ضلع جیکب آباد، محکمہ تعلیم میں بدعنوانیوں کی ہوشربا داستان

مجاہد خاصخیلی
حق اور انصاف عوام کو دلانے کی دعوے دار اور علَم بردار تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی جانب سے یہ حالیہ فیصلہ کہ آئندہ نیب کی جانب سے 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی، دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بن گیا ہے، لیکن ہمارے وزیراعظم عمران خان ایسی باتوں سے لگتا یہ ہے کہ یکسر بے نیاز ہیں، اور موصوف بھی سابق صدر آصف علی زرداری اور میاں محمد نوازشریف کی ڈگر پر ہی گامزن ہوچکے ہیں۔ یعنی ہر قیمت پر اپنے اقتدار کا دوام اور تحفظ، خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے وعدے اور دعوے تیاگ دیے جائیں، یا پھر اپنے اصولوں اور نعروں سے دست بردار ہونا پڑے انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت میں بھی کرپٹ اور بدعنوان عناصر بڑے دھڑلے کے ساتھ بدعنوانیوں میں مصروف ہیں لیکن انہیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔ کرپشن کی روک تھام کے ذمے دار سرکاری ادارے جب کسی محکمے میں بدعنوانی کا سراغ پاتے ہیں تو اس کے متعلقہ ذمے داران سے ’’حصہ بہ قدرِ جثہ‘‘ وصول کرکے چپ سادھ لیتے ہیں۔ خصوصاً صوبہ سندھ میں کرپٹ عناصر کو جو کھلی چھوٹ اور سرکاری تحفظ ملا ہوا ہے اس کی وجہ سے ہمارا پیارا یہ صوبہ سچ مچ بدعنوان افراد کی جنت بنا ہوا ہے۔ راقم ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے لیے لکھی گئی اپنی ایک سابقہ رپورٹ میں بھی گزارش کرچکا ہے کہ میرے پاس سندھ کے ہر سرکاری محکمے کے افسران اور اہلکاروں کی بے محابہ کرپشن کے دستاویزی (ٹھوس اور مستند) ثبوت موجود ہیں۔ کرپشن میں اس وقت ضلع جیکب آباد بھی سرفہرست ہے۔ یہاں کی کرپشن مافیا اتنی نڈر، بے حس اور ڈھیٹ ہے کہ اسے قانون اور انصاف کا خوف تو ٹھیرا ایک طرف، خوفِ خدا بھی نہیں ہے۔ خصوصاً محکمہ تعلیم اور صحت کی حالت تو حد درجہ ابتر اور خراب ہے۔ لگتا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سارے سندھ اور عوام دشمن کرپٹ افسران ضلع جیکب آباد میں چن چن کر مقرر کیے ہیں۔ اب محکمہ تعلیم میں اگر بدعنوان افسران نے 19 کروڑ 14 لاکھ روپے کی کرپشن کی ہے تو ان کے خلاف محض اس لیے کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی کہ حکمرانوں نے اب اس کی حد 50 کروڑ مقرر کردی ہے۔ لہٰذا مذکورہ رقم سے ایک روپیہ بھی کم ہونے کی صورت میں نیب ایسے بدعنوان عناصر کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ 19 کروڑ 14 لاکھ روپے کی رقم محکمہ تعلیم ضلع جیکب آباد کے افسران کی صرف ایک ماہ کی کرپشن پر مبنی چھوٹا سا نمونہ اور ثبوت ہے، اور اگر اس رقم کو پورے سال کے حساب سے جمع کیا جائے تو یہ رقم کتنی بنتی ہے اس کا بخوبی تخمینہ اور اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 9 برس کا یہ مجموعی تخمینہ جتنی بڑی رقم پر محیط ہے یعنی اربوں روپے پر، اسے لکھتے ہوئے بھی راقم انگشت بدنداں ہے۔ کیوں کہ یہ رقم سالانہ 907363000 روپے بنتی ہے۔ یہ کرپشن اتنی بڑی اور خوف ناک ہے کہ اس کے ذمے داران کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی ہونی چاہیے، لیکن افسوس کہ اس حوالے سے تاحال کچھ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ تقریباً 9 برس پیشتر 22 اکتوبر 2011ء کو منعقدہ میٹنگ جس کی تفصیلی رپورٹ بعدازاں سید امداد علی شاہ ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر فنانس ضلع جیکب آباد کنوینر سیکرٹری کمیٹی کے دستخط سے سامنے آئی تھی، اس رپورٹ میں جس کا عنوان Report of Scrutiny Committe on Alleged Fake Appointment above Over and Sanctioned Strength and Excess Payment in Salaries in Education Group of offices, District Jacobabad ہے، اس میں ہوش ربا اور ہولناک انکشافات کیے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس مستند رپورٹ پر بھی عرصہ 9 برس گزرنے کے باوجود تاحال کرپشن کے ذمے دار قرار دیے گئے افسران اور اہلکاروں کے خلاف کسی نوع کی کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے ضلع جیکب آباد میں بدعنوان افسران نے جعلی بھرتیاں ضرورت سے بہت زیادہ کرکے، اور جعلی ملازمین کو تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں غیر قانونی اربوں روپے زائد ادا کرکے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان سے دوچار کیا ہے۔ رپورٹ ہذا کے مطابق زائد جعلی ملازمین کو جعلی آئی ڈیز اور جعلی اسناد پر غیر قانونی طور پر بھرتی کیا گیا جس میں محکمہ خزانہ ضلع جیکب آباد کے اہلکار بھی برابر کے ذمے دار ہیں۔ جعلی ملازمین کو سابقہ تاریخوں میں غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیا گیا جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ ماہ نومبر 2011ء میں منظور شدہ کُل اسامیاں ضلع جیکب آباد میں 8515 بشمول 6323 محکمہ تعلیم کی اسامیوں کی تھیں، جبکہ 9749 ملازمین کی تنخواہیں ماہِ ستمبر 2011ء میں نکلوائی گئی تھیں۔ صرف محکمۂ تعلیم میں منظور کردہ 6323 اسامیوں کے بجائے 7952 ملازمین کو تنخواہیں دی گئی تھیں اور اضافی سارے ملازمین جعلی تھے۔ اس 12 صفحات کی رپورٹ کے ہر اقتباس، پیراگراف اور صفحے پر کرپشن (بے لگام بدعنوانی) کے لرزہ خیز انکشافات ہیں، لیکن متعلقہ بدعنوان ذمے داران تاحال بے خوف و خطر دھڑلے کے ساتھ پہلے کی طرح کرپشن کرنے اور سرکاری خزانے کو نقب لگانے میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کرپشن محکمہ تعلیم ضلع جیکب آباد کے مرد و خواتین ہر دو شعبوں میں ہوئی ہے، اس رپورٹ میں کرپشن کے تمام طریقہ ہائے واردات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ بڑے پیمانے پر جعلی بھرتیوں میں سابق ضلعی تعلیمی افسران جیکب آباد شان بروہی اور محمد ابراہیم برڑو کا کردار سب سے شرمناک اور خراب ترین رہا ہے، جنہوں نے بغیر کسی قانونی تقاضوں، ضروری تعلیمی اسناد اور پوسٹ کے لیے مطلوبہ کوالی فکیشن کو مدنظر نہ رکھ کر ہزاروں جعلی ملازمین کو ہر سطح کی پوسٹ پر بھرتی کیا اور اس کے عوض کروڑوں روپے کی رشوت وصول کی، جس میں محکمہ خزانہ ضلع جیکب آباد کے افسران اور اہلکاروں نے بھی اپنا شیئر حاصل کیا۔ 1592 ملازمین تو ایسے بھرتی کیے گئے جن کے لیے بنیادی قانونی تقاضے بھی یکسر فراموش کردیے گئے۔ 2007ء اور اس سے پیشتر اور بعدازاں ہزاروں جعلی ملازمین مذکورہ افسران جن کا رپورٹ ہذا میں ذکر ہے انہیں سابق اور موجودہ سندھ حکومت کے وزراء اور پی پی کے ارکانِ اسمبلی کی اعلانیہ آشیرباد حاصل رہی ہے۔ بعدازاں ڈسٹرکٹ اکائونٹس آفیسر ضلع جیکب آباد نعیم لیاقت دیدڑ نے 17 دسمبر 2013ء کو اپنے آپ کو بچانے کی خاطر اور فیس سیونگ کے لیے ضلع جیکب آباد کے تعلیمی افسران کو بذریعہ لیٹر نمبر DAO/AG/Inquiry/2047 اطلاع دی کہ جعلی تمام ملازمین کی تنخواہیں روک دی جائیں۔ تاہم ان ہدایات پر بھی کوئی عمل نہیں کیا گیا اور کرپشن کا بے لگام سلسلہ جاری و ساری رہا اس رپورٹ کے ساتھ منسلک کی جارہی ہیں۔ نیز معروف سندھی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے تراشے بھی دیے جارہے ہیں جو اس بات کا مظہر ہیں کہ ہر بات کے ثبوت اور ٹھوس شواہد ہونے کے باوصف بدعنوان عناصر کس طرح بے مہار ہوکر کرپشن میں مصروف ہیں۔ نیب اور انسدادِ بدعنوانی کے ذمے داران آخر کب ایسے بدعنوان عناصر کے خلاف حرکت میں آئیں گے؟ یہ تو محض ایک سرکاری صوبائی ادارے (سندھ) کی حالتِ زار ہے، ورنہ تمام سرکاری اداروں کی یہی صورت حال ہے، اور معاملہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کا ہے۔ 50 کروڑ روپے کی کرپشن تک کارروائی کا مجاز نیب بھی ایسے عناصر کے خلاف باآسانی حرکت میں آسکتا ہے اگر ارادہ پختہ اور عزم مصمم ہو تو۔