میر تقی میرؔ نے کہا تھا:۔
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
ماندگی کے اس وقفے سے قبل آدمی جب تک جیتا رہتا ہے اپنے آپ کو منوانے کے لیے کتنی تگ و دو کرتا ہے، کتنے منصوبے بناتا ہے، اور ان منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کس کس طرح اپنے آپ کو کھپاتا ہے، اپنی جملہ توانائیوں کو ایک نکتے پہ مرکوز کرکے کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ پروفیسر شریف المجاہد کی داستانِ حیات بھی بس اتنی ہی ہے کہ جب تک جیتے رہے، اپنے آپ کو علم اور تحقیق کے لیے وقف کیے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں طویل عمر عطا کی، عمر کی اس طوالت کو بھی انھوں نے سلیقے سے استعمال کیا۔ یہاں تک کہ کئی سال پہلے ایک حادثے میں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جانے کی وجہ سے صاحبِ فراش رہے لیکن لکھنے پڑھنے کا کام پھر بھی نہ چھوڑا اور معذوری کی حالت میں بھی مصروفِ کار رہے۔ ان سے اِس خاکسار کی نیازمندی کو بھی عرصہ گزر گیا۔ ان کی زندگی ہی میں ان کی شخصیت پر ایک خاکہ رقم کیا تھا جو ذیل میں درج ہے:
مجاہد صاحب، نادر مثال علم دوستی کی!
فنا فی العلم اور فنا فی التحقیق کی مثالیں کتابوں میں تو مل جاتی ہیں، ایسی شخصیات جنھوں نے علم اور تحقیق کے عشق میں اپنی زندگیاں کھپا دیں، جن کا اوڑھنا بچھونا، سونا جاگنا، حتیٰ کہ مرنا جینا سبھی کچھ علم کے لیے تھا، لیکن اپنی زندگی میں جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی حالت میں جس شخصیت کو میں نے علم اور تحقیق کی طلب میں زندگی بسر کرتے دیکھا، وہ شریف المجاہد صاحب کی ہے۔ مجاہد صاحب نے درس و تدریس سے وابستہ رہ کر بھی پی ایچ ڈی نہیں کی، لیکن اپنے بلند پایہ علمی اور تحقیقی مقالات اور کتابوں کی وجہ سے علمی دنیا میں اس مقام پر فائز ہوچکے ہیں کہ وہ خود پی ایچ ڈی کی تحقیق کا موضوع بن گئے ہیں۔ پتا چلا کہ علم کی لگن اور تڑپ اسناد اور ڈگریوں کی محتاج نہیں ہوتی۔
یوں تو میں مجاہد صاحب کی براہِ راست شاگردی کی سعادت سے محروم ہی رہا کہ شعبۂ صحافت کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اس کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ قائداعظم اکادمی کے ڈائریکٹر بنادیے گئے، اور یوں ہم جیسے بہت سے تشنگانِ علم کو اُن کے صحبتِ علم سے فیض اُٹھانے کا موقع نہ مل سکا۔ لیکن مجاہد صاحب نے شعبۂ صحافت قائم کرکے جن اچھے اساتذہ کو شعبے کا جزوِلازم بنایا تھا، ان ہی سے سیکھا جو کچھ کہ سیکھا۔ مثلاً استادِ محترم پروفیسر زکریا ساجد، ڈاکٹر انعام الرحمٰن، پروفیسر متین الرحمٰن مرتضیٰ وغیرہ۔ چوں کہ شعبہ انھوں نے ہی قائم کیا تھا لہٰذا ان کے جانے کے بعد بھی ان کے نقوشِ قدم شعبے میں مدتوں تک تازہ رہے، کبھی دُھندلے نہ پڑے۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کی شہرت سن کے مارے اشتیاق کے میں ایک دن ایم اے فائنل کی کلاس کی پچھلی نشست پر خاموشی سے بیٹھ گیا تھا کہ ان کا لیکچر سنوں۔ میں نے آنرز سالِ اوّل میں داخلہ لیا تھا اور مجاہد صاحب صرف سینئر کلاسوں کو پڑھاتے تھے۔ اب یہ تو مجھے بالکل بھی یاد نہیں کہ ان کا لیکچر کس موضوع پر تھا اور انھوں نے کیا کچھ اپنے موضوع پر فرمایا تھا۔ البتہ ان کا دورانِ لیکچر بار بار زوردار طریقے سے چھینکنا اور جیب سے رومال نکال کر ناک صاف کرنے کا منظر آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے۔
