حکومت اور ق لیگ میں مفاہمت ؟

تحریک انصاف کی حکومت اور اس کی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے مابین ایک بار پھر معاملات طے پا گئے ہیں، دو طرفہ مذاکرات میں غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں اور تمام مسائل کا حل باہم افہام و تفہیم سے نکال لیا گیا ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی نے مسلم لیگ (ق) سے مذاکرات سے قبل ایوانِ وزیراعلیٰ پنجاب 8 کلب روڈ میں اپنا اجلاس منعقد کیا جس میں بات چیت کے لیے دائرۂ کار، حکمت عملی اور لائحہ عمل طے کیا گیا، اور فیصلہ کیا گیا کہ قاف لیگ کو ہر صورت ساتھ لے کر چلنا ہے، فریقین میں تعلقاتِ کار کو بہتر بنانا اور اتحاد کو مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔ گویا یہ طے کیا گیا کہ فریقِ ثانی جو مطالبات بھی پیش کرے، جو تقاضے بھی اُس کی جانب سے کیے جائیں انہیں تسلیم کرتے ہوئے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ ملاقات کے لیے دونوں جماعتوں کے دفاتر کے بجائے اسپیکر پنجاب اسمبلی، مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما چودھری پرویزالٰہی کی چودھری ظہور الٰہی روڈ پر واقع ذاتی رہائش گاہ کا انتخاب کیا گیا۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کی قیادت میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار، وفاقی وزراء اسد عمر اور شفقت محمود پر مشتمل بھاری بھرکم حکومتی وفد چودھری پرویزالٰہی کی رہائش گاہ پہنچا تو انہوں نے اپنے بیٹے مونس الٰہی اور اپنے نہایت قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھی سینیٹر کامل علی آغا کے ہمراہ اپنی روایتی خاندانی گرم جوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ تاہم مذاکرات شروع ہوئے تو قاف لیگ کی نمائندگی کرنے والوں میں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور چودھری خاندان کی اگلی نسل کے ارکانِ قومی اسمبلی چودھری شافع حسین اور حسین الٰہی بھی شامل تھے۔
ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے مذاکرات کا دور مکمل ہوا تو حسبِ روایت فریقین نے اکٹھے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کی۔ قاف لیگ کے مرکزی رہنما اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے اس موقع پر بتایا کہ ملاقات میں کچھ نئی چیزیں زیر بحث آئیں، کوئی ایسا ایشو نہیں جو حل طلب ہو، حکومت کو درپیش چیلنجز کو مل جل کر مشاورت سے حل کرنے پر اتفاق ہوا ہے، عمران خان کی قیادت میں جو تبدیلی آئی ہے وہ نچلی سطح پر بھی جانی چاہیے۔ کیوں نہیں گئی، اس کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ ملاقات میں اتحادیوں کے مسائل کے حوالے سے کھل کر بات ہوئی ہے، ہمیں عمران خان کی نیت اور قیادت پر کوئی شک نہیں، ہم سب مل کر کام کریں گے، ہم چاہتے ہیں کہ اسی طرح اگلے الیکشن تک اتحاد چلے اور مل کر اگلا الیکشن لڑیں۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر پرویز خٹک نے پاکستان مسلم لیگ (ق) سے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں مگر لوگوں نے ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، جس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی، ہم نے مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کرلیا ہے۔ کوئی اتحادی حکومت کو چھوڑ کر نہیں جارہا، ایم کیو ایم اور نہ ہی مسلم لیگ (ق)۔ آئندہ مل جل کر فیصلے کریں گے اور رابطے میں رہیں گے۔
