عراق کی تقسیم کا امریکی منصوبہ

خودمختار کردستان کی شکل میں ترکی کے لیے مستقل دردِسر کا اہتمام کیا جارہا ہے

عراق گزشتہ دو دہائیوں سے شدید مشکلات میں ہے۔ بیرونی حملے اور اندرونی خانہ جنگی نے ہنستے بستے ملک کو برباد کردیا ہے۔ لاکھوں بیرل تیل برآمد کرنے والے ملک میں اب 12 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے اور صحت افزا غذا نہ ملنے کے سبب 10 فیصد بچے معذوری کے خطرات سے دوچار ہیں۔
ترکی، سعودی عرب، ایران، کویت، اردن اور شام کے پڑوس میں واقع مغربی ایشیا کے 4 لاکھ 37 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل اس ملک کی آبادی 3 کروڑ 85 لاکھ سے کچھ کم ہے۔ ابوالانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سرزمین میں جنم لیا، یہی حضرت نوحؑ کا بھی وطن تھا اور کشتیِ نوح جس جودی پہاڑ پر ٹھیری وہ بھی یہیں واقع ہے۔
دریائے دجلہ و فرات کے درمیان واقع یہ زرخیر علاقہ دنیا کی تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ اس علاقے کا قدیم نام ’اروک‘ تھا، اور خیال ہے کہ یہی بدل کر دورِ جدید میں عراق ہوگیا۔ حضرت علیؓ نے بغداد کو خلافتِ اسلامیہ کا دارالحکومت قرار دیا۔ اموی، عباسی، ساسانی، ایوبی (سلطان صلاح الدین)، صفوی، سلجوق اور عثمانیوں نے عراق کو دارالحکومت یا علاقائی مرکز قرار دیا۔
یہاں تیل کے دریافت شدہ ذخائر کا حجم 143 ارب بیرل سے زیادہ ہے، اور اس اعتبار سے عراق کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے جہاں سے 1980ء تک 35 لاکھ بیرل تیل روزانہ برآمد کیا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں عراق مشرق وسطیٰ کا جدید ترین ملک تھا جہاں خواندگی کا تناسب 97 فیصد، اور 95 فیصد عراقی خواتین پڑھی لکھی تھیں۔ جامعہ بغداد اور جامعہ سلیمانیہ ساری دنیا میں مشہور تھیں۔
ملکی تباہی کی ذمہ دار خود عراقی قیادت ہے جو ایک ہی سوراخ سے باربار ڈسی جارہی ہے۔ عراق کی خرابی کا آغاز 1979ء کے ایرانی انقلاب سے ہوا۔ منظم عوامی مزاحمت کے نتیجے میں امریکہ نواز ایرانی حکومت کے خاتمے پر مغرب ششدر رہ گیا۔ 1953ء میں امریکہ و برطانیہ بہت آسانی کے ساتھ منتخب وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹ چکے تھے، جس کے بعد ایرانی فوج کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی۔ مغرب پُراعتماد تھا کہ رضا شاہ پہلوی کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور ایرانی فوج عوامی مزاحمت کو بہت آسانی سے کچل دے گی، لیکن آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ساری ایرانی قوم متحد ہوگئی اور بدترین تشدد کے باوجود عوامی سیلاب کے آگے پہلوی اقتدار ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گیا۔
ایرانی انقلاب کو غیر مؤثر و ناکام بنانے کے لیے عراق کے مردِ آہن صدام حسین کا انتخاب ہوا، اور 20 ستمبر 1980ء کو عراقی فوجیں ایران پر چڑھ دوڑیں۔ 7 سال 10 ماہ سے زیادہ عرصہ جاری رہنے والی اس بے مقصد جنگ نے ایران کے ساتھ عراق کو بھی تباہ کردیا۔ جنگ کے اخراجات تو خلیجی ممالک نے برداشت کیے، لیکن 5 لاکھ سے زیادہ عراقی فوجی اس جنگ میں مارے گئے اور وسائل و بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی شکل میں عراق کے نقصان کا تخمینہ 500 ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔
اس جنگ سے فارغ ہوتے ہی صدام حسین کویت کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھیں شکایت تھی کہ کویت اور سعودی عرب تیل کی پیداوار میں برابر اضافہ کرتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں دبائو کا شکار ہیں۔ عراق نے اوپیک میں کئی بار پیداوار کم کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ارکان اس پر راضی نہ ہوئے۔ عراق کا خیال تھا کہ اوپیک سعودی عرب کے زیراثر ہے جس کی وجہ سے قیمتوں میں استحکام کے لیے کٹوتی کی ہر تجویز مسترد ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف صدام حسین نے کویت کو عراق کا حصہ قرار دینا شروع کردیا، اُن کا کہنا تھا کہ عثمانی خلافت کے دوران کویت بصرہ ولایت (صوبہ) کا حصہ تھا اور انگریزوں نے عوام سے رائے لیے بغیر اسے عراق سے الگ کرکے شیخوں کے حوالے کردیا۔ اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صدام نے عراقی فوج کو کویت کی سرحدوں کی طرف روانہ کردیا۔