سن رکھا تھا کہ مجاہد صاحب کے لیکچر کی علمی سطح اتنی بلند ہوتی ہے کہ اکثر طلبہ و طالبات کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔ اس کا ایک دل چسپ واقعہ جس کا میں چشم دید گواہ ہوں:
مجاہد صاحب کی موجودگی میں شعبے کے طلبہ نے پکنک کے لیے ہالیجی لیک جانے کا پروگرام بنایا، اُس زمانے میں شعبے میں اساتذہ و طلبہ میں ہم آہنگی مثالی تھی، آج کی طرح نہیں کہ شعبے کی تقریبات میں اکثر اساتذہ شریک ہی نہیں ہوتے اور پکنک پر طلبہ و طالبات اساتذہ کے بغیر ہی چلے جاتے ہیں، انھیں اساتذہ کی عدم شرکت کا احساس نہیں ہوتا اور نہ اساتذہ ہی کو اس کی پروا ہوتی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ دریا کے دو کنارے ہوچکے ہیں جو آپس میں مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ پچاس پچپن منٹ کے لیے ملتے بھی ہیں تو کلاس روم میں۔ پھر کہاں استاد اور کدھر طالب علم! دونوں فریق میں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی۔ خبر تو اُس وقت ہوتی جب دل چسپی ہوتی۔
وہ دن گئے جب استاد اور شاگرد کا رشتہ عمر بھر کا ہوتا تھا۔ کلاس روم سے باہر بھی، استاد، شاگرد کی ذاتی اور خاندانی زندگی اور امور و مسائل میں بھی ایک مشیر، ایک ناصحِ مشفق کی حیثیت سے دخیل ہوتا تھا۔ اب استاد اکثر صورتوں میں نوکری کرتا ہے اور شاگرد استاد کو ہدیۂ دل کے بجائے چاکری کا بل پیش کرتا ہے۔ استاد اور شاگرد کے تعلق میں ایک بے گانگی اور لاتعلقی سی آگئی ہے۔ ان دوچار اساتذہ کی بات نہیں جو اب بھی اپنے اساتذہ کے ماڈل کو سامنے رکھ کر مرتی ہوئی روایات کو انفرادی طور پر زندہ کرنے میں کوشاں ہیں۔ عمومی فضا تو بنتی ہے اکثریت کے طرزِ عمل سے، حُسنِ معاملہ سے، اقدار و روایات تو ان سے پھوٹتی اور پروان چڑھتی ہیں۔ سو زر پرستی نے جہاں ہر طبقے اور زندگی کے ہر شعبے کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے، وہیں تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ عبرت ناک حد تک متاثر ہوا ہے۔ اکثر اساتذہ میں نہ علم کی طلب و جستجو ہے، اور طالب علم کو غرض صرف ڈگری اور ڈویژن سے ہے، وہ بے چارہ تو جانتا ہی نہیں کہ علم کس چڑیا کا نام ہے۔ تو بات دُور جا پڑی، میں اُس زمانے کا ذکر کررہا تھا جب اُستاد اور شاگرد ذوقِ علم اور محبت کی ڈور میں بندھے تھے۔ جب سب لوگ بس میں سوار ہوگئے اور بس ہالیجی لیک کے رستے پہ بھاگنے لگی تو بس کے اندر طلبہ نے آپس میں چہلیں شروع کردیں۔ کسی طالب علم نے کیلا کھا کر اس کا چھلکا آگے بیٹھے ہوئے طالب علم کی طرف شرارتاً اچھال دیا، تو جب چھلکا اُڑتا ہوا جارہا تھا تو ایک فقرے باز طالب علم نے زور سے کہا: ’’وہ دیکھو جارہا ہے، مجاہد صاحب کے لیکچر کی طرح‘‘۔ مزے کی بات تو یہ تھی کہ مجاہد صاحب اور دیگر اساتذہ کی موجودگی میں فقرہ چست کیا گیا، سب نے قہقہہ لگایا جس میں مجاہد صاحب کی شگفتہ سی ہنسی بھی شامل تھی۔ مجاہد صاحب کے پڑھانے کا انداز بھی دوسرے اساتذہ سے مختلف تھا، کبھی آتے تو طلبہ کو کلاس روم میں ہی کتابیں پڑھواتے، انہیں چھوٹے موٹے تحقیقی اسائنمنٹ دے دیتے۔ محض پون گھنٹے کے یک طرفہ لیکچر پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ غالباً حکمت و تدبر بھی تدریس کے اِسی طریقے میں مُضمر ہے۔ ’’لیکچر مرکز طریقۂ تعلیم‘‘ کی خرابی یہ ہے کہ استاد تو پوری تیاری کے ساتھ کلاس میں آتا ہے اور طالب علم اس موضوع پر صفر ہوتے ہیں۔ استاد جو کچھ کہتا یا لیکچر دیتا ہے، طالب علم اسے چپ چاپ سنتے اور قبول کرتے جاتے ہیں۔ کچے پکے نوٹس بھی لے لیتے ہیں، کسی طالب علم کو سوال یا اختلاف کرنے کی توفیق اس لیے نہیں ہوتی کہ اس علمی موضوع پر وہ بالکل ہی کورا ہوتا ہے۔ اگر کلاس میں آتے ہوئے طلبہ بھی کچھ پڑھ کر آئیں تو وضاحت، صراحت، استفسار اور سوالات بھی کریں۔ ایک خیال دوسرے خیال سے جب ٹکراتا ہے، ایک ہی موضوع پر دو مختلف معلومات میں تطابق پیدا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو تو اختلاف و اتفاق کی نوبت آتی ہے۔ چوں کہ ترسیلِ علم کی ساری ذمے داری بے چارے استاد کی جانِ ناتواں پر رکھ دی جاتی ہے اور طالب علم میں تحصیلِ علم کی پیاس پیدا کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی تو کلاس روم مباحثہ اور تبادلۂ خیال کا مرکز بننے کے بجائے خاموش قبرستان کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ حاضری رجسٹر بھی جسمانی حاضری کا رجسٹر ہوتا ہے، ذہنی موجودگی کی جانچ پڑتال ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ طلبہ ذہنی طور پر حاضر ہیں بھی یا کسی پارک اور ساحلِ سمندر کی سیر میں مصروف ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام کی یہ وہ خرابیاں ہیں جن پر اربابِ حل و عقد سوچنے اور نظرثانی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں سنجیدہ تعلیمی امور پر غور و خوض کے بجائے کمیٹیوں میں اساتذہ کی نامزدگی اور معمول کے مسائل و امور بھگتانے ہی کو اصل کام سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کا معیار پست سے پست تر ہوتا جاتا ہے اور اساتذہ کی نمائندہ تنظیمیں پروموشن، مراعات کے حصول اور ایسے ہی دیگر فوائد بٹورنے میں اپنی توانائیاں صرف کردیتی ہیں۔ ایسے میں تعلیمی معیار، ذوقِ علم اور ذوقِ تحقیق کس کا مسئلہ ہو؟
مجاہد صاحب جب تک شعبے میں رہے، جب تک کلاسیں لیتے رہے، اُن کی ساری توجہ اور سارا انہماک اسی پر مرتکز رہا کہ اپنے علم میں اضافہ کریں، جو کچھ پڑھیں اور جو کچھ غور و فکر کریں، اسے اخباری مضامین، تحقیقی مقالات یا تصنیف و تالیفِ کتب کی صورت میں اہلِ علم تک پہنچائیں۔ چناں چہ ان کے مضامین جہاں ’’ڈان‘‘ جیسے موقر اخبار میں تواتر سے شائع ہوتے رہے، وہیں صحافت کے موضوع پر بین الاقوامی سطح کے معروف تحقیقی جرائد مثلاً ’’جرنلزم کواٹرلی‘‘ اور ’’میڈیا ایشیا‘‘ میں چھپتے رہے۔ اکثر اوقات بعض انسائیکلو پیڈیا کے مرتبین کی فرمائش پر انھوں نے عالمانہ مقالے لکھے جو انسائیکلو پیڈیا کا حصہ بن کر ملک کے علمی وقار میں اضافے کا سبب بنے۔
