قائد نے بھانپ لیا کہ جب تک مسلمانوں کی سرگرمیاں گفت و شنید تک محدود رہیں گی الفاظ کا ایچ پیچ جاری رہے گا۔ چنانچہ انھوں نے ’’راست اقدام‘‘ کا آوازہ بلند کیا اور قوم سے کہا کہ 16 اگست کو ملک بھر میں احتجاجات کیے جائیں۔ انگریز سے ناراضی کا یہ اسلوب اختیار کیا کہ اس کے عطا کردہ تمغے اور خطابات واپس کردیے۔ جن اعزازات کے حصول کے لیے بعض خاندان تین تین پشتوں سے انگریز کے آستان سے لگے بیٹھے تھے انہیں بلاتامل واپس کردیا۔ یہ خبر جب حسین صاحب کے ہاتھ میں آئی تو انھوں نے اس پر یہ سرخی جمائی Damned be these Tinsels! ’’لعنت دھات کے ان چمکدار ٹکڑوں پر‘‘۔
ہندو اس عرصے میں یہ سب کچھ بڑی تشویش سے دیکھ رہا تھا اور بڑی سرگرمی سے تیار ہورہا تھا۔ کلکتے میں اُن کی تیاری بے پناہ تھی۔ چنانچہ جب 16 اگست کو مسلمان اپنے بچوں کو انگلی لگا کے مرنجاں مرنج جلسے میں پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ ملک کے مہیب ترین کشت و خون کا شکار ہوگئے ہیں۔ اور جگہ تو فسادات ہورہے تھے، کلکتے میں قتلِ عام ہوا۔ اسٹیٹسمین نے اسے ہلاکت ِ کبریٰ کا نام دیا۔ اس نے ایک ایک دن میں دو دو اداریے اس پر تحریر کیے، اور طرہ یہ کہ جو قوم اس معرکے کے لیے ایک مدت سے تیار ہورہی تھی اسے بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندو اخباروں کے علاوہ جو سراسر الزام مسلمانوں کے سر تھوپ رہے تھے، اسٹیٹسمین جیسے جریدے نے بھی کہ جس کا نظم و نسق بھی انگریز مدیروں کے ہاتھ میں تھا۔ اسی رو میں بہ جانے میں اپنی عافیت سمجھی۔
حسین شہید سہروردی صوبے کے وزیراعلیٰ تھے۔ سہروردی اگرچہ ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس میں علم کا چرچا تھا اور جو عوامی سیاست کی سخت کوشیوں سے دور تھے تاہم ان میں بلا کا حوصلہ تھا۔ وہ عامۃ الناس میں گھل مل جانے کی غیر معمولی قدرت رکھتے تھے۔ انھوں نے کھلی موٹروں میں اور پولیس کی گاڑیوں میں فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا، لیکن ہندوئوں کی تیاری اس پیمانے پر ہوچکی تھی کہ حکومت کی مشینری کئی روز تک مفلوج رہی، چنانچہ کلکتے کی گلیوں میں مسلمانوں کا خون بہتا رہا اور ان کی لاشیں بدروئوں کی نذر ہوتی رہیں۔
یہ فساد ایک تنبیہ تھی مسلمانوں کو، کہ اگر تقسیم پر ضد کا زیادہ مظاہرہ کیا گیا تو حساب یوں بھی چکایا جاسکتا ہے۔ کلکتے کے فسادات نے ہندو کو اور بھی خون آشام بنادیا اور مسلمانوں کے سامنے متحدہ قومیت کا تصور پاش پاش کردیا۔ مسلمانوں کے ذہن میں دو قومی نظریہ اتنا راسخ ہوچکا تھا کہ ہندو نہ خوشامد سے اور نہ تنبیہ سے اُسے شکست دے سکتا تھا۔ کلکتے کے فسادات نے فی الحقیقت ہندوستان میں خانہ جنگی کا دروازہ کھول دیا۔ وحشت ناک خبریں دہلی پہنچنے لگیں تو الطاف حسین صورتِ حال دیکھنے کے لیے ہوائی جہاز سے کلکتے گئے۔ ہوائی سفر چونکہ ابھی اتنا عام نہیں ہوا تھا اس لیے اسے بڑی اہمیت دی گئی۔ ہم منتظر تھے کہ کیا خبر لاتے ہیں۔ ہفتہ بھر کے قیام کے بعد پہلا ردعمل جو انھوں نے دفتر پہنچتے ہی دیا وہ کمیونسٹوں کے خلاف غم و غصہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سارے خون خرابے میں ان کا ہاتھ ہے اور مسلمان بالخصوص ان کا نشانہ بنے ہیں۔ معلوم نہیں الطاف حسین کا تاثر کہاں تک درست تھا، البتہ یہ بات باعث ِحیرت ہوئی کہ حقِ خودارادیت کی حمایت میں جس جماعت نے اپنی آواز مسلمانوں کی آواز میں شامل کر رکھی تھی اس کا رویہ یہ تھا۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ دل اب بھی اُن کے وہیں تھے جہاں صدیوں سے پڑے ہیں۔ ان کے تازہ عقائد پر ان کی دیرینہ عصبیت غالب آگئی۔
صورت ِحال اب یہ ہوگئی کہ ہر سانحے کا ایک ردعمل ہوتا اور ہر ردعمل ایک اور سانحے کو جنم دیتا۔ کلکتے کے بعد مشرقی بنگال کے مسلمانوں نے نواکھلی کے پورے خطے کو خون میں نہلادیا۔ ہندوئوں نے بہار اور گڑھ مکتیشر میں انتقام لیا۔ بہار کی بستیوں کے کنویں عورتوں کی لاشوں سے بھر گئے، جو بچ گئیں ان کی عصمت دری مساجد میں کی گئی۔ گڑھ مکتیشر کے میلے میں ابلتے ہوئے کڑھائوں کے نیچے ایندھن کے ساتھ مسلمان بھی جلے۔ جو میلے کی آگ سے بچے وہ گنگا کے پانی میں ڈوب گئے۔
ہمارے بہار کے رہنے والے رفیقِ کار شمس الدین اسی افراتفری میں اپنے وطن جانکلے۔ واپس آئے، کہنے لگے کہ اپنی ایک عزیزہ کی جیب میں، میں نے اتفاق سے ایک پڑیا دیکھ لی۔ پوچھا کیا ہے؟ کہنے لگیں: نہ معلوم کب اپنی آبرو کی حفاظت کرنی پڑ جائے۔
بہار کے فسادات میں جے پرکاش نارائن جیسے بڑے بڑے وسیع مشربوں کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا اور وہ بھی خنجر بدست جتھوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے دکھائی دیے جب تک یہ خطہ آتش بداماں رہا۔
رہنما یہاں سے دور رہے۔ان کے بعد گاندھی جی اور خان عبدالغفار خان نے علیحدہ علیحدہ دورے کیے لیکن ان کی شیریں بیانیاں زخموں کو مندمل نہ کرسکیں۔
……٭٭٭……
ان فسادات نے ایک بات تو واضح کردی کہ مسلمانوں کی رضامندی کے بغیر ہندوستان کے قضیے کا حل ناممکن ہے۔ پھر سے سلسلہ جنبانی ہوئی۔ تاہم ستمبر میں کانگریس نے مرکز میں اپنی حکومت بنالی۔ اس دن کو مسلمانانِ دہلی نے یوم سیاہ کہا۔ مسجدوں، دکانوں، درسگاہوں پر سیاہ جھنڈے لہرائے گئے، اور جب 2ستمبر کا سورج طلوع ہوا تو دلی کی بھیگی ہوئی فضا میں ہر اونچی عمارت پر ایک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ یہاں تک کہ نئی دلی کے انڈیا گیٹ پر بھی ایک جھنڈا نصب کردیا گیا۔ ڈان نے اگلی صبح تصویر شائع کی اور اگرچہ اس کوشش کو کسی نامعلوم مجاہد سے منسوب کیا، تاہم ہم جانتے تھے کہ وہ جواں سال حمید ہاشمی تھے۔
نہرو نے ملک کی صورت حال کا اندازہ لگانے کے لیے دورہ شروع کیا اور فرنٹیئر جانکلے۔ خان عبدالغفار خان ساتھ تھے۔ ڈان کی جانب سے میاں محمد شفیع صورت حال دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر گولیوں میں ان دونوں کا بچ نکلنا پٹھان کی مہارت کی دلیل تھی کہ کوئی گولی انھیں نہ چھو سکی اگرچہ چاروں جانب گولیوں کی بارش ہورہی تھی۔ نہرو مایوس لوٹے۔ صوبہ سرحد بھی اب ان کے ہاتھ میں نہیں تھا۔
