جان لاک …… لبرل ازم کا پیغمبر

غزالی فاروقی/ ترجمہ: ڈاکٹر حفصہ صدیقی
جان لاک مغرب کی علمی تاریخ کا سب سے مؤثر اسکالر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کو لبرل ازم کا بانی بھی کہا جاتا ہے، یا کم از کم فلسفیانہ لبرل ازم کا بانی تو کہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ برٹرینڈ رسل اپنی کتاب ’’ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی‘‘ میں لکھتا ہے: ’’لبرل فلسفے پر سب سے پہلا اور جامع تبصرہ لاک کے ہاں ملتا ہے‘‘۔ 1632ء میں پیدا ہونے والے اس فلسفی اور طبیب نے موجودہ مغربی معاشرے کی بنیادیں تشکیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے اس مضمون میں ہم جان لاک کے مرکزی موضوع جس میں نظریۂ علم (Theory of Knowledge)، تصور‘ اخلاقیات (Concept of Morality)، برداشت (Tolerance) اور غلامی (Slavery) پر تبصرہ کریں گے۔ کیوں کہ لاک کے پیش کردہ ہر خیال اور تصور پر تبصرہ کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہ ہوگا۔
نظریۂ علم یا Epistemology جان لاک کا ایک اہم اور دلچسپ موضوع ہے جس پر اُس نے بہت کچھ لکھا ہے۔ جان لاک بنیادی طور پر تجربیت پسند آدمی تھا۔ اس نظریے کے مطابق ہمارا علم دراصل حواس سے حاصل کردہ علم ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کوئی بھی نظریہ فطری یعنی (Innate) نہیں ہوتا۔ اپنے مشہور مضمون An Essay Concerning Human Understanding میں وہ رقم طراز ہے:
’’جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ذہن کو کیسا ہونا چاہیے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ایک کورا کاغذ جس میں کوئی کردار نہیں ہوتے، کوئی خیال نہیں ہوتا۔ تو پھر یہ مکمل کیسے ہو گا؟ جب کہ اس میں خیالات اور انسانی تصورات کا ایک وسیع ذخیرہ ہوتا ہے، خیالات کی نہ ختم ہونے والی اقسام کی آماجگاہ… یہ سب کہاں سے آتے ہیں، اس کو بیان کرنے کے لیے میں ایک لفظ کا استعمال کروں گا: ’’تجربہ‘‘ (Experience) ۔ تجربہ ہمارے تمام علم کی بنیاد ہے جس سے وہ خود کو چلاتا ہے‘‘۔ اپنے ’’تجربیت‘‘ کے تصور کے برخلاف لاک اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ مابعدالطبیعاتی اشیا کا تجربیت سے ایک مسلسل ٹکرائو ہے۔ رسل ہمیں لاک کے بارے میں بتاتا ہے کہ بعض معاملات میں لاک نے اپنے پیش روئوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس میں ہمارا اپنا وجود، خدا کا وجود، ریاضی کے حقائق شامل ہیں کہ ان کو تجربیت کے اندر کس طرح شامل کیا جاسکتا ہے، جبکہ ریاضی خود ایک مابعدالطبیعاتی اور غیر تجربی زبان ہے۔ اسی طرح خدا کے وجود کو بھی تجرباتی شواہد کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا وغیرہ۔ اس جگہ پر ہم لاک کے خیال میں ایک واضح بے ربطی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
اپنے ایک اور اہم مضمون A letter concerning human understanding میں لاک رقم طراز ہے:
’’وحی الٰہی (Divine Revelation) کی گواہی اعلیٰ ترین سچ ہے‘‘۔ ایک اور جگہ اپنی کتاب کے باب 19 میں وہ یہ کہتا ہوا پایا گیا ہے: ’’وحی (Revelation) کو عقل سے جانچنا ضروری ہے‘‘۔ یہاں پہلے اور دوسرے بیان کے درمیان تضاد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے پہلے بیان میں اس نے “Base Testimony” کو اعلیٰ ترین سچ قرار دیا ہے، جب کہ دوسرے بیان میں اس نے عقل کو وحیِ الٰہی سے مقدم رکھا ہے۔ چنانچہ عقل مقدم ہی رہتی ہے، وحی کیوں کہ مافوق الفطرت ہے لہٰذا اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
’’اخلاقیات‘‘ کے معاملے میں لاک کی پوزیشن مزید کمزور نظر آتی ہے۔ پوری تاریخ میں لاک اخلاقیات کو کمزوریوں اور غلطیوں سے بھرپور قرار دیتا ہے، اس حوالے سے Cambridge Companion of Locke کے باب ہشتم میں جیروم لی شین ونڈ کہتا ہے کہ لاک کی ناکامیاں اس کی کامیابیوں کی طرح ہی نمایاں ہیں۔ اس حوالے سے اخلاقیات سے متعلق اس کے خیالات اہم ہیں۔ اُس نے اس موضوع پر کم لکھا ہے تاہم جتنا بھی لکھا ہے اس نے اُس کے قارئین کو دشواری ہی میں مبتلا کیا ہے۔ لاک کی تجربیت ایک واہمہ یا مغالطہ ہی ثابت ہوئی ہے بالخصوص جب وہ خدامرکز تصورات یا Theology کو اپنی اخلاقیات کی بنیاد ثابت کرتا ہے، کیوں کہ وہ اخلاقی مسائل کے لیے مذہبی متن (text) کا حوالہ دیتا ہے۔ An essay concerning human understanding میں لکھتا ہے: ’’میں یہ سوچنے کی ہمت کرسکتا ہوں کہ اخلاقیات اظہار کی صلاحیت رکھتی ہے، اسی طرح ریاضی بھی۔ چنانچہ وہ چیزیں جن کے لیے اخلاقیات کے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ان کی جامع حقیقی روح یقینی طور پر دریافت کی جا چکی ہے جو کہ مکمل علم پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اخلاقیات کا ریاضی کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔ یہ نکتہ میں پہلے ہی اٹھا چکا ہوں کہ ریاضی تجربی علم نہیں ہے بلکہ یہ ایک مابعدالطبیعاتی زبان ہے، چنانچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ریاضی حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود رکھتی ہے، چنانچہ یہ کہنا فضول ہے کہ کوئی چیز اتنی حقیقی ہے جتنی ریاضی کے سچ۔ یہاں ایک بار پھر لاک کی تجربیت مشکوک ٹھیرتی ہے۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ یہاں پر بھی اس کی Theological morality کا نظریہ، لذت پسندی کے نظریے کے ساتھ نظر آتا ہے۔
لاک کی لذت پسندی کی اخلاقیات، اخلاقیات کے روایتی نظریے سے متصادم ہے، کیوں کہ اس کا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی شے لازمی خیر اور لازمی شر نہیں ہے، بلکہ جو چیز آپ کو لطف دے وہ خیر (Good) ہے، اور جو چیز کسی فرد یا گروہ کو تکلیف دے وہ شر (Bad) ہے۔ اپنی کتاب میں جان لاک کا دعویٰ ہے کہ وہ چیز جس کی ہمیں تلاش ہے وہ سوائے خوشی اور تکلیف کے کچھ نہیں ہے، یا وہ مواقع جو ہمیں خوشی یا تکلیف دیتے ہیں۔ لاک کے دلائل کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دلائل کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے اور ان کو ’’دلیل‘‘ یا عقل کی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک مفروضہ ہے، اور مفروضہ معاشرے یا افراد کی خوشحالی کو یقینی نہیں بناتا، یا یوں کہہ لیں یقین دہانی نہیں کرواتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ لذت پسندی کا نظریہ مسلمان معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ مسلمان کی تو تعریف ہی یہ ہے کہ ’’وہ شخص جو اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کردے‘‘۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ ’’اور جان لو کہ وہ صرف اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، اور ان میں سے زیادہ گمراہ وہ ہیں جو اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ بے شک اللہ گمراہ لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ (القصص 28:50)
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواہشات کی تکمیل خوشی کا باعث ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر خواہش نیک ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی جنسی خواہش کی تسکین کے لیے کسی عورت پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ عورت کی رضامندی کے حق پر ڈاکا ہے۔ اسی طرح اگر ایک گروہ صرف اس مقصد کے لیے کسی دوسرے گروہ پر جنگ مسلط کرتا ہے کہ وہ ان کی زمین پر قبضہ کرلے، ان کو غلامی میں لے لے اور ان پر حکمرانی کرے، تو یہ دوسرے گروہ کی پُرمسرت زندگی کے حق پر ڈاکا ہے اور ان کو ایک اذیت بھری زندگی میں دھکیلنے کا طریقہ ہے، جیسا کہ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا: ’’ہوسکتا ہے کہ ایک اذیت پسند آدمی تکلیف کی خواہش کرے، لیکن یہ بھی اس کے لیے خواہش کی تکمیل کا باعث بنے گی، تاہم یہ ایک اس کے برعکس احساس کے ساتھ ملتی رہے گی۔ خیر اور شر یا برائی اور بھلائی کے روایتی تصورات کی اپنی وجودیاتی یعنی Onto Logicalبنیادیں ہیں، تاہم لبرل اخلاقیات کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے۔
لاک کے دوستوں اور معتقدین نے اس سے بارہا درخواست کی کہ وہ اپنے کام کو اپنے تصورِ اخلاق کے نام کردے، تاہم اس نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔
موجودہ دور میں ’’برداشت‘‘ کو لبرل ازم کے ایک بنیادی اصول کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور ایسا لبرل فلاسفی کی بنیادی معلومات کے بغیر کیا جارہا ہے، اور لوگوں نے خود ہی اپنا تصورِ برداشت تخلیق کرلیا ہے۔ لیکن جب ہم لبرل ازم کے اسکالرز کے ہاں تصورِ برداشت کو پڑھتے ہیں تو یہ ہمیں اس کے عام تصور سے بہت مختلف نظر آتا ہے۔ اس کو اس کی سادہ ترین شکل میں دیکھنے کے لیے ہم جان لاک کے ’’برداشت‘‘ کے طریقہ کار کا مطالعہ کریں گے جس سے ہمیں لبرل ازم کے فلسفیوں کے اصل تصورِ برداشت کا علم ہوگا۔ مثال کے طور پر لاک نے اپنی تحریر A Letter Concerning Tolerance میں مسلمانوں کے حوالے سے لکھا ہے: ’’چرچ کو اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ کوئی مجسٹریٹ اس کو برداشت کرے جو کہ اس کے اوپر اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس کے اندر داخل ہوتے ہیں حقیقت میں وہ خود کو ایک دوسرے بادشاہ کی رعیت میں دے دیتے ہیں۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ وہ صرف اپنے مذہب کے حوالے سے محمدن (مسلمان) ہو اور باقی تمام معاملات کے لیے وہ عیسائی مجسٹریٹ کی تابعداری کرے، یعنی وہ ایک وقت میں قسطنطنیہ کے مفتی کا بھی فرماں بردار ہو جو کہ عثمانی حکومت کا مکمل تابعدار ہے، اور وہ اپنے مذہب کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لاک یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کی مذہبی شناخت ان کی قومی شناخت کے ساتھ چلتی ہے، اور اگر ان کو یہ احساس ہوجائے کہ ان کی مذہبی شناخت ان کی قومی شناخت سے متصادم ہے تو وہ اپنی مذہبی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ آخر میں وہ ملحدین کے بارے میں لکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کیا جانا چاہیے جو خدا کے وجود کے انکاری ہیں۔ وعدے، قسمیں، اور عہد نامے جو انسانی معاشرے کو جوڑ کے رکھتے ہیں ان کا ملحد پر کوئی دبائو نہیں ہوتا۔
مغربی طاقتوں کی تاریخ نوآبادیات، نسل کُشی، جبر اور غلامی سے عبارت ہے۔ جان لاک جوکہ لبرل فلسفی ہونے کے ناتے جمہوریت اور مساوات کی بات کرتا ہے، اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جبر اور غلامی کی مخالفت کرے گا، لیکن اس نے غلامی کی نظریاتی طور پر ہی مخالفت کی ہے (بہت واضح انداز میں نہیں)۔ “Two treatises of government” میں وہ لکھتا ہے کہ ’’غلامی کسی بھی انسان کی ایک انتہائی بدترین اور بدنصیبی کی حالت ہے‘‘۔ یا اسی کتاب کے باب سوم کے مضمون نمبر2 میں لکھتا ہے: ’’جو شخص مجھے غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے وہ مجھ سے جنگ کا آغاز کرتا ہے‘‘۔ اور باب سوم میں “Of Slavery” میں رقم طراز ہے: ’’کسی بھی انسان کی فطری آزادی یہ ہے کہ وہ زمین پر موجود ہر طاقت کی غلامی سے آزاد ہو، اور نہ وہ کسی انسانی قانونی حاکمیت یا ارادے کا پابند ہو، وہ بس اپنی اس حکمرانی کے لیے قدرت کے قوانین کا پابند ہو‘‘۔ لاک کے یہ بیانات اس کی منافقت کی عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ اس نے خود غلاموں کی تجارت میں سرمایہ کاری کی ہوئی تھی اور 1669ء میں “Fundamental constitutions of carolina 1669” کا مسودہ تیار کیا تھا جس کے مضمون نمبر110 میں واضح طور پر لکھا ہے: ’’کیرولینا کے ہر آزاد باشندے کو اپنے نیگرو غلام کی رائے اور مذہب کے اوپر مکمل اختیار حاصل ہے‘‘۔ بنیادی آئین (Fundamental constitutions) کے حوالے سے والٹیئر جوکہ فرانسیسی روشن خیال (Enlightenment) دانشور تھا، تحریر کرتا ہے: ’’تصویر کے دوسرے رخ پر بھی نظر دوڑائیں، کیرولینا کو دیکھیں جس کا قانون ساز دانش ور لاک تھا‘‘۔
یہ حقیقت انتہائی تکلیف دہ ہے کہ مغربی دانشور جن خیالات کا پرچار کرتے ہیں خود ان پر کس حد تک عمل پیرا ہیں! لاک نے “Two treatises of government” میں فرد کی آزادی کی مکمل حمایت کی ہے: ’’تمام انسان اس دنیا میں آزاد آئے ہیں اور فرد کو دبانا یا اس پر جبر کرنا حالتِ جنگ ہے‘‘۔ تاہم لاک نے خود غلاموں کی تجارت میں سرمایہ کاری کی۔ یہ تضاد صرف لاک کے ہاں نہیں پایا جاتا بلکہ یہ مغرب کے نظریے اور عمل کا تضادہے۔
اس مضمون میں ہم نے جان لاک کے نظریات اور خیالات میں موجود تضادات کو ثابت کیا ہے۔ یہ تضادات مغربی معاشرے میں اس قدر گہرائی کے ساتھ پیوست ہیں کہ ان کو چیلنج کرنا یا ان کا متبادل تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے۔