مائیکل ہیملٹن مورگن/ ترجمہ: ناصر فاروق
صدی بھی نہ بیتی تھی کہ رازی سا عبقری جانشین منظر پر ابھرا، بلکہ وہ رازی سے بھی بہت آگے تک گیا۔ وہ ابن سینا کے نام سے معروف ہوا، اطباء کا شہزادہ پکارا گیا، اور چار صدیوں تک یورپیوں نے اُسے تاریخ طب کا عظیم ترین دماغ قرار دیا، مگر ساتھ ساتھ اُسے ابن سینا سے لاطینی ’’Avicenna‘‘ میں ڈھال دیا۔
وہ طویل عرصہ فارس کے دور دراز علاقوں میں شاہی لشکر کا ہم سفر رہا۔ سال 1020ء اور آس پاس کا زمانہ گھوڑے کی پیٹھ پر ہی گزرا۔ جنگ کے میدانوں میں زخمیوں کی ہنگامی طبی مدد ابن سینا کی ذمے داری تھی۔ وہ جنگجو نہ تھا، بس نسخہ تجویز کرتا اور نقل نویس ساتھ ساتھ لکھتا جاتا تھا۔ اُس کا زادِ راہ بس یہی دوائیں، علاج، اور حکمت تھی۔ ابن سینا نے اسی طرح علم الادویہ اور حکمت و فلسفہ پر تین سو کتابیں، مقالے، اور مضامین لکھے۔ وہ اس قدر انتھک تحقیق اور محنت کررہا تھا کہ جیسے گویا موت سر پر کھڑی ہو۔ وہ تحصیلِ علم اور تدریس پر ہرلمحہ وقف کردینا چاہتا تھا۔
ابن سینا بچپن ہی سے بے حد ذہین اور عمدہ حافظ تھا، دس سال کی عمر میں اُس نے قرآن حکیم حفظ کرلیا تھا، اور تیرہ سال کی عمر سے علم طب کی تحصیل میں لگ گیا تھا، اور سولہ سال کی عمر میں مریضوں کا علاج کررہا تھا۔ ابھی جب کہ وہ کم سن لڑکا ہی تھا، اُس کے علاج سے سامانیان شاہی خاندان کے حکمران نوح ابن منصورکی جان بچی۔ جب پوچھا گیا کیا انعام چاہیے؟ تو بخارا کے شاہی کتب خانے تک رسائی مانگی۔ وہ کتابوں کی صحبت میں رہنا چاہتا تھا، کاغذ کی خوشبو اور مطالعے کے ماحول سے اُسے عشق تھا۔ نادر مخطوطات سے بھرے خانوں کے اردگرد گردش میں رہا کرتا اور علم کی پیاس بجھاتا۔ وہ علم کی سچی محبت میں مبتلا تھا۔
وہ شاید اپنی ساری زندگی وہیں بسر کردیتا، امراء کا علاج کرتا، اور طب کے طلبہ کی تدریس میں مصروف رہتا، امراء میں قہقے بلند کرتا، اور طنز ومزاح سے بھرپور تفریحی زندگی گزارتا۔ مگر ہوا یوں کہ نوجوانی کی اُن راتوں میں اُس نے ارسطو کا نظریہ مابعد الطبیعات پڑھنا شروع کیا۔ ایک بار، دو بار یا دس بار نہیں بلکہ چالیس بار پڑھا، یہاں تک کہ سر چکرانے لگا، مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ قرآن کی طرح اُس نے ارسطو کا یہ نظریہ بھی حرف بہ حرف یاد کرلیا تھا۔
آخر اس یونانی کا کیا مطلب ہے؟ ابن سینا کے پاس جواب نہ تھا، یہاں تک کہ ایک دن جب وہ ایک بازار سے گزر رہا تھا، ایک بدحال شخص کو ایک چھوٹی سی کتاب تین درہم میں بیچتے دیکھا اورجھٹ پٹ خرید لی۔ یہ ارسطو پر الفارابی کی شرح تھی۔ اس چھوٹی سی کتاب سے اُس کی گتھی سلجھ گئی، ارسطو کی بات سمجھ میں آگئی، اللہ کا شکر ادا کیا ’’یارب العالمین شکر تیرا جو تُو نے مجھے سلامتی اور علم دوستی کی زندگی بخشی‘‘۔
سن 999ء کی آمد کے ساتھ ہی ابن سینا کی زندگی میں بھونچال آگیا، معاملات تتربتر ہونے لگے، ترکوں کے ایک ٹولے نے سامانیان حکمرانوں کا تخت الٹ دیا۔ ان ہی دنوں ابن سینا کے والد کا انتقال ہوا۔ سب سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ ترک ٹولے نے شاہی کتب خانے کو آگ لگادی۔ سارے مخطوطات، علم و دانش جل کر راکھ ہوگئی۔ کس قدر ظالم تھے وہ لوگ؟ آخر اس دانش کدہ کی تباہی کا کیا محرک ہوسکتا تھا؟
