خان: اس مکالمے کا مقصد ماضی اور حال کے بجائے مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنا ہے۔ ان کے بقول وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر کے بعد جو مثبت ماحول کشمیر کے معاملے پر دنیا میں ابھرا ہم اُس سے اپنے داخلی مسائل کی وجہ سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکے، اور اس پر ہمیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس مکالمے کے اہم مقررین میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، مشال ملک، عالمی امور کے ماہر قانون دان احمر بلال صوفی، سابق سفیر شوکت عمر، سابق سفیر اقبال احمد خان، سابق سفیر شاہد ملک، جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال، قیوم نظامی، سلمان غنی، حبیب اکرم، خالد شیر دل اور راقم شامل تھے۔ یہ ایک بھرپور مکالمہ تھا، اس میں جو تجاویز سامنے لائی گئیں وہ بھی اہمیت رکھتی ہیں، خاص طور پر خورشید محمود قصوری اور احمر بلال صوفی نے بہت عمد ہ گفتگو کی۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول پاکستان کی وزارتِ خارجہ اہم اور قابل افراد پر مشتمل ہے اور اس نے جس انداز سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سیاست میں زندہ رکھا وہ قابلِ قدر ہے۔ پاکستان کا کشمیر پر مقدمہ کسی بھی صورت میں کمزور نہیں، اور یہ سفارتی محاذ پر خود ایک بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود مسئلہ کشمیر کو عالمی سیاست میں نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ بھارت اور بالخصوص مودی اورآر ایس ایس کے باہمی گٹھ جوڑ پر مبنی کشمیر پالیسی کو بھی دنیا میں اجاگر کرکے اپنے لیے اہم سفارتی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ خورشید محمود قصوری کے بقول مودی کی کشمیر پالیسی نے ہمیں سفارتی محاذ پر آگے بڑھنے کے لیے اہم راستہ دیا ہے تاکہ ہم دنیا کو باور کروا سکیں کہ مودی کی ہندوتوا کی پالیسی نہ صرف کشمیر، دنیا، بلکہ خود بھارت کی داخلی سلامتی اور استحکام کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
اس مکالمے کی اہم بات یہ تھی کہ مسئلہ کشمیر کو محض کشمیر تک محدود رکھ کر گفتگو نہیں کی گئی بلکہ اسے پاک بھارت تعلقات اور خطے کی سیاست سے جوڑ کر دیکھا گیا۔ راقم نے بھی اسی نکتے پر زور دیا کہ ہمیں سفارتی محاذ پر جنگ لڑنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنا ہوگی، اور خاص طور پر پاکستان کو جو سفارتی مواقع حالیہ دنوں میں بھارت کی کشمیر پالیسی کے تناظر میں ملے ہیں اور عالمی رائے عامہ نے بھارت مخالف، اورکشمیریوں کی جدوجہد کی قبولیت یا انسانی حقوق کی پامالی پر جو ردعمل دیا ہے اس سے ہماری سیاسی و عسکری قیادت، اہلِ دانش اور رائے عامہ بنانے والوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے، اور اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو یہ عملی طور پر ہماری اپنی ناکامی ہوگی۔
معروف قانون دان احمر بلال صوفی نے درست کہا کہ ہمیں اپنے سیاسی و سفارتی محاذ پر مؤثر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے قانونی پہلوئوں کو بھی اہمیت دینی ہوگی، اور ایک جنگ ہمیں عالمی سطح پر قانون کے محاذ پر لڑنی ہوگی۔ اُن کے بقول قانونی محاذ پر بھی ہم بھارت کی کشمیر پالیسی پر اُسے شدید دبائو میں لاسکتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر مجاہد منصوری: ہمیں اپنی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے اب دنیا میں جدید ٹیکنالوجی اور ابلاغ کے میدان کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی جہت درکار ہے۔ اسی طرح بھارت میں موجود وہ قوتیں جو مودی کی کشمیر پالیسی پر شدید تنقید کررہی ہیں، ہمیں اپنی پالیسی میں ان کو بنیاد بناکر بھی عالمی رائے عامہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنا ہوگا۔
بنیادی طور پر ہمیں مسئلہ کشمیر کے حل میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے اب بہت سی نئی جہتوں کو تلاش کرنا ہوگا اور اپنی روایتی پالیسیوں کے مقابلے میں بھارت کو دبائو میں لانے کے لیے کچھ نیا کرنا ہوگا۔ اوّل ہمیں سفارت کاری کے محاذ پر موجودہ اور سابق سفارت کاروں کی ایک ایسی ٹیم تیارکرنا ہوگی جسے حکومت اور وزارتِ خارجہ کا تعاون حاصل ہو، اور وہ دنیا میں رائے عامہ بیدار کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے، اس ٹیم کو ایسے ممالک میں بھیجا جائے جو اس مسئلے کی حسیاست کو سمجھتے ہیں۔ دوئم، ہمیں ایسا تھنک ٹینک بنانا ہوگا جو کشمیر کے تناظر میں موجود بھارتی بیانیے کو دنیا بھر میں چیلنج کرے اور ایک متبادل بیانیہ پیش کرے جو مسئلہ کشمیر کے حل میں معاون ثابت ہو۔ سوئم، ہمیں کشمیر پالیسی کے تناظر میں اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، اور ایسی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا جو ہمیں داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر تقسیم کرنے کا باعث بنے۔ چہارم، ہمیںمیڈیا کے محاذ پر ایک نئی حکمت ِعملی درکار ہے، اوریہ محاذ محض داخلی سطح تک محدود نہ رہے بلکہ ہمیں خود کو عالمی میڈیا سے بھی جوڑنا ہوگا۔