کویت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکہ سے ثالثی کی درخواست کی، جس پر بغداد میں امریکہ کی سفیر محترمہ اپریل گلیسپی نے عراق کی فوجی قیادت سے گفتگو فرمائی۔ اس ملاقات کی جو تفصیلات ذرائع ابلاغ پر شائع ہوئیں ان کے مطابق سفیر صاحبہ نے بہت صراحت کے ساتھ کہا کہ عراق اور کویت دونوں امریکہ کے دوست ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دوست آپس میں نہ لڑیں، لیکن اگر جنگ چھڑگئی تو امریکہ غیر جانب دار رہے گا۔ محترمہ نے صدر صدام حسین کو اطمینان دلایا کہ ’’(لڑائی کی صورت میں) امریکہ عراق پر کسی قسم کی پابندی لگانے کا ارادہ نہیں رکھتا‘‘۔ صدر صدام نے اسے ’’مثبت اشارہ‘‘ سمجھتے ہوئے فوج کو کارروائی کا حکم دے دیا، اور 2 اگست 1990ء کو عراقی فوجیں کویت میں داخل ہوگئیں۔ کویتیوں کو یقین تھا کہ محترمہ گلیسپی کی کوششوں سے کشیدگی ختم ہوجائے گی، اس لیے وہ مقابلے کے لیے تیار نہ تھے، چنانچہ صرف 2 دن میں سارے کویت پر عراقیوں نے قبضہ کرلیا۔
بعد میں جب کسی صحافی نے امریکی سفیر گلیسپی سے پوچھا کہ انھوں نے عراقی فوج کے جارحانہ منصوبے اور تیاری سے آگاہی کے باوجود صدام حسین کو روکنے کی کوشش کیوں نہ کی؟ تو محترمہ معصومیت سے گویا ہوئیں ’’ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ صدام اس حد تک چلے جائیں گے۔‘‘
اس کے بعد جو ہوا وہ دراصل عراق کو پتھر کے دور میں واپس لے جانے کی تحریک کا آغاز تھا۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، مصر اور خلیجی ممالک کی چھے ماہ طویل عسکری مہم نے عراق کو کھنڈر بنادیا۔ اس کی فضائیہ کا ہر طیارہ تباہ کردیا گیا اور بحریہ کے 19 تباہ کن جہاز غرقاب ہوگئے۔ کویت سے عراق تک جلے ہوئے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی سینکڑوں میل طویل قطار ایک عرصے تک نشانِ عبرت بنی رہی۔
عراق کی مکمل تباہی کے بعد فروری 1991ء میں جنگ بندی ہوگئی اور اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں نے بچ رہنے والے عراقیوں کی زندگی جہنم بنادی۔ 2001ء میں 9/11 سانحے کے ردعمل میں پیدا ہونے والے جنگی جنون سے صدر بش اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے زبردست فائدہ اٹھایا۔ جوہری بم سمیت بڑی تباہی پھیلانے والے ہتھیار المعروف WMDکی تیاری کا الزام لگاکر عراق کے خلاف نئی فوج کشی کا منصوبہ تیار کرلیا گیا۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA)کے انسپکٹروں نے عراق کے طول و عرض کے دورے کے بعد جو رپورٹ جاری کی اُس میں صاف صاف کہا گیا کہ کسی بھی جگہ سے WMD یا ان کی تیاری کے کوئی آثار نہیں ملے، اور حفظِ ماتقدم کے طور پر SCUD میزائلوں کواقوام متحدہ کی نگرانی میں تباہ کرکے عراق کو نہتا کردیا گیا۔ یہ بات خود امریکی سراغ رسانی کے ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ WMDکے الزامات میں ذرّہ برابر بھی صداقت نہ تھی۔ صدر ٹرمپ اسی بنیاد پر جارج بش کو ’جھوٹا‘ قرار دیتے ہیں۔
2004ء کے انتخابات صدر بش کے سرپر سوار تھے، چنانچہ 20 اگست 2003ء کو خوفناک بمباری سے عراق کے خلاف نئی مہم کا آغاز کردیا گیا۔ سرکاری طور پر تو یہ جنگ دسمبر 2011ء میں ختم ہوگئی لیکن عراقیوں کا قتل عام آج تک جاری ہے۔ اس فوج کشی کا بدترین پہلو یہ ہے کہ فرقہ واریت کو بطورِ جنگی حکمت عملی استعمال کیا گیا، اور اتحادی فوجوں نے شیعہ فرقہ پرست تنظیموں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ انھیں اسلحہ اور فوجی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ یہ ’’مجرب نسخہ‘‘ امریکیوں کے لیے بھی بے حد کامیاب رہا اور فرقہ وارانہ کشیدگی نے عراق کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا۔
