دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی تفصیلات
بلوچستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں سے لڑتے ہوئے غالباً دو عشرے ہونے کو ہیں۔ اس عرصے میں مسلح گروہوں نے تباہی مچائے رکھی۔ سرکاری اور نجی املاک سمیت بہت جانی نقصان ہوا۔ پولیس، لیویز، سیکورٹی کے دوسرے اداروں کے اہلکار، سول ملازمین، مزدور، محنت کش، صحافی، سیاست دان، عوامی نمائندے فنا کے گھاٹ اتارے گئے۔ اب حالات قدرے بہتر ہیں تاہم وقتاً فوقتاًکوئی نہ کوئی واقعہ پیش آہی جاتا ہے، جیسے کہ 10جنوری کو کوئٹہ میں سیٹلائٹ ٹائون سے متصل اسحاق آباد میں مسجد کے اندر نمازِ مغرب کے دوران خودکش دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 15نمازی جاں بحق ہوئے جن میں بلوچستان پولیس کے ڈی ایس پی امان اللہ بھی شامل تھے۔ اطلاعات ہیں کہ خودکش حملہ آور کی شناخت ہوچکی ہے۔ متعلقہ ادارے اس ضمن میں بہت حد تک تحقیقات کرچکے ہیں۔ اس واقعے کی ذمہ داری داعش نامی گروہ نے قبول کی تھی۔ پیش ازیں7 جنوری کو کوئٹہ کے میکانگی روڈ پر دھماکے میں دو افراد جاں بحق ہوئے تھے۔28 جنوری2020ء کو بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی تفصیلات ذرائع ابلاغ کو دیں جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کامیابیاں ملی ہیں۔ ان کے مطابق27 جنوری2020ء کو پولیس کے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور حساس اداروں نے ضلع پشین میں سرخاب کے مقام پر آپریشن کرکے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ دو دہشت گردوں کو ہلاک کیا جن کی شناخت پیر سازالدین اور ذاکر اللہ عرف گڈو کے نام سے ہوئی۔ خودکش جیکٹ، اسلحہ، دستی بم وغیرہ برآمد کیے گئے۔ یہ افراد پشین میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے، مثلاً انہوں نے 6 جنوری 2019ء کو پشین میں موٹر سائیکل میں نصب بم کے ذریعے لیویز کی گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں دو لیویز اہلکاروں سمیت 12افراد زخمی ہوگئے تھے۔ 2 اگست2019ء کو ملیزئی پل کے قریب ایف سی کے کانوائے پر بم حملہ کرکے پانچ اہلکار زخمی کیے۔ 14 ستمبر 2019ء کو پشین بائی پاس پر اسسٹنٹ کمشنر برشور کی گاڑی پر موٹر سائیکل میں نصب بم کا دھماکا کرایا جس کے نتیجے میں لیویز کے تین اہلکار جاں بحق ہوئے۔28 نومبر 2019ء کو پشین کے اندر باچا خان چوک پر دیسی ساختہ بم نصب کیا جسے بروقت ناکارہ بنایا گیا۔ اسی گروہ نے اُس وقت کے صوبائی وزیر سردار مصطفی خان ترین کے بیٹے اسد ترین کو اغوا کرکے خاندان سے تاوان وصول کیا تھا۔ سال2019ء میں ضلع لورالائی کے اندر بھی دہشت گردی کے کئی سنگین واقعات پیش آئے۔ وزیر داخلہ ضیاء لانگو نے بتایا کہ یکم جنوری2019ء کو لورالائی کی فوجی چھائونی میں خودکش حملہ آوروں نے داخل ہونے کی کوشش کی، اس دوران مقابلے میں آرمی کے چار جوان جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد29 جنوری کو ڈی آئی جی پولیس کے دفتر کے احاطے میں خودکش حملہ آور گھسے، اُس وقت وہاں بھرتی کے لیے ٹیسٹ ہورہے تھے اور پولیس میں بھرتی کے خواہش مند نوجوان بڑی تعداد میں موجود تھے۔ دہشت گردوں کو روکا گیا، البتہ 9 افراد جاں بحق اور22 زخمی ہوگئے۔ دہشت گرد بھی مارے گئے۔ 26 جنوری کو پولیس لائن لورالائی میں خودکش حملہ ہوا۔ ایک شخص جاں بحق اور تین افراد زخمی ہوئے۔11جنوری کو بی آر سی روڈ پر ایف سی اہلکار کا ہدفی قتل ہوا۔ یہاں ایک اہلکار زخمی بھی ہوا۔ 16 فروری کو لورالائی کے بازار میں ایف سی کے دو اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ 25 مارچ2019ء کو سنجاوی میں لیویز چیک پوسٹ پر حملے میں 6 اہلکار موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ان تمام واقعات کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان قبول کرتی رہی۔ چناں چہ کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ اور حساس اداروں نے26 مارچ2019ء کو لورالائی میں آپریشن کیا۔ 3 دہشت گردوں نے خود کو خودکش جیکٹ کے ذریعے دھماکا کرکے ہلاک کرلیا۔ تینوں کا تعلق ٹی ٹی پی سے تھا۔18اکتوبر2019ء کو لورالائی میں کوہار ڈیم کے مقام پر کارروائی کے دوران دو دہشت گرد مارے گئے۔ ڈی این اے رپورٹ سے ایک کی شناخت ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر وہاب زخپیل کے نام سے ہوئی۔ یہ شخص لورالائی کے اندر تمام واقعات کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
کوئٹہ کے اندر2019ء میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ 12 اپریل کو ہزار گنجی سبزی منڈی میں دھماکے میں18افراد جان سے گئے،37 زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ 30 مئی کو میکانگی روڈ پر واقع امام بارگاہ ناصر العزاء پر خودکش حملہ ناکام ہوا۔ اس کے علاوہ 6موٹر سائیکل بم دھماکوں میں 11افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ کے صرف دو واقعات رپورٹ ہوئے۔ دو دیسی ساختہ بم دھماکوں میں4 افراد جاں بحق اور220 زخمی ہوئے۔ ہزار گنجی خودکش دھماکے میں خودکش حملہ آور کی شناخت اسامہ ولد بشیر احمد کے نام سے ہوئی جو ضلع نوشکی سے تعلق رکھتا تھا۔ 4 ستمبر2019ء کو نورزئی ٹائون مشرقی بائی پاس میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں کالعدم داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد سمیع اللہ، ابراہیم، عامر، عبدالرزاق اور ایک خاتون آمنہ ہلاک کردی گئی۔ اس گروہ کا ایک دہشت گرد جمیل احمد یکم جون2019ء کو سریاب روڈ پر پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اسی گروہ نے متذکرہ امام بارگاہ ناصر العزاء پر خودکش حملے کی کوشش کی۔ جیکٹ پھٹ نہ سکی، اور وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے زخمی حملہ آور کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے تین کارندے بخت محمد، احمد اللہ اور عبدالرحیم 5 نومبر کو بارودی مواد، دستی بموں اور کلاشنکوف کے ساتھ کوئٹہ کے نواحی علاقے اغبرگ کے راستے کوئٹہ شہر میں داخل ہونے سے قبل ہی اس علاقے میں مارے گئے۔ ضلع نصیرآباد میں سال 2019ء میں تین بار ریلوے لائن کو دھماکا کرکے نقصان پہنچایا گیا۔ موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکوں کے تین واقعات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور48 زخمی ہوئے۔ نصیرآباد میں کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے کالعدم بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) کے دو اہم کمانڈروں گل میر بگٹی اور مبارک عرف طوطا بگٹی کو حراست میں لے لیا۔ یہ کمانڈر مزدور چوک اور صحبت پور چوک پر ہونے والے دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ بلوچ ری پبلکن گارڈ (بی آر جی) کے دہشت گرد دوست بگٹی اور فضل الرحمان بھی گرفتار کرلیے گئے۔ ایک دہشت گرد ریلوے لائن کے ساتھ بم نصب کررہا تھا کہ فورسز نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور بم کو ناکارہ بنادیا۔
جیسے سطورِ بالا میں ذکر ہوا کہ کوئٹہ میں اسحاق آباد مسجد بم دھماکے کے خودکش حملہ آور کی شناخت بقول صوبائی وزیر داخلہ کے ہوچکی ہے، جس کے دوسرے ساتھیوں کے متعلق مصدقہ معلومات حاصل کی جاچکی ہیں۔ اسی طرح20 جنوری2020ء کو کوئٹہ کے کلی الماس میں موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ حکمت اللہ اور کفایت اللہ مارے گئے۔ ان دو افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