۔ ’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔
احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449
سیدطاہر رسول قادری
۔”جو شخص توبہ کرکے نیک عملی اختیار کرتا ہے، وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔ اور (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گزر جاتے ہیں، جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں رہیں گے۔ کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر، وہ مقام۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہو، میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو۔ اب کہ تم نے جھٹلا دیا ہے۔ عنقریب وہ سزا پائو گے کہ جان چھڑانی محال ہو گی۔“
(سورۃ الفرقان 71 تا 77۔ تفہیم القرآن۔ جلد سوم، ص 467)
پہلی آیت میں جو بات کہی جارہی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر اعتبار سے اصلی مرجع ہے، اس سے دعا بھی کی جائے، اس سے گناہوں سے بچنے کے لیے مدد بھی طلب کی جائے، اور گناہ ہوجانے کی صورت اس سے معافی بھی مانگی جائے۔ یعنی فطرت کے اعتبار سے بھی، اخلاقی حیثیت سے بھی، اور نتیجے کے اعتبار سے بھی اس کی بارگاہ کی طرف پلٹنا انسان کے لیے مفید ہے، ورنہ کوئی دوسری جگہ ایسی نہیں جدھر رجوع کرکے وہ سزا سے بچ سکے یا ثواب پا سکے۔
عبادالرحمٰن کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ بے جا مصروفیتں نہیں بڑھاتے اور اپنے وقت کے قدردان ہوتے ہیں۔ لغو، فضول، لایعنی اور بے فائدہ باتوں اور کام میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ وہ جان بوجھ کر اس طرح کی چیزیں دیکھنے یا سننے یا ان میں حصہ لینے کے لیے نہیں جاتے، اور اگر کبھی ان کے راستے میں ایسی کوئی چیز آجائے تو ایک نگاہِ غلط انداز تک ڈالے بغیر اُس پر سے اس طرح گزر جاتے ہیں جیسے ایک نفیس مزاج آدمی گندگی کے ڈھیر سے گزر جاتا ہے۔ ایک نیکوکار صالح مزاج انسان کو یہ گوارا نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت سفلی جذبات کی ناجائز تسکین میں برباد کرے۔ زمانے کے حالات سے چونکہ وہ بے خبر نہیں رہ سکتا، اس لیے اخبارات کا مطالعہ، ریڈیو اور ٹی وی کی خبریں یا مفید پروگرام دیکھ لیتا ہے۔ لیکن اس سے مقصد حظ لینا نہیں ہوتا، بلکہ وقت اور حالات کا جائزہ لینا اور اصلاحِ احوال کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہوتا ہے۔
ان بندگانِ خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ کھلی آنکھ، کھلا دل، اور عبرت و موعظت حاصل کرنے والا فکر ودماغ رکھتے ہیں، اچھی باتوں کو قبول کرنے والے اور بری باتوں سے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ آیاتِ الٰہی، فرامین اور ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں۔ جس چیز کو فرض قرار دیا گیا ہو اسے بجا لاتے ہیں۔ جس چیز کی مذمت کی گئی ہو اس سے رک جاتے ہیں۔ عذاب کے نام سے خوف زدہ اور ثواب کے کاموں کے لیے سرتاپا آمادہ ہوتے ہیں۔ وہ گونگے بہرےجانور نہیں ہوتے جو نہ سنتے اور نہ سمجھتے ہیں۔
اور عبادالرحمٰن امنگوں والے، خوش مزاج اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔ گئے گزرے معاشرے میں، ریڈیو، ٹی وی، فحش لٹریچر، رومانی ناولوں اور جاسوسی ڈائجسٹوں، بے پردگی کے ماحول اور دکھاوے کی زندگی رکھنے والوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی اپنے بیوی بچوں کی تربیت سے غافل نہیں رہتے۔ ان کے رجحانات کی طرف سے آنکھیں بند کیے نہیں رکھتے۔ ان کی مصروفیتیں اور مشاغل کیا ہیں، اس سے بے خبر نہیں رہتے۔ اپنی حد تک اُن کی تعلیم، تربیت اور اصلاح کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اُن کے لیے دعائیں بھی کرتے ہیں کہ بارِالٰہ میری بیوی اور میرے بچوں کو ایمان اور عملِ صالح کی توفیق دے، اور پاکیزہ اخلاق سے ان کو آراستہ کر۔ خداوند اُن کی بے پردگی کا حسن و جمال مجھے پسند نہیں، تُو اس کو اُن کے لیے بھی ناپسند بنا دے۔ دوزخ کی طرف لے جانے والے اعمال اور حرام کی کمائی سے ان کی بھری ہوئی جیبیں مجھے سخت ناپسند ہیں، میرے مالک ان سے بچنے کی اُن کو توفیق عطا فرما۔ فضولیات میں جو اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور غلط راہوں پر لگانے والی جو کتابیں اوررسالے وہ پڑھتے ہیں، میرے آقا اُن کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا کردے۔ میرے اللہ میں اُن کی بھلائی کے لیے جو کچھ ہوسکا کرچکا، اب تُو ہی اپنے فضل و کرم سے اُن کو پارسا، متقی اور نیک بنا، اور اُن کی اولاد کو بھی تاکہ تیرے نزدیک میرا شمار متقیوں کے امام اور نیکوں کے پیشوا میں ہو سکے۔
اور یہ ساری صفات گنوانے اور عبادالرحمٰن کا قرآنی تعارف پیش کرنے کے بعد جو اہم ہدایت دی جارہی ہے وہ یہ کہ انسان بلاشبہ اپنے کردار کو خود سے سنوار سکتا ہے، بھلائی کو پہنچنے کی کوششیں کرسکتا ہے، سیرت سازی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ جلال و جمال، وہ روح پر نظمِ زندگی، عبادت میں اخلاص، ذکر میں سوز اور عمل میں وارفتگی صرف علم و شعور اور آگہی سے پیدا نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے دعائوں کی بھی ضرورت ہے۔
دعا عبادت بھی ہے اور التجا بھی، اور اپنی بے بسی اور حاجت مندی کا اظہار بھی۔ دعا ایک رشتہ ہے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان۔ دعا عزت ہے، دعا محویت ہے، دعا سنگریزے کو گہر بنا سکتی ہے اور مریض کو موت کے منہ سے چھین کر واپس لا سکتی ہے۔ دعا اور اللہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے۔ دعا اللہ کی پسند اور ہماری ضرورت ہے۔ دعا نبیوں کی التجا ہے اور گناہ گاروں کا آسرا ہے۔ دعا سے محروم ہر چیز سے محروم ہے۔ دعا روحِ عبادت اور خدا کو محبوب ہے۔ اسی دعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے: ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہو میرے رب کو تمہاری کیا حاجت پڑی ہے اگر تم اس کو نہ پکارو! یعنی لوگو، اگر تم اللہ سے دعائیں نہ مانگو اور اپنی حاجات کے لیے اس کو مدد کے لیے نہ پکارو تو پھر تمہارا کوئی وزن بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ پرکاہ کے برابر بھی تمہاری پروا کرے۔ محض مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پتھروں میں کوئی فرق نہیں۔ تم سے اللہ کی کوئی حاجت اٹکی ہوئی نہیں کہ تم بندگی نہ کرو گے تو اس کا کوئی کام رکا رہ جائے گا۔ اس کی نگاہِ التفات کو جو چیز تمہاری طرف مائل کرتی ہے وہ تمہارا اس کی طرف ہاتھ پھیلانا اور اس سے دعائیں مانگنا ہی ہے۔ یہ کام نہ کرو گے تو کوڑے کرکٹ کی طرح پھینک دیے جائو گے۔