امریکیوں نے صدام حسین کے خلاف شیعہ انتہا پسندوں کو آگے بڑھایا، جنھوں نے سنی علاقوں کو مقتل بنادیا۔ داعش سے لڑائی کے دوران شیعہ ملیشیا اورامریکہ کے درمیان قربت میں اضافہ ہوا۔ تاہم نظریاتی و روحانی ہم آہنگی کی بنا پر شیعہ گروہ ایران کے بے حد قریب تھے اور امریکہ کو عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثررسوخ پر شدید تشویش پیدا ہوئی، چنانچہ سنی کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انبار، دیالہ، تکریت اور دوسرے سنی شہروں میں ملیشیا کو منظم کیا گیا۔ 2006ء سے 2008ء تک فرقہ وارانہ کشیدگی اتنی بڑھی کہ سنی و شیعہ علاقے ایک دوسرے کے لیے ’نوگو ایریا‘ بن گئے۔ سیاسی جماعتیں بھی شیعہ سنی بنیادوں پر منظم ہوگئیں۔
عراق کو سنی، شیعہ اور کرد حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا سب سے پہلے سابق امریکی نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جو بائیڈن نے پیش کیا تھا، جو 2008ء کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے خواہش مند تھے۔ اس سلسلے میں اُن کا ایک تفصیلی مقالہ ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہوا۔ یہ منصوبہ بعد میں 2006ء کے پلان کے نام سے مشہور ہوا کہ مقالہ مئی 2006ء میں چھپا تھا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی جناب بائیڈن نے 2006ء پلان کی خاصی تشہیر کی۔ بائیڈن صاحب پارٹی ٹکٹ کے لیے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے، لیکن بعد میں صدر اوباما نے انھیں نائب صدر کا امیدوار نامزد کردیا، اور انھوں نے پلان 2006ء پر اصرار ختم کردیا۔
دوسری طرف افغانستان میں طالبان کا دبائو بڑھنے لگا اور عراق کے محاذ پر داعش کی شکل میں ایک اور ہدف تراش لیا گیا۔ طالبان اور اس کے بعد صدام حکومت کے خاتمے کے لیے شیعوں کی ضرورت تھی۔ اب داعش کے غیر مرئی جن کو قابو کرنے کے لیے شیعہ قوتوں کی طرف ایک بار پھر دستِ سرپرستی بڑھایا گیا۔ جب تک داعش مضبوط رہی کوئی مسئلہ نہ ہوا کہ امریکہ، عراقی شیعہ اور ایران تینوں اپنے مشترکہ سنی دشمن سے نبردآزما تھے۔
داعش کے خاتمے پر ایران دوبارہ چچا سام کے سر پر سوار ہوگیا۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ عراق میں امریکی فوجوں کی واپسی کی حالیہ تحریک ایران کی پشت پناہی سے شروع کی گئی ہے، جس کے مقابلے کے لیے امریکیوں نے سنیوں سے مراسم بہتر کرنے شروع کردیے۔ گزشتہ دنوں ڈرون حملے میں جنرل قاسم سلیمانی اور حشدالشابی کے نائب کمانڈر ابومہدی المہندس کے قتل پر عراقی شیعہ اور زیادہ مشتعل ہوگئے۔
8 جنوری کو امریکی اڈوں پر حملوں کے ذریعے ایران نے 3 جنوری کو جنرل سلیمانی کے قتل کا بدلہ لے لیا، جس کے بعد دونوں فریقوں نے مزید عسکری اقدامات سے گریز کا عندیہ دیا ہے، لیکن سفارتی و سیاسی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں عراقی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں امریکی فوجوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ امریکہ نے قرارداد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فوجی قیام جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ قرارداد کے دوران کرد اور سنی ارکانِ پارلیمنٹ نہ صرف ایوان سے غائب رہے بلکہ وہ انتقامی کارروائی کے خوف سے بغداد ہی چھوڑ گئے۔ زیادہ تر کرد ارکان شمال میں ایربیل چلے گئے، جبکہ سنیوں نے اردن کے دارالحکومت عمان میں پناہ لینا مناسب سمجھا۔ ایربیل اور عمان میں سنی اور کرد ارکانِ پارلیمنٹ سے امریکی سفارت کاروں نے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ ان ارکان سے ملنے کے لیے امریکہ کے نائب وزیرخارجہ برائے مشرق وسطیٰ ڈیوڈ شینکر خصوصی طور پر ایربیل آئے اور انھوں نے کرد رہنما مسعود برزانی سے ملاقات کی۔ براہِ راست بات چیت کے علاوہ کردو سنی ارکانِ پارلیمان نے بھی امریکی نائب وزیرخارجہ سے گفتگو کی۔