پچھلے دنوں کی بات ہے، پرانی کتابوں کی دکان سے وقفے وقفے سے مجھے ان کی تین کتابیں ارزاں قیمت پر دستیاب ہوئیں۔ ان میں ایک کتاب تو انگریزی میں ’’انڈین سیکولرازم‘‘، دوسری اردو میں ’’بنیادی حقوق‘‘ تھی جو ڈاکٹر محمود حسین کے قائم کردہ جامعہ تعلیم ملّی نے برسوں پہلے شائع کی تھی۔ دونوں کتابیں اپنی معلومات اور فکری سطح کے اعتبار سے اتنی عمدہ اور بلند پایہ تھیں کہ میں نے مجاہد صاحب سے عرض کیا کہ سر! ان دونوں کتابوں کو دوبارہ چھپنا چاہیے۔ مگر مسئلہ تو یہی ہے کہ چھاپے کون؟ تیسری کتاب قائداعظم پر ان کا معرکہ آرا تحقیقی کارنامہ، جس پر حکومتِ پاکستان نے انھیں ایوارڈ سے بھی نوازا: Quaid-I-Azam Jinnah Studies in Interpretation تھی۔ اہلِ علم کی رائے میں قائداعظم پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں اُن میں اِس کتاب کا شمار چند بہترین کتب میں ہوتا ہے، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے اب تک قائداعظم پر کچھ نہیں تو آٹھ نو سو کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ میں یہ کتاب لے کر بھاگم بھاگ مجاہد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھیں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ یہ کتاب مجھے پرانی کتابوں کی دکان سے ملی ہے۔ اپنے مخصوص انداز میں فرمایا: ’’بھئی اگر اس کی کوئی اور کاپی ملے تو میرے لیے خرید لینا‘‘۔ مئیں ’’(وہ ’’میں‘‘ کو ’’مئیں‘‘ بولتے ہیں) اس کی خیمت (قیمت) آپ کو دے دوں گا‘‘۔
میں نے ہامی بھرلی اور پھر کتاب دستخط کے لیے پیش کردی۔ انھوں نے جو کچھ اس پر میرے حوالے سے لکھا، وہ مجھے شرمسار کرنے کے لیے کافی تھا۔ پھر بھی تحدیثِ نعمت کے طور پر نقل کیے دیتا ہوں۔ میرا نام لکھنے کے بعد جو کچھ رقم کیا وہ یہ تھا:
a friend of books, whose research and writings have already made a considerable impact, with best wishes for all the years to come.
دستخط کے نیچے 5 جولائی 2014ء درج ہے۔ مجاہد صاحب تعریف و تحسین کے معاملے میں سخت بخیل واقع ہوئے ہیں، دل رکھنے کے لیے بھی تعریف نہیں کرتے۔ ان کی ستائش ان کے کڑے معیار کی چھلنی سے چھَن کر نکلتی ہے، اس لیے میں شرمندہ تو ہوا ہی، حیران بھی ہوا۔
آج ہمارے شعبے میں تدریس کے جتنے وسائل ہیں مثلاً ایف ایم ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ایڈورٹائزنگ اور کمپیوٹر لیب وغیرہ، مجاہد صاحب کی سربراہی میں شعبہ ان سے محروم تھا، لیکن اس محرومی کے باوجود تدریس کا معیار بلند تھا، طلبہ میں تحقیق کا چلن عام تھا، جبھی اُس زمانے میں جو طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہوکر شعبے سے نکلے، وہ آج بھی ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ممتاز مناصب پر فائز ہیں۔ اس کے برعکس آج قیمتی وسائل کی موجودگی میں نہ تدریس کا وہ اعلیٰ معیار ہے اور نہ ایسے طلبہ و طالبات ہی تیار ہورہے ہیں جو ذرائع ابلاغ میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی لانے کا محرک بن سکیں۔ یہ المیہ تمام ملکی جامعات کے شعبہ ہائے ابلاغِ عامّہ کا ہے۔ میڈیا کی تعلیم اور اس کی عملی تربیت کے فروغ کے ساتھ اصولاً میڈیا کے معیار کو بلند اور اس کے وقار و اعتبار میں اضافہ ہونا چاہیے تھا، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ میڈیا کی تعلیم بھرپور وسائل کے ساتھ جیسے جیسے پھیلتی جارہی ہے، میڈیا کا معیار اور پست، اس کی ساکھ ذہنوں میں اور مجروح ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ؟ اس پر بھی کون غور کرے۔