آنے والے سال ابن سینا کی روپوشی کے تھے، بھیس بدل بدل کر دیس دیس بھٹکنے کے تھے، انتہائی کسمپرسی کے تھے۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح پرانی زندگی کی کوئی سادہ سی صورت ہی لوٹ آئے، چھوٹی سے ملازمت اور کتب خانے کی سہولت میسر آجائے۔ غزنی کے سلطان محمود نے اُسے ملازمت کی پیشکش کی، مگر ابن سینا نے انکار کردیا، وہ البیرونی کی طرح سخت گیر پابندیوں میں جکڑا رہنا نہیں چاہتا تھا۔ ایک دو اور پیشکشیں آئیں مگر شایانِ شان نہ تھیں۔ آخرکار ایک دوست نے بحر قزوین کے قریب چھوٹا سا مکان اُسے خرید کر دیا تاکہ تدریس کا سلسلہ قائم کرسکے، اور یوں آمدنی کی کچھ سبیل بن سکے۔ مگر کیا یہ اس عظیم دماغ کا مناسب مصرف تھا؟ کہ دور دراز چھوٹے سے فارسی قصبے کے ایک مکان میں مقامی دیہاتیوں کو منطق، علم فلکیات، اور علم الادویہ پرتعلیم دے؟ وہ بحر قزوین کے پار دور تک دیکھتا اور سوچتا کہ دوسرے کنارے سے آگے جانا چاہیے، شاید تقدیر یاوری کرے!
وہ سامانیان کے شاہی کتب خانے کی سی زندگی کا شدید آرزومند تھا۔ وہ شاہی سرپرستی کی تلاش میں رے اور ہمدان کے امراء کی جانب گیا، ایک مختصر وقفہ آیا کہ جب ہمدان کے امیر نے اُسے اپنا وزیر مقرر کیا۔ مگر جیسا کہ ہر عبقری کی دشمنیاں ہر جگہ نکل آتی ہیں، ابن سینا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ امیر کے بہت سے درباری اُس کی ذہانت سے خائف ہوگئے۔ ابن سینا کے نظریات نے نہ صرف اُسے دربار بلکہ شہر کے لیے بھی اجنبی بنادیا۔ وہ کتنا ہی دانشور سہی، اچھا سیاست دان نہ تھا۔ جنھوں نے اُس کی مخالفت کی، اُس نے انھیں احمق کہا۔ وہ نظریاتی اختلافات کی حساسیت کو خاطر میں نہ لایا۔ یوں رنجشیں بڑھتی گئیں اور دلوں میں پلتی رہیں۔ وہ ملازمت جو اُس کے خواب پورے کرسکتی تھی، وہ ہاتھوں سے جاتی رہی۔ سپہ سالار جو بہ مشکل ہی اُس کی کوئی منطق سمجھ پاتے، اتنا ہی سمجھ پاتے کہ تضحیک کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انھوں نے ابن سینا کے خلاف محاذ کھڑا کردیا اور امیر کو چار و ناچار اُسے زنداں کی نذرکرنا پڑا۔ جب امیر سخت بیمار پڑا تو ابن سینا کی رہائی ممکن ہوئی، اُس نے امیر کا کامیاب علاج کیا، اورکچھ بحالی کی صورت بنی۔ تاہم اب چھوٹی چھوٹی دشمنیاں بہت ہوچکی تھیں اور ان کے ساتھ چلنا تکلیف دہ تھا۔ اُس نے اصفہان کے حکمرانوں سے خفیہ رابطے شروع کیے، اور بہتر سرپرستی کی امید باندھی۔ جب امیر ہمدان کو اس کی بھنک پڑی توغصے میں آگیا، اور اسی موقع پر ابن سینا راتوں رات بھیس بدل کر شہر چھوڑ گیا۔ اصفہان میں ابن سینا نے اپنی زندگی کے آخری بارہ سال گزارے۔ یہ خوبصورت، تہذیب یافتہ، اور مالدار شہر تھا۔ یہاں دانشوروں کی کئی بیٹھکیں آباد تھیں، عمدہ سرائے خانے تھے، باغات اور دیگر اہم مقامات تھے۔ یہ بخارا سے بھی بڑھ کر تہذیب یافتہ شہر تھا۔
