فرید طوفان کی اے این پی میں واپسی

خیبر پختون خوا کے ضلع کرک سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاست دان فرید طوفان مختلف سیاسی جماعتوں کے گھاٹوں کا پانی پینے کے بعد دوبارہ عوامی نیشنل پارٹی کو پیارے ہوگئے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں باچا خان مرکز میں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی صدارت میں ایک ہنگامہ خیز اجتماع اور پریس بریفنگ کا اہتمام کیا گیا، جس میں فرید طوفان نے ساتھیوں سمیت پی ٹی آئی سے اے این پی میں شمولیت کا باضابطہ اعلان کیا۔ یاد رہے کہ فرید طوفان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز عوامی نیشنل پارٹی کی ذیلی طلبہ تنظیم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا تھا۔ کراچی سے قانون کی ڈگری لینے کے بعد وہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی کابینہ کے رکن بن کر عملی سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے۔ وہ بیگم نسیم ولی خان کے ساتھ پارٹی کی صوبائی کابینہ میں جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ 2006ء میں عبدالولی خان کی علالت اور پارٹی میں گروہ بندیوں کی وجہ سے فرید طوفان کو اے این پی سے نکالنے کے ساتھ اُن کی دوبارہ اے این پی میں شمولیت پر بھی دس سال کے لیے پابندی لگادی گئی تھی جو شاید ملک کی سیاسی تاریخ میں کسی سیاسی راہنما پر پابندی کا اپنی نوعیت کا منفرد اقدام تھا۔ اے این پی کے بعد فرید طوفان نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی، اور 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر شکست کھائی۔ 2012ء میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر انہیں دوبارہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر بیگم نسیم ولی خان کے ساتھ مل کر اے این پی ولی کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت قائم کی، لیکن اے این پی ولی اور اے این پی کے انضمام کے بعد فرید طوفان ایک مرتبہ پھر سیاسی دوڑ سے باہر ہوگئے تھے، جس پر انہوں نے دو برس قبل پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ 2018ء کے انتخابات میں تیسری مرتبہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کے باوجود انہیں اپنے آبائی حلقے پر ایک ایسے موقع پر شکست سے دوچار ہونا پڑا جب اس الیکشن میں پی ٹی آئی کے ایسے ٹکٹ ہولڈر بھی کامیاب ٹھیرے تھے جنہیں اپنے محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔ اب فرید طوفان دوبارہ اے این پی کا حصہ بن کر وہیں آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے انہوں نے تین دہائیاں قبل اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔
فرید طوفان کی شمولیتی تقریب سے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرید طوفان نے باچا خان کی خدمت میں زندگی کا بیشتر وقت بسر کیا ہے اور انہوں نے باچا خان کو باپ جتنا احترام دیا ہے۔ فرید طوفان کو دوبارہ اے این پی میں شمولیت پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی جنرل کو امریکی ڈرون سے نشانہ بنانا افسوسناک ہے، یہ کھلم کھلا جارحیت ہے۔ اے این پی دہشت گردی کی ہمیشہ سے مذمت کرتی آئی ہے۔ امریکہ دنیا کا بدمعاش بننے کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں پاکستان کو ملکی مفاد میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اور جنگ سے بچنا ہوگا۔ تہران اور واشنگٹن میں جنگ چھڑ گئی تو یہ لڑائی دنیا کو تیسری جنگِ عظیم کی طرف لے جائے گی۔
جب سے باچا خان خاندان کی چوتھی نسل سے تعلق رکھنے والے ایمل ولی خان کو پارٹی کا صوبائی صدر بنایا گیا ہے اور پارٹی اُن کی قیادت میں اپنی گمشدہ پوزیشن کی بحالی کے لیے نہ صرف ہاتھ پائوں مار رہی ہے بلکہ پارٹی سے ماضی میں مختلف وجوہات کی بناء پر ناراض ہونے والے عہدیداران اور ورکر کی واپسی کی ایک ہمہ گیر مہم بھی چلائی جارہی ہے، ایسے میں فرید طوفان جیسے پارٹی کے نظریاتی کارکن سمجھے جانے والے فرد کی اے این پی کی صفوں میں واپسی کو پارٹی کے سیاسی حلقے تو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں لیکن سیاسی ناقدین اس واپسی اور