شریف المجاہد صاحب نے اپنی ساری زندگی علم و تحقیق کی نذر کردی۔ جب تک شعبے میں رہے، لکھنے پڑھنے میں خود بھی لگے رہے اور اساتذہ و طلبہ کو بھی اسی جانب راغب کرتے رہے۔ یہاں ایک واقعے کا ذکر ضروری ہے۔ ایک دن مجاہد صاحب نے ٹیلی فون پر مجھ سے پوچھا کہ ’’اور بھئی تمہاری لکھنے پڑھنے کی مصروفیت کیسی چل رہی ہے۔‘‘ میں نے شکایتاً عرض کیا: ’’سر! مصروفیت کیا چلے گی، جب سے چیئرمین بنا ہوں، سارا وقت کلریکل کاموں میں اور ملنے ملانے والوں میں کھپ جاتا ہے‘‘۔
فرمانے لگے ’’بھئی کلریکل کام تو منصبی ذمہ داری ہے، اس سے بچا نہیں جاسکتا۔ البتہ جو لوگ تمہارا وقت ضائع کرنے آجاتے ہیں اُن سے بچنا ضروری ہے‘‘۔
اتنا کہہ کر پھر انھوں نے اپنی مثال دی:
’’میں جس زمانے میں چیئرمین تھا تو آنے والوں سے بچنے کے لیے اور اپنا وقت بچانے کے لیے یہ کیا کرتا تھا کہ کوئی بھی آتا، خواہ وہ پروفیسر ہی کیوں نہ ہوتا، اُسے دیکھ کر میں اپنی کرسی سے کھڑا ہوجاتا تھا۔ آنے والا خیال کرتا تھا کہ میں اُس کے استقبال کے لیے کھڑا ہوا ہوں، لیکن میں کھڑا ہی رہتا تھا، کھڑے کھڑے اس کی بات سن کر یہ واضح کردیتا تھا کہ میں مصروف ہوں اور گپ شپ کے لیے میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔ چناں چہ آنے والا چند منٹ بعد ہی رخصت ہوجاتا اور میں اپنے کام میں لگ جاتا تھا‘‘۔
یہ سن کر میں نے سوچا کہ ترکیب تو اچھی ہے مگر ایسی بے مروتی کے لیے علم سے اٹوٹ محبت اور اپنے وقت کی قدر و قیمت کا شدید احساس چاہیے۔ یہ دونوں جنسِ نایاب کسی بازار میں دستیاب ہی نہیں۔ لہٰذا جب تک چیئرمین رہا، وقت ضائع ہی ہوتا رہا، یہاں تک کہ ایک حادثے نے مجھے اس منصب سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور میں اپنی مرضی سے لکھنے پڑھنے میں آزاد ہوگیا۔
مجاہد صاحب شعبے سے رخصت ہوکر قائداعظم اکیڈمی سے جڑے تو وہاں بھی انھوں نے سب سے پہلے توجہ لائبریری کو دی اور نادر و نایاب اور قیمتی کتابوں سے اسے مزین کردیا۔ جب تک وہ شعبے میں تھے، کیمپس ہی میں رہائش پذیر تھے۔ بعد میں نارتھ ناظم آباد میں ایک بنگلہ تعمیر کراکے اس میں اپنی فیملی کے ساتھ جا بسے۔ نارتھ ناظم آباد سے مزار قائد تک کا فاصلہ اچھا خاصا ہے، ٹریفک کے ازدحام کی وجہ سے آمد و رفت میں بہت وقت ضائع ہوجاتا تھا۔ چناں چہ مجاہد صاحب نے اپنا ڈیرا اکیڈمی کے دفتر ہی میں ڈال لیا۔ راتوں کو گھر جانا چھوڑ دیا، اکیڈمی ہی میں سوتے اور وہیں جاگتے تھے۔ چوبیس گھنٹوں میں نیند لینے کے چند ہی گھنٹے ہوتے تھے۔ باقی وقت پڑھنے یا دفتری امور نمٹانے میں گزار دیتے تھے۔ ہمارے استادِ محترم زکریا ساجد صاحب جو امریکہ و فرانس کی جامعات میں وہاں کے پروفیسروں اور اہلِ علم کے ساتھ کام کرنے کا وسیع و وقیع تجربہ رکھتے ہیں، ایک دن کہنے لگے: ’’میں نے مجاہد جیسا محنتی آدمی نہیں دیکھا۔ مغرب کے پروفیسروں کو بھی تصنیف و تحقیق میں دن رات ایک کرتے دیکھا، لیکن جیسی محنت اور لگن مجاہد صاحب میں دیکھی ہے اس کی مثال تو امریکہ اور فرانس میں بھی نظر نہیں آتی‘‘۔