شاہی طبیب ہونے کا مطلب جنگوں میں امیرکے شانہ بہ شانہ رہنا تھا، اور یہ جنگیں مسلسل تھیں۔ یہ وہ قیمت تھی جو وہ بخوشی ادا کرنے پر تیار تھا۔ وہ یہ حقیقت سمجھتا تھا کہ اب یہی مستقل اور محفوظ ٹھکانہ ہوسکتا تھا، جسے کسی صورت گنوایا نہ جاسکتا تھا۔ انتشار اور اتار چڑھاؤ کے ان تیس برسوں میں ابن سینا اس فیصلے پرپہنچا تھا کہ اب اُسے انسانی جسم اور حیات کے رازوں کی تلاش میں بہت اونچی اڑان بھرنی ہوگی، اپنی تمام قوتوں کو مجتمع، منظم، اور مرتکز کرنا ہوگا۔ وہ جانتا تھا کہ بہ یک وقت دو دنیاؤں میں بقاء کی کامیاب تگ ودو کرنی ہوگی، جسمانی اور علمی ضروریات یکساں طور پر پوری کرنی ہوں گی۔
ریاضی، علمِ فلکیات، علمِ معدنیات، اور علمِ ارضیات سے فلسفہ تک ابن سینا نے سیکڑوں کتابیں، مقالے، اور مضامین لکھے۔ کتاب معدنیات De Mineralibus خاصا اہم کام ثابت ہوا۔ علمِ ارضیات اور علمِ معدنیات پر اُس کے کام کو دورِ جدید تک ارسطو سے منسوب کیا گیا (یہ واضح طور پر اسلامی علوم کے سرقہ کی یورپی مہم کا ہی شاخسانہ ہے، مسلم حکماء کے نام اور بنیادی علمی کام کا یہ سرقہ تاریخ کی سب سے بڑی علمی چوری ہے، جس پرانتہائی جامع اور بے لاگ تحقیق کی ضرورت ہے۔ مترجم)۔ ابن سینا کا اہم ترین کام علم الادویہ پر ہے۔ اُس کی اہم ترین تصنیفات میں ’’القانون فی الطب‘‘ اور’’کتاب الشفاء‘‘ سرفہرست ہیں۔ یہ کتابیں بہت بڑے پیمانے پر نہ صرف مسلم دنیا میں ترجمہ ہوئیں اور زیر بحث آئیں بلکہ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں بھی یکساں طور پر مقبول ہوئیں۔ علم الادویہ پر الرازی اور ابن سینا کے کاموں نے یورپ میں دواسازی کی بنیاد ہموار کی۔ علم طب اور علم الادویہ پران دو حضرات کی تحقیق کسی بھی دوسرے محقق سے بہت زیادہ وقیع اور بنیادی اہمیت کی حامل تھیں۔
’’القانون فی الطب‘‘ میں ابن سینا نے لکھا: ’’دوا انسانی جسم کا ان معنی میں مطالعہ کرتی ہے کہ آیا معلوم کیا جاسکے کہ کس طرح صحت بگڑی۔ کسی بھی شے کا علم اسباب کی تفہیم میں ہے، کیونکہ تمام اشیاء اسباب سے ہیں، جب تک تم اسباب تک نہیں پہنچتے، مرض کی تشخیص نہیں کرتے، علاج ممکن نہیں۔ مرض کی تشخیص سبب کی آگاہی سے مشروط ہے۔ لہٰذا علم الادویہ میں ہمیں لازماً یہ جاننا چاہیے کہ نہ صرف مرض کے اسباب کیا ہیں بلکہ بحالیِ صحت کی وجوہات بھی کون سی ہیں۔ کبھی کبھی یہ اسباب واضح ہوتے ہیں مگر بعض اوقات پوشیدہ رہتے ہیں جنھیں علامات کے باقاعدہ مطالعے ہی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ بات مستحکم ہوتی ہے کہ کوئی بھی علم محفوظ اور پائیدار نہیں کہ جب تک امراض کے اسباب اور علاج میں درپیش لوازم سے جامع آگاہی حاصل نہ ہوجائے۔ اسباب کی چار واضح اقسام ہیں: مادہ جسم، تاثیری قوت، روایتی، اور فیصلہ کن۔‘‘
یہ اسباب دراصل ارسطو نے پیش کیے تھے مگر انھیں پہلی بار ابن سینا نے تجربے اور تحقیق کی مدد سے منطقی طور پر ثابت کیا اور دواسازی میں کارگر بنایا۔ ابن سینا نے انھیں دوا سازی میں باقاعدہ عملی نظام علاج کے طور پر پیش کیا۔ ابن سینا وہ پہلا طبیب تھا جس نے انسانی جسم کی مکمل مادی تفہیم کا شعور ممکن بنایا اور اُسے عملاً ثابت کیا، بالکل اس طرح جیسے تمام اشیاء کے اسباب کی تحقیق میں کیا جاتا ہے۔ یہ وہ طبی دانش تھی جو ابن سینا کی جانب سے مستقبل کی دنیا پر عظیم احسان تھا۔
