خالد مقبول صدیقی کی وفاقی کابینہ سے علیحدگی، پس پردہ عوامل کیا ہیں؟۔

سندھی زبان کے قدیم اور کثیرالاشاعت روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد میں بروز منگل 14 جنوری 2020ء کو معروف تجزیہ نگار نسیم بخاری نے صوبہ سندھ کی حالیہ سیاست کے حوالے سے محولہ بالا عنوان سے جو کالم لکھا ہے اس کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
………٭٭٭………

’’وفاقی حکومت کی جانب سے ناراض ایم کیو ایم کو منانے کے لیے اسد عمر کی قیادت میں ایک وفد خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کرکے انہیں راضی کرنے کی خاطر کراچی بھیجا گیا ہے۔ لیکن اس بات چیت نے پھر بھی صلح اور راضی نامے کا اعزاز حاصل نہیں کیا ہے۔ بہادر آباد پہنچنے والے اس وفد کو خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں نے یہ کہہ کر مایوس کر ڈالا ہے کہ ’’آپ ملاقات میں وعدے وعید تو خوب کرتے ہیں لیکن ایفائے عہد نہیں کیا کرتے۔ مطالبات، تحفظات اور تحریری معاہدے پر مکمل عمل تاحال نہیں ہوا ہے۔ ہمیں نری باتیں نہیں بلکہ نتائج بھی چاہئیں۔‘‘
ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے الگ ہوتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پی ٹی آئی سے طے شدہ نکات میں سے کسی ایک بھی نکتے پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ پارٹی رہنمائوں کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنی وزارت چھوڑ رہا ہوں، ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ وفاقی حکومت بنانے میں مدد کی تھی لیکن ہم سے کیے گئے وعدے تاحال وفا نہیں ہوسکے ہیں۔ جہانگیر ترین کے ذریعے حکومت کے ساتھ وعدہ ہوا تھا۔ ایک معاہدہ بنی گالا اور دوسرا بہادر آباد میں ہوا تھا۔ اب وفاقی کابینہ میں بیٹھنے کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے، کیوں کہ وزارت میں ہونے کے باوجود کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل سکا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فروغ نسیم کی وزارت ایم کیو ایم کے کوٹے پر شمار کی جاتی ہے لیکن ہم نے تو قانون اور انصاف کی وزارت نہیں مانگی تھی۔ ہم نے وزارتوں کے لیے جونام دیے تھے ان میں فروغ نسیم کا نام ہی شامل نہیں تھا۔ انہیں اس لیے وزارتِ قانون دی گئی ہے کیوں کہ حکومت کو ایک ایسے وکیل کی ضرورت تھی جو اس کے کیس کو اچھے طریقے سے لڑ سکے، لہٰذا فروغ نسیم خود حکومت کا انتخاب تھے۔
وفاقی وزیر ترقیات اور منصوبہ بندی اسد عمر نے خالد مقبول صدیقی کی مذکورہ پریس کانفرنس کے ردعمل میں کہا تھا کہ حکومت سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ ایم کیو ایم کا نہیں بلکہ موصوف کا ذاتی فیصلہ ہے۔ لیکن اب جب اُن کی زیرقیادت حکومتی ٹیم جاکر بہادر آباد میں دیگر ایم کیو ایم رہنمائوں سمیت ان سے بھی ملی ہے اور انہیں کہا ہے کہ مسائل حکومت سے الگ ہونے سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ اکٹھا ہوکر اور مل بیٹھنے، باہمی گفت و شنید کرنے سے حل ہوں گے۔ اس طرح سے یہ بات بھی اب واضح ہوگئی ہے کہ معاملہ کسی فردِ واحد کی خواہش کا نہیں بلکہ ایم کیو ایم پاکستان کی مشترکہ باہمی مشاورت کا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد کچھ عرصے ایم کیو ایم خاموشی کے ساتھ اس کا ساتھ دیتی آئی ہے۔ دو تین مرتبہ کراچی کو الگ کرنے کی بات بھی کی گئی۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے کراچی آکر ایم کیو ایم کے اس ایجنڈے کی مخالفت کی اور ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے ارادے کو ایک طرح سے ناممکن العمل بھی قرار دیا۔ اب جب کہ ایم کیو ایم نے وفاقی سرکار سے الگ ہونے کا سوچا ہے تو اس کی جانب سے علیحدگی کے اس ارادے نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔ ایم کیو ایم کے سوا سال تک خاموشی اپنائے رکھنے کے بعد اس کا یوں باغی ہوجانا یقینی طور سے خطرے کی ایک گھنٹی ہے۔ خطرہ جب بھی عیاں اور ظاہر ہو لیکن اس متوقع خطرے کی گھنٹیاں بہرحال ابھی سے ہی بجنا شروع ہوگئی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کی حالیہ ناراضی کے پسِ پردہ اسے کسی نہ کسی طاقتور ادارے کی سرپرستی حاصل ہے، اور یہ اسے ملنے والے اشارۂ ابرو کا ہی عمل دخل ہے کہ پہلی مرتبہ ایم کیو ایم پاکستان کو ایک اہتمام کے ساتھ وفاقی حکومت سے ناراض ہوکر اس سے الگ ہونے کا یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ ایم کیو ایم کے مان جانے اور ناراض ہونے کی ماضی کی کئی حکومتوں سے تعلق رکھنے والی تاریخ سب اہلِ جہاں کے سامنے ہے، اور کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم اپنے واضح اور براہِ راست مطالبات وقت کی ہر حکومت سے اب تک منواتی چلی آئی ہے، بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر اس کے ایسے مطالبات اور ضروریات حکومتیں خود بھی پوری کرتی رہی ہیں جو آج تک ریکارڈ کا حصہ بن سکے ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں متعلقہ فریق ذکر بھی کرتا ہے۔
اندرونِ خانہ ایم کیو ایم حکومتوں سے جو کچھ بھی لیتی رہی ہے، وہ دراصل ظاہری طور پر اُسے ملے ہوئے ریلیف سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی یہ عادتِ ثانیہ ہے کہ وہ فوائد بھی سمیٹتی ہے اور روتی چلّاتی بھی خوب ہے۔ وہ اس وقت بھی اپنی سابقہ روش پر ہی گامزن ہے۔ ایک جانب خالد مقبول صدیقی حکومت میں اپنی حصہ داری کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب کابینہ سے اپنے الگ ہونے کے فیصلے پر قائم و دائم ہیں۔ یعنی عجیب طرفہ تماشا ہے کہ وفاقی حکومت کا ایم کیو ایم حصہ بھی ہوگی اور ظاہری طور سے اس سے علیحدہ بھی۔ اس صورتِ حال پر جب غور کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایم کیو ایم یہ سب کچھ کیوں اور کس لیے کررہی ہے؟ ایم کیو ایم بظاہر بھلے سے کابینہ کے اجلاس میں شریک نہ ہو، بے شک خالد مقبول اپنے دفتر میں تشریف فرما نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود ایم کیو ایم کے گھر بیٹھے ہی سارے امور بحسن وخوبی سرانجام پاتے رہیں گے۔ وہ اپنے ووٹرز اور چاہنے والوں کو بھی اپنے انقلابی اور عوام دوست ہونے کے تاثر کو تقویت دیتی رہے گی۔ ویسے بھی بلدیاتی الیکشن اب قریب آگئے ہیں۔ ایم کیو ایم چاہے گی کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے دائو پیچ آزما کر اپنے حامیوں اور لوگوں میں اپنی ساکھ بنائے۔ ایم کیو ایم کو گزشتہ عام انتخابات میں کراچی میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں جو سیاسی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے، اس کے اثرات ایم کیو ایم تاحال اپنا پیچھا نہیں چھڑا سکی ہے۔ لہٰذا اب وہ اس امر کی خواست گار ہے کہ اسے بلدیاتی انتخابات میں عام انتخابات کی طرح سے زبردست سیاسی نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بلاشبہ پی ٹی آئی سرکار نے اپنے سوا سال کے عرصۂ اقتدار میں اپنے ووٹرز اور عوام کو مایوسی سے دوچار کیا ہے، اور اس بات کے امکانات بھی اس وجہ سے بہت کم دکھائی دیتے ہیں کہ اسے بلدیاتی انتخابات میں عام انتخابات کی طرح سے ہی پذیرائی مل سکے گی۔ اس کے باوصف ایم کیو ایم کو یہ آسان لگتا ہے کہ وہ اقتدار میں بھی رہے اور اقتدار سے باہر رہنے کا اپنا تاثر بھی قائم رکھے تاکہ عوام کا ووٹ اس کے ماضی کے سیاسی تسلط کو برقرار رکھنے میں مطلوبہ اہم کردار ادا کرے۔
کچھ عرصہ پیشتر ایم کیو ایم کو بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی حکومت سے الگ ہوکر سندھ حکومت کا حصہ بننے اور اپنی پسند کی وزارتیں حاصل کرنے کی پیشکش کی تھی، جس پر ایم کیو ایم کا ملا جلا ردعمل بھی سامنے آیا تھا۔ اب ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی سے الگ ہونے کی براہ راست بھلے سے دھمکی نہ دی ہو، تاہم وزارت چھوڑنے کا کہہ کر ایک طرح سے پی پی کو سیاسی بارگیننگ کرنے کی دعوت بہرکیف ضرور دے دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خالد مقبول صدیقی اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنما یہ تردید کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں کہ وزارت چھوڑنے والی بات کا پی پی کی جانب سے کی گئی پیشکش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تعلق ہو یا نہ ہو، لیکن ایم کیو ایم کا عمل پی پی کے لیے ایک اشارہ ہے۔ اس اشارے کی روشنی میں پی پی اگر ایم کیو ایم سے کوئی سنجیدہ اور فائدے پر مبنی بات چیت کرتی ہے تو ایسی پیشکش کو قبول کرلیا جائے گا۔ ایم کیو ایم وفاقی سرکار سے الگ ہونے سے قبل پی پی سے ضمانتیں طلب کرے گی اور اپنے نفع و نقصان کا بھی اس حوالے سے وہ خوب جائزہ لے گی۔