اس اعتراف کے بعد غالباً مجاہد صاحب کی علم دوستی کی بابت کچھ اور کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بہت پرانی بات ہے ایک بار میں نے مجاہد صاحب سے پوچھا: ’’سر! محنت اور ذہانت میں آپ زیادہ اہمیت کسے دیتے ہیں؟‘‘ انھیں سوچنے کی بھی ضرورت نہ پڑی، بے ساختہ فرمایا: ’’محنت!‘‘
میں نے کہا: ’’ذہانت کیوں نہیں؟‘‘ کہنے لگے: ’’ذہانت بھی محنت ہی سے چمکتی ہے‘‘۔ کتنا صحیح جواب تھا، میں خاموش ہوگیا۔
مجاہد صاحب کی شخصیت ’’ادارہ ساز‘‘ ہے۔ انھوں نے کئی شعبے اور ادارے بنائے۔ شعبۂ صحافت کے قیام کے بعد انھوں نے قائداعظم اکادمی کو بنیاد سے اپنے پائوں پر کھڑا کیا، ملائشیا کی اسلامی یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ کی تعمیر و تشکیل میں ان کا حصہ رہا ہے، وہاں سے واپس آئے تو اسلام آباد کی اسلامی یونیورسٹی میں اسی شعبے کے خدوخال واضح کیے اور اس کے گیسو سنوارے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے علمی اور تحقیقی کاموں کو بھی جاری رکھا۔ اکثر علمی نوعیت کی مصروفیات علمی کاموں میں حارج ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ عملی کام اور معاملات فکر اور احساسات کے دھاروں کا رُخ دوسری طرف موڑ دیتے ہیں، علمی یک سوئی میں خلل ڈالتے ہیں۔ ایسی علمی شخصیات معدودے چند ہی ہوتی ہیں جو بیک وقت فکر و عمل میں یک سو ہوں۔ عملی معاملات نمٹا کر اس کا سوئچ آف کیا اور علمی کاموں کا سوئچ آن کرکے لکھنے پڑھنے بیٹھے تو توجہ بھٹکنے سے محفوظ رہ کر اسی طرف ملتفت رہی۔
ایک اور بات جس کی نشاندہی ضروری ہے۔ وہ لوگ جو علم کو حرزِ جاں بنالیتے ہیں، معاشی خودکفالتی کی طرف سے اکثر غافل ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ اُن کی مالی اور اقتصادی حالت دگرگوں اور ناگفتہ بہ ہوتی جاتی ہے، اور یوں ایک وقت آتا ہے جب ان اہلِ علم کی معاشی حالت کی دردناک تصویرکشی کی جاتی ہے، پھر اہلِ علم کی ناقدری کی ذمے داری معاشرے اور حکومت کے کھاتے میں ڈال کر ماتم کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اہلِ علم اپنے آپ کو اتنا قابلِ رحم بناتے ہی کیوں ہیں؟ وہ کیوں اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی طرف شروع ہی سے متوجہ نہیں ہوتے؟ مجاہد صاحب نے کوئی شبہ نہیں کہ علم و تحقیق کو اپنی ترجیح اوّل رکھا، لیکن اپنی معاشی حالت کو مضبوط کرنے کی طرف سے بھی وہ کبھی غافل نہیں رہے۔ جو کچھ کمایا، اسے بچایا بھی، اور جو بچایا اس کی سرمایہ کاری کے ذریعے آمدنی میں اضافے کی کوششیں کیں۔ ان کے واقف کاروں میں بھی بہت سے نہیں جانتے ہوں گے کہ مجاہد صاحب ایک عرصے سے شیئر کی خرید و فروخت کے حوالے سے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار سے وابستہ رہے ہیں اور اس معاملے میں ان کے مددگار ان کے ایک آدھ ایسے طالب علم ہیں جو اسی میدان کے کھلاڑی ہیں، وہ مجاہد صاحب کو مشورے دیتے ہیں کہ فلاں شیئر خرید لیجیے اور فلاں کو اب بیچ دیجیے کہ بیچنے کا وقت آگیا ہے۔ چناں چہ انھوں نے اپنی بہتر معاشی منصوبہ بندی سے اپنا ایک اچھا سا بنگلہ بنوایا، چار بچیوں کی شادیوں کی ذمے داری سے فارغ ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد گوشۂ عافیت میں ذہنی سکون و اطمینان کے ساتھ آج بھی لکھنے پڑھنے کے کاموں میں مصروف ہیں۔ انھوں نے اپنی صحت کی طرف سے بھی لاپروائی نہیں برتی۔ ان کا مضبوط گٹھا ہوا جسم، اعضا و جوارح سلامت، حافظہ قوی اور بڑھتی ہوئی عمر کے باوجود اپنے کم عمر ساتھیوں سے بھی زیادہ چاق و چوبند نظر آتے ہیں۔ ان کا حافظہ تو مثالی ہے جس کے دلچسپ واقعات ان کے سابق طلبہ آج بھی محفلوں میں سنا کر سننے والوں کو محظوظ کرتے ہیں۔ مثلاً اپنے کسی بھی شاگرد سے ان کی سرِ راہ ملاقات ہوجائے تو وہ اسے یہ بتا کر حیرت زدہ کردیں گے کہ تم سے آخری ملاقات کس سال، کس مہینے اور کس تاریخ کو کس جگہ ہوئی تھی۔ اکثر طلبہ یا اپنے رفقاء کی انھیں سالگرہ یا شادی کی تاریخ اور سال یاد رہتے ہیں۔ کسی کی بیٹی کب پیدا ہوئی تھی اور کس کے ابا کب مرے تھے، یہ ساری باتیں جزئیات کے ساتھ ذہن میں محفوظ ہیں۔ حافظہ کیا ہے؟ کمپیوٹر کی میموری ہے۔ جب عام زندگی میں ان کی یادداشت ایسے کرشمے دکھاتی ہے تو علمی معاملات میں خصوصاً لکھنے لکھانے کے وقت یہ یادداشت کتنا کام آتی ہوگی، اس بارے میں تو صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
میں نے مجاہد صاحب میں چند باتیں ایسی دیکھی ہیں جو سیکھنے والی ہیں۔ مثلاً میں نے انھیں ہمیشہ مصروف پایا ہے، کسی نہ کسی علمی کام میں مصروف۔ حالات کا رونا روتے ہوئے انھیں کبھی نہیں دیکھا۔ غالباً دونوں باتیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ بامقصد زندگی گزارنے والے مصروف آدمی کو حالات کی سختی کا ماتم کرنے کی فرصت ہی کب ملتی ہے۔
جب تک مجاہد صاحب کی درس و تدریس سے وابستگی رہی، ان کا موضوعِ تحقیق بالعموم صحافت اور اس سے منسلکہ مسائل رہے۔ قائداعظم اکادمی کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد انھوں نے قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کو اپنی تحقیق و تصنیف کا مرکز و محور بنالیا۔ ان کی بلند پایہ محققانہ کتاب ’’دی آئیڈیالوجی آف پاکستان‘‘ پہلی مرتبہ 1974ء میں چھپی تھی۔ علمی حلقوں میں اس کی پذیرائی کا اندازہ اسی سے کیجیے کہ اب تک اس کے چار ایڈیشن وقفے وقفے سے نکل چکے ہیں۔ آخری ایڈیشن 2014ء میں شائع ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہر ایڈیشن ان کی نظرثانی اور اضافے کے ساتھ چھپا ہے۔ مجاہد صاحب کو انگریزی زبان پر غیر معمولی اور قابلِ رشک حد تک دسترس حاصل ہے۔ لکھتے ہوئے وہ کفایت ِلفظی کا اس درجہ خیال رکھتے ہیں کہ کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ معنی سمونے کی کوشش رہتی ہے۔ مجال ہے جو کسی جملے میں کوئی ایک لفظ، پورا جملہ تو چھوڑیے، کوئی ایک لفظ بھی زائد از ضرورت استعمال کرلیں۔ ہر جملہ اور ہر فقرہ نپا تُلا اور ٹھُکا ہوا ہوتا ہے، لفظوں کو تحریر میں اس طرح لاتے ہیں جیسے دیوار میں اینٹیں چُنی جاتی ہیں۔ لہٰذا زبان و بیان اور معنی و مفہوم کے اعتبار سے ان کی تحریر ایسی مستحکم ہوتی ہے جیسے کوئی کنکریٹ کی دیوار۔ اسلوب کی سنجیدگی اور عالمانہ وقار اس پر مستزاد۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مقالات و مضامین کی پذیرائی جیسی اپنے ملک میں ہوئی، ویسی ہی یا اس سے کہیں زیادہ بیرونی دنیا میں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لکھتے یا تحقیق کرتے ہوئے مجاہد صاحب کی توجہ کا ارتکاز اپنے موضوع کے بنیادی ماخذ پر ہوتا ہے۔ شاید ہی اس موضوع پر لکھی جانے والی کوئی بھی تحریر، مضمون یا کتاب ایسی ہو جو ان کی مجتسس و متلاشی نگاہوں سے نہ گزری ہو۔ اپنی نوجوانی کے زمانے کا ایک واقعہ انھوں نے مجھے سنایا تھا کہ ریڈیو اسٹیشن پر وہ کسی کتاب کے مطالعے میں غرق تھے کہ معروف شاعر ن م راشد نے انھیں دیکھا اور پوچھا: ’’کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘
مجاہد صاحب نے کہا: ’’ناول‘‘
ن م راشد صاحب نے کتاب ان کے ہاتھ سے لی، اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر فرمایا: ’’مگر یہ کوئی علمی کتاب تو نہیں ہے!‘‘
اس فقرے نے مجاہد صاحب کے ذہنی اشتغال پر کیا اثر ڈالا، اس کی وضاحت تو انھوں نے نہیں کی لیکن میں نے یہ جانا کہ لکھنے لکھانے والوں کو بھی اپنے ذہنی اُفق کو وسیع کرنے اور اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں گہرائی پیدا کرنے کے لیے محض ادبی کتابوں تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہیے کہ ادب یعنی ناول، شاعری اور افسانہ لکھنے والے کے اسلوب پر تو اثرانداز ہوتے ہیں لیکن علم و آگہی تو علمی کتابوں ہی سے میسر آتے ہیں۔
پچھلے دنوں مجھے یہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ مجاہد صاحب واش روم میں گر پڑنے کی وجہ سے صاحبِ فراش ہیں۔ استادِ محترم پروفیسر زکریا ساجد صاحب کے ہمراہ ان کی عیادت کے لیے جانا ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شدید معذوری کی حالت میں بھی لکھنے پڑھنے کی مصروفیت انھوں نے جاری رکھی ہوئی تھی، بلکہ ایک آدھ روز پہلے ہی ان کا مضمون ’’ڈان‘‘ میں چھپا تھا۔ میں نے شکوہ کیا: ’’سر ہمیں حادثے کی خبر ہی نہ ہوسکی‘‘۔ کہنے لگے: ’’بھئی میں نے جان بوجھ کر کسی کو اس کی اطلاع نہیں دی۔ جو سنتا ہے اخلاقاً عیادت کے لیے چلا آتا ہے۔ اس سے آنے والے کو پریشانی ہوتی ہے اور میرا وقت الگ ضائع ہوتا ہے‘‘۔
بھلا بتائیے وقت کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت کا یہ احساس اس ملک کے ایک اسکالر کو تھا جس ملک میں وقت کو پانی کی طرح بہایا جاتا اور اس طرح ضائع کیا جاتا ہے جیسے اس کی کوئی وقعت ہی نہ ہو، ہمیں ہمیشہ دنیا میں رہنا ہو، یہاں سے کبھی واپسی کا سفر ہی اختیار نہ کرنا ہو۔ میں چُپ ہوگیا۔ سوچا: یااللہ! وقت کے صحیح استعمال کا یہ سلیقہ اور شعور جو مجاہد صاحب میں ہے، اس کی ہلکی سی ایک چھینٹ ان کے اہلِ وطن پر بھی ڈال دے تاکہ وہ وقت ہی کو نعمت سمجھیں اور مایا کے پیچھے اندھا دھند بھاگنا چھوڑ دیں کہ وہ بھی تو ایک سراب ہی ہے، ایک فریب جس کے سحر میں گرفتار ہوکر ہم نے علم کا دامن چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں خوار و زبوں حال ہیں۔ مجاہد صاحب کی ساری کامیابیاں اور عزت و وقار خواہ ملک ہو یا بیرون ملک اسی علم دوستی میں مضمر ہیں!۔