اس وسیع علمِ طب کے علاوہ ابن سینا نے سات سو سے زائد ادویہ تیار کیں۔ اُس نے پانی اور مٹی سے پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ اُس نے دق کے بارے میں انکشاف کیا کہ ایک متعدی مرض ہے، تاہم وہ اُس کی منتقلی کے طریقہ کار کو سمجھنے میں غلطی کرگیا، اُس کا خیال تھا کہ یہ دھول مٹی کے ذریعے پھیلتا ہے نہ کہ ہوا کے ذریعے سے۔ متوازی طور پر قاہرہ میں ابن الہیثم بھی طبی تحقیق کررہا تھا، مگر یہ علم تشریح الابدان (anatomical)اورطبی تناظر میں زیادہ تفصیلی تھا۔ ابن سینا نے انسانی آنکھ پر گہری تحقیق کی، خاص طور پر کورنیا، ریٹینا، اوربصارت کے عمل کا بغور مطالعہ کیا۔ اُس نے تصدیق کی کہ اعصابی نظام تمام جسمانی حرکات وسکنات میں پیغام رسانی کا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اُس نے اپنی کتاب میں ہڈیوں کے مختلف فریکچرز اور اُن کے علاج پر تفصیلی گفتگو کی۔ ابن سینا نے سب سے پہلے گردن توڑ بخار کی وضاحت کی اور اُس کی پیچیدگیوں کا جائزہ پیش کیا۔ اُس نے ’’ریبیز‘‘، چھاتی کے سرطان، اور ٹیومرزکے اسباب پر تحقیق کی اور انھیں واضح کیا۔ اُس نے کئی اقسام کے زہر اور اُن کے تریاق پر معلومات مہیا کیں۔ ابن سینا نے عملی علاج کے وہ طریقے وضع کیے اور وہ ہدایات اور شرائط لاگو کیں جو نو صدیوں تک شعبۂ طب میں سند کے طورپر رائج رہیں۔
دق کے بارے میں اُس کے نظریات کو یورپیوں نے چار سو سال تک تسلیم نہ کیا، مگر آخرکار وہی درست ثابت ہوئے۔ سگمنڈ فرائیڈ، کارل جنگ، اور نارمن کزنز نے اس کی تصدیق کی۔ انھوں نے ابن سینا کے ان نظریات کو بھی قبول کیا کہ ذہن اور جسم کا تعلق بیماری میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جذبات اور ذہانت بھی اس حوالے سے ذریعہ بن جاتے ہیں۔ پراگندہ خیالات اور روح کی بے چینی بھی کئی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ الرازی نے انھیں ’’اخلاقی بیماریوں‘‘ کا عنوان دیا ہے، تاہم ابن سینا نے اسے دونوں جسمانی اور اخلاقی عوامل کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ابن سینا نے علم طب پر جو کچھ لکھا، وہ معمولی فرق، زبان اور سیاق وسباق کی تبدیلی کے ساتھ ازسرنو دنیا کو متعارف کروایا گیا (علمی سرقہ ہے، مترجم)۔
گو کہ ابن سینا آخر کے ان برسوں میں نہ کوئی اچھا مکان بنا سکا، نہ کوئی مستحکم ملازمت کرسکا، مگر اصفہان میں اپنے سرپرست امیر کی وجہ سے امن وتحفظ میں تحقیق کا وقیع کام کرسکا۔ وہ متواتر جنگوں میں شامل رہا تھا۔ مگر یہ ہتھیار نہیں تھے جنھوں نے ابن سینا کوموت کی دہلیز پر پہنچایا، بلکہ انتہائی ذہنی تناؤ سے ہونے والی گیسٹرو، فوڈ پوائزننگ، اور معدہ کا مرض تھا جس نے اُسے بستر مرگ تک پہنچایا۔ وہ اپنا کامیاب علاج نہ کرپایا، اور اپنے آبائی شہر ہمدان لے جانے کی خواہش کی، جس پر عمل ہوا۔ ہمدان میں تاریخ ساز عبقری کی موت واقع ہوئی اور وہیں تدفین کی گئی۔ ابو علی سینا کی عمر انتقال کے وقت 57 برس تھی۔
(جاری ہے)