ایربیل سے جناب ڈیوڈ شینکر ابوظہبی گئے جہاں عراقی پارلیمان کے اسپیکر جناب محمد الحلبوسی نے ان سے ملاقات کی۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات پہلے سے طے نہیں تھی، بس اتفاق سے ہوٹل کی لابی میں ان دونوں کی ایک دوسرے پر نظر پڑگئی اور گفتگو کا آغاز ہوگیا۔ جناب الحبلوسی مسلکاً سنی ہیں۔ سنی و کرد رہنمائوں سے ملاقاتوں کے بعد سنی، شیعہ اور کرد عراق کی تقسیم کے منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوگیا ہے۔ اس سلسلے میں عراقی کنفیڈریشن کا ایک غیر سرکاری نقشہ بھی گشت کررہا ہے، جس کے مطابق سنی عراق انبار، شمالی نینوا، صلاح الدین اور دیالہ صوبوں پر مشتمل ہوگا۔ ایران کے حوالے سے امریکہ کو ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ عراق اور شام کے راستے تہران بحر روم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے، جہاں اسرائیل، مصر اور یونان ترکی کو دیوار سے لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ترکی سے اچھے تعلقات کی بنا پر ایران تیل و گیس کے میدان میں ترکی کی معاونت کرسکتا ہے جس نے پہلے ہی لیبیا سے حفاظتی معاہدہ کررکھا ہے۔ نئے عراقی کنفیڈریشن کا نقشہ کچھ اس طرح ترتیب دیا جارہا ہے کہ شامی سرحد سے متصل سارا علاقہ سنیوں کے پاس رہے اور شیعوں کو شامی سرحد تک رسائی نہ مل سکے۔ پورے انبار کو سنی عراق میں شامل کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جنوب مغرب میں اس کی سرحد اردن سے ملتی ہے، جس کے نتیجے میں ایران اسرائیلی سرحدوں سے بھی دور رہے گا۔
خودمختار کردستان کی شکل میں ترکی کے لیے مستقل دردِسر کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ عراقی کردستان میں سیکولر کردستان ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار ہے جس کے ترک کردوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی (PKK) سے گہرے مراسم ہیں۔ ترک عدالت نے PKKکو دہشت گرد جماعت قرار دیا ہے۔ PKKکے عسکری ونگ YPGنے شامی سرحد پر ترک فوج کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ عراقی کردستان میں PKK کی حمایت یافتہ خودمختار حکومت کے قیام سے YPG دہشت گردوں کو ترک سرحد پر محفوظ ٹھکانے میسر آجائیں گے۔ لگتا ہے کہ سنیوں کے تحفظ کے نام پر تقسیمِ عراق کا منصوبہ بہت باریک بینی سے بنایا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں عراق پر امریکہ کی گرفت مضبوط ہوگی، وہیں ترکی کی جنوب مشرقی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہوجائیں گی۔
منصوبے میں عراقی سالمیت کی ضمانت دی گئی ہے، اورکرنسی و دفاع کے معاملات بدستور وفاق کے پاس رہیں گے۔ وفاقی پارلیمان میں تمام اکائیوں کی نمائندگی آبادی کے مطابق ہوگی، اور وفاق کا ایک صدر بھی ہوگا جسے تمام اکائیاں منتخب کریں گی۔ سنی ارکانِ پارلیمان کا کہنا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کے خلاف ہیں لیکن اکثریت کے بل پر وفاق ایک مخصوص فرقے کے نرغے میں ہے جس کی وجہ سے سنی دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ ساری شکایتیں درست، اور ان پرگفتگو ہونی چاہیے، لیکن سنیوں کے حقوق میں امریکہ کی دلچسپی سے لگتا ہے کہ معاملہ محض جمہوری و شہری حقوق کا نہیں، بلکہ کنفیڈریشن کی شکل میں ملک کو فرقوں اور لسانی و ثقافتی بنیادوں پر تقسیم کرکے قبضے کو دوام بخشنے کے ساتھ ترکی و ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا اصل یا کم ازکم اضافی و ثانوی مقصد ہے۔

…………
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ www.masoodabdali.comپر تشریف لائیں۔