ملاقات میں گلے شکوے بھی ہوئے اور میٹھے میٹھے لہجے میں ان کے ازالے کی یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں۔ حکومتی وفد کے ارکان کی جانب سے اگرچہ صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے سے گریز اور احتیاط سے کام لیا گیا، تاہم فریقین کے ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی وفد نے اپنے اہم اتحادیوں کے تمام تحفظات دور کرنے کے لیے آئندہ تمام معاملات میں مشاورت سے فیصلے کرنے اور روزمرہ امور میں اقدامات سے قبل اعتماد میں لینے پر اتفاق کیا۔ قاف لیگ کے وزراء کی جانب سے اختیارات کی شکایت کے ازالے کے لیے یقین دلایا گیا کہ وہ اپنی وزارتوں میں مکمل بااختیار ہوں گے، مرضی کے افسروں کا تقرر کرسکیں گے، تاہم کسی بھی قابلِ اعتراض افسر کی تقرری پر تحریک انصاف اعتراض کرسکے گی، جس پر قاف لیگ متعلقہ وزارت میں تعیناتی کے لیے نئے افسر کا نام دینے کی پابند ہوگی۔ قاف لیگ اپنے متعلقہ اضلاع میں عوامی مسائل کے حل کے لیے بااختیار ہوگی۔ تعیناتیوں، مختلف کمیٹیوں اور حکومتی اداروں میں نمائندگی کے لیے قاف لیگ کی تجاویز پر عمل کیا جائے گا۔ مرکز اور پنجاب میں پالیسی سازی، روزمرہ امور، امن و امان، مہنگائی، کرپشن کے خلاف اقدامات اور دوسرے اہم فیصلوں کے لیے مسلم لیگ (ق) کو مشاورت میں شریک کیا جائے گا۔ وفاق کے معاملات پر پرویز خٹک اور اسد عمر عمل کروائیں گے، جب کہ پنجاب کے معاملات پر وزیراعلیٰ اور گورنر پنجاب عمل درآمد کروانے کے پابند ہوں گے۔ قاف لیگ کے ارکان کو ترقیاتی فنڈز جلد جاری کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا، اور اس ضمن میں آئندہ ایک دو روز میں اسلام آباد میں طارق بشیر چیمہ اور مونس الٰہی کی وفاقی وزیر اسد عمر سے ملاقات بھی طے پائی جس میں فنڈز کے اجراء کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔
فریقین نے اگرچہ مذاکرات کی کامیابی پر اطمینان اور آئندہ انتخابات میں بھی مل کر حصہ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، تاہم فی الحال یہ سوال سیاسی مبصرین کے نزدیک بہت اہم ہے کہ کیا پیر کو ہونے والی مفاہمت اور مصالحت دیرپا ہوسکے گی؟ سیاسی مبصرین کی رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مطالبات کو تسلیم کرلینا اور ہر اختلافی مسئلے پر اتفاق کرلینا نہایت آسان ہے، مگر جب طے شدہ امور پر عمل درآمد کا مرحلہ آئے گا تو حکومت کے لیے ماضی کی طرح آئندہ بھی طے شدہ معاملات کو عملی شکل دینے میں خاصی مشکلات درپیش ہوں گی، خاص طور پر فنڈز کی فراہمی اور قاف لیگ کے حلقوں میں ان کی مرضی کے افسروں کی تقرری کے معاملات کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ ترقیاتی فنڈز کے مسئلے پر تو خود تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی بھی خاصے پریشان اور برہم ہیں۔ اُن کو نظرانداز کرکے کیا صرف قاف لیگ کے ارکان کو فنڈز فراہم کیے جا سکیں گے؟ اسی طرح قاف لیگ کے وزراء اور ارکانِ اسمبلی کے حلقوں میں اُن کی مرضی کے افسران کی تعیناتی بھی آسان نہ ہوگی، خصوصاً ان حالات میں جب کہ باخبر حلقوں کا یہ دعویٰ ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کے افسران کی تقرری کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان نے تمام اختیارات وزیراعلیٰ سے لے کر چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو دے دیئے ہیں۔ اس لیے سیاسی مبصرین کی رائے میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے مابین اعلان شدہ مفاہمت دراصل فریقین کے مابین دو ناراضیوں کا درمیانی وقفہ ہے، اور جلد فریقین ایک بار پھر اسی قسم کے مذاکرات کے ایک نئے دور میں مصروف نظر آئیں گے۔