ایم کیو ایم نے وزارت سے دست بردار ہونے کا کہہ کر غیر مرئی ضمانت دہندگان کو بھی یہ سندیسہ بھیجا ہے کہ وفاقی حکومت سے ساتھ نبھا کر انہیں ماسوائے آسروں اور وعدوں کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا ہے، اس لیے نہ صرف ہماری وکالت کی جائے بلکہ ہماری مناسب مالکی بھی کی جائے (یعنی ہمارا ساتھ بھی دیا جائے۔ مترجم) ایم کیو ایم کو حسبِ منشا نتائج ملتے ہیں یا نہیں، یہ تو خبر نہیں ہے، لیکن یہ یقین ضرور ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے دل کا بوجھ اس طرح سے ضرور ہلکا کرلیا ہے اور اپنے ووٹرز اور حامیوں کے سامنے اپنی پوزیشن کلیئر کرکے اپنا اعتماد بحال کرنے کے حوالے سے ایک برمحل قدم ضرور اٹھایا ہے۔
ایم کیو ایم کی وزارت چھوڑنے والی پریس کانفرنس کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر ناصر علی شاہ نے کہا ہے کہ بلاول کی ایم کیو ایم کو پیشکش تاحال برقرار ہے۔ سعید غنی فرماتے ہیں کہ ایم کیو ایم کو حکومت سے الگ ہونے اور وزارتیں چھوڑنے کا فیصلہ بہت پہلے ہی کرلینا چاہیے تھا۔ پی پی کے صوبائی وزراء کا مذکورہ ردعمل یہ ثابت کررہا ہے کہ سندھ سرکار ایم کیو ایم کے بارے میں کتنی مضطرب اور بے قرار ہے، اور اس کے استقبال کے لیے کس طرح سے اور کس قدر اپنے بازوئوں کو وا کیے ہوئے منتظر نگاہوں سے اس کی اپنی جانب آمد کے لیے راہیں تک رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے فوری طور پر وفاقی حکومت کا ایم کیو ایم کی طرف وفد بھیجنا بھی اس بات کا غماز ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی آنکھوں سے بھی نیند اڑ چکی ہے۔ وہ کسی صورت میں بھی ایم کیو ایم کی علیحدگی نہیں چاہتی، بھلے سے اس کے لیے اُسے کتنی بڑی قربانیاں ہی کیوں نہ دینی پڑیں۔ پی ٹی آئی نہ صرف ظاہر ظہور (کھلے عام) ایم کیو ایم کے ساتھ کے لیے مضطرب دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ اندرونِ خانہ بھی ایم کیو ایم کو عیش کرواتی رہی ہے۔ اور یہ نہیں ہے کہ صرف عمران خان کی حکومت نے اس طرح سے کیا ہے، بلکہ ماضی میں پی پی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتیں بھی ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ کے باعث اس کے سارے جائز و ناجائز مطالبات تسلیم کرتی رہی ہیں، اور ایم کیو ایم اس کے نتیجے میں ہر دور میں فوائد اور ثمرات سمیٹتی رہی ہے۔
ایم کیو ایم کی طرف سے وزارتیں چھوڑنے کا حالیہ فیصلہ، اور اس اعلان کے ردعمل میں حکومتی وفد کی منت سماجت کو مان (اہمیت) نہ دینا واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہمہ جہت فوائد کی متلاشی ہے، اور وہ ماضی کی حکومتوں کا خود سے روا رکھا گیا لاڈلا پن اور اپنی سابقہ دادا گیری حال میں بھی دیکھنا چاہتی ہے، اور اسے اگر اس کے حساب کے مطابق لفٹ ملنے لگی تو وہ لاڈلی اور دادگیر ہوکر پھر سے خود کو دکھانے میں بھی قطعی دیر نہیں کرے گی۔
ایم کیو ایم اس وقت سہ طرفی محاذ پر اپنا سیاسی کھیل، کھیل رہی ہے۔ ایک طرف تو وہ اقتداری حصہ داری میں ضامن بننے والوں کی نہ صرف اپنی جانب توجہ مبذول کروا رہی ہے بلکہ مطلوبہ داد بھی مانگ رہی ہے، دوسری طرف وہ وفاقی سرکار کو بھی امکانی خطرات کی گھنٹیوں سے خوفزدہ کرنے میں مصروف ہے، تیسری جانب وہ نئی دوستی کے لیے بھی پیپلزپارٹی کو اپنی سمت مائل کرکے للچا رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھلے سے وفاقی حکومت سے الگ نہ ہو لیکن اس طرح سے کرکے اُس نے پی پی کو نئے خواب ضرور دکھا دیے ہیں۔ یہ سپنا اپنی تعبیر پائے یا نہ پائے لیکن پی پی نے تبدیلی سرکار کو گرانے اور ایک مرتبہ پھر سے وفاقی حکومت تشکیل دینے کے لیے سنجیدہ سوچ بچار کرنا شروع کردی ہے۔