وائسرائے نے اکتوبر میں پھر حالات سلجھانے کی کوشش کی اور کانگریس کو سمجھایا کہ جب تک وہ کیبنٹ پلان نہیں مانتی ملک کی سیاست ایک طویل بحران بن کے رہ جائے گی جس کے خلا کو کشت و خون بھرتا رہے گا۔ کانگریس اس بات پر ویول سے ناراض ہوگئی۔ گاندھی جی کی اس یقین دہانی پر کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے (اور جس یقین دہانی کے بعد وہ پچھتائے بھی بہت) قائد عبوری حکومت میں شامل ہونے پر رضامند ہوگئے۔ جب وزارتوں کی تقسیم ہوئی تو خارجہ تعلقات، ہوم اور ڈیفنس کانگریس کے پاس رہے۔ صحت، تجارت اور مواصلات کے محکمے لیگ کے ہاتھ آئے۔ ایک ٹھکانے کا محکمہ مالیات کا خان لیاقت علی خان کو ملا۔ بڑی مایوسی ہوئی۔ پچھلے پہر الطاف دفتر آئے تو پوچھنے لگے: تمہارا کیا خیال ہے؟ ہم سب نے کہا ان بے کار محکموں کو لینے کا مطلب، جب طمطراق اور اختیارات کے سب محکمے کانگریس کے پاس رہے ہیں؟ الطاف خود کبیدہ خاطر تھے۔ کہنے لگے: کیا کیا جائے؟ پچھلے تین دن سے محمد علی، قائد کے گھٹنے تھام کے بیٹھے ہوئے تھے اور کہے جارہے تھے: فنانس، فنانس، فنانس۔ اب کیا کیا جائے۔ اس محکمے کے مضمرات سے نہ ہم واقف تھے اور نہ الطاف۔
ویول بالآخر کانگریس کے خفیہ احتجاج کا شکار ہوگئے۔ اخباری اطلاعات سے مترشح ہوتا تھا کہ ویول کے تعلقات وہائٹ ہال سے خاصے کشیدہ ہوچکے تھے۔ بہرکیف انھیں اپنے مشن کو ادھورا چھوڑ کر رخصت ہونا پڑا۔ انگلستان کے ایوان عام میں چرچل اور ایٹلی کے درمیان اس پر خاصی نوک جھونک ہوئی۔ چرچل نے کہاکہ اگر ان کی ملازمت صرف جنگ تک محدود تھی تو ایک برس قبل ختم ہوجانی چاہیے تھی، اور اگر آزادیِ ہند تک تھی تو ابھی انھیں اور ٹھیرنا چاہیے تھا۔
خوراک کا مسئلہ جب زیادہ سنگین ہوگیا تھا تو لارڈ ویول، قائداعظم اور گاندھی نے مل کر ایک بیان اخباروں میں شائع کروایا جس کا پہلا جملہ Food is above politics (خوراک سیاست سے بلند وبالا ہے) تھا۔ ڈان نے بھی اس بیان کو شہ سرخیوں سے چھاپا۔ لیکن رات ٹائپ کو ترتیب دینے والے کسی بزرجمہر نے پہلے ہی حرف میں ’’ایف‘‘ کی جگہ ’’جی‘‘ ٹانک دیا۔ صبح اخبار شائع ہوا تو Good is above politics چھپا ہوا تھا۔ معنی کچھ یوں ہوگئے کہ بھلائی اور نیکی سیاست سے بلند و بالا ہے۔ یہ بگڑا ہوا جملہ ویول کے عہد پر بڑا بلیغ تبصرہ تھا۔ ویول بہرکیف رخصت ہوگئے اور آخری ایام میں دل کی بھڑاس شعروں میں نکالتے رہے۔
(مولوی محمد سعید، آہنگ باز گشت)
بیادِ مجلس اقبال
یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نِگہ بے باک
اس شعر میں علامہ نے جدید تہذیب کی حقیقت سے آگاہ بھی کیا ہے اور اسے شدید طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی تہذیب کے پیروکار اپنے آپ کو بہت روشن دماغ قرار دیتے ہیں، مگر پوری بات نہیں کرتے، یعنی ان کی سوچ کے بارے میں روشن ہونے کا دعویٰ تو کر ڈالتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ ان کے دل اتنے تاریک ہیں اور ان کی نظریں کس قدر بے شرمی اور بے حیائی سے بھرپور ہیں، یعنی دل کی دنیا تاریک تر اور نگاہیں بصارت سے محروم ہیں تو ایسی روشن دماغی انسان کے کس کام کی! علامہ کا مستقل فلسفہ ہے کہ جب تک انسان کے دل کی دنیا روشن نہ ہو اور اس کی نگاہیں بصارت و بصیرت سے مالا مال نہ ہوں، وہ حقیقی طور پر انسانیت کے مقامِ بلند سے محروم رہتا ہے۔