ان کی پارٹی میں شمولیت کو جہاں پارٹی پر اسفند یار ولی خان کی کمزور ہوتی ہوئی گرفت کا عکاس قرار دے رہے ہیں، وہیں اسے اے این پی جو پچھلے کچھ عرصے سے ماضیِ قریب کے روایتی مؤقف کے برعکس ماضیِ بعید کی نظریاتی جدوجہد کی طرف مائل نظر آرہی تھی، کی حالیہ آرمی ایکٹ کی اچانک حمایت اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اس کے سخت لب و لہجے میں نرمی اختیار کرنے کے تناظر میں بظاہر اس کے حالیہ سخت گیر فیصلوں سے یوٹرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں یہ منفرد مقام شاید صرف اے این پی کو حاصل ہے کہ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں میں وقت کے ساتھ ساتھ 180درجے کے یوٹرن معمول رہے ہیں، حالانکہ کسی زمانے میں اے این پی کا دعویٰ تھا کہ وہ ملک کی ایک خالص نظریا تی جماعت ہے جو ترقی پسندی اور لبرل ازم پر یقین رکھتی ہے اور ایک پسماندہ قوم ہونے کے تناظر میں پختون قوم کے حقوق کی دعو ے دار اور چیمپئن بھی ہے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت شاید ہی کسی سے پوشیدہ ہوگی کہ ماضی میں اقتدار کے زینے طے کرنے کے لیے اے این پی کی قیادت نے ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان عوامی اتحاد میں فرنٹ لائن قیادت کا کردار ادا کیا اور پھر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں انہیں جہاں جیل سے رہائی ملی وہیں ان کی کالعدم جماعت کو بھی بحال کیا گیا، لیکن جنرل ضیاء الحق کے ساتھ افغان جہاد کے معاملے پر اختلافات کے بعد اے این پی کی اُس وقت کی قیادت نے پیپلز پارٹی کی قیادت میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف بننے والی بحالیِ جمہوریت (ایم آر ڈی) تحریک کے قیام اور اسے متحرک کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اے این پی کی وقت کے ساتھ ڈانواڈول سیاسی پالیسیوں کا اندازہ ماضی میں کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اس کی شراکتِ اقتدار کے غیر اصولی فیصلوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اے این پی کبھی اپنے اینٹی اسٹیبلشمنٹ مؤقف اور کردار کی وجہ سے ملکی سیاست میں ایک اصولی سیاسی جماعت کے طور پر مشہور تھی، لیکن اس نے پہلے افغان جہاد میں امریکہ کے خلاف سوویت یونین کا ہمنوا بن کر، اور بعدازاں امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر اپنے ہی پختون بھائیوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں اپنا کاندھا پیش کرکے جہاں اپنے سابقہ سخت گیر مخالف امریکہ مؤقف سے انحراف کا راستہ اپنایا، وہیں اسے اس اطاعت گزاری کا صلہ خیبر پختون خوا میں تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت سازی کی صورت میں بھی دیا گیا، جس کے دوران کرپشن کے وہ قصے زبان زدِ عام ہوئے جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنے تھے اور نہ ہی دیکھے تھے۔
اے این پی کی پختونوں کے خلاف پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان کے تحت مختلف آپریشنوں کی صورت میں چلائی جانے والی مہمات پر پُراسرار خاموشی اور ظلم وزیادتی کے خلاف پختون تحفظ موومنٹ کے نام سے منظم ہونے والی ایک نئی پختون قوم پرست تحریک کے مطالبات اور جدوجہد سے لاتعلقی نے بھی جہاں اے این پی کے سیاسی امیج کو نقصان پہنچایا ہے وہیں اُس کی اس کمزور پوزیشن پر عام پختونوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ گو اس سیاسی پیوند کی رفوگری پارٹی قیادت کی جانب سے پارٹی کے بعض سابق نامی گرامی راہنمائوں سابق صوبائی صدر اور سینیٹر افراسیاب خٹک، سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر، ممتاز قانون دان اور قبائلی راہنما عبداللطیف آفریدی اور موجودہ سینیٹ میں پارٹی کی واحد سینیٹر ستارہ ایاز کو پارٹی صفوں سے اخراج کی صورت میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایمل ولی خان جس تیزی سے ماضی کے دھتکارے ہوئے راہنمائوں کو واپس اپنے سیاسی دامن میں سمیٹنے کی مہم چلا رہے ہیں اور انہوں نے آرمی ایکٹ کی منظوری پر جو پھرتی دکھائی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ اے این پی کے ہاتھ یہ گیدڑ سنگھی لگ چکی ہے کہ جب تک وہ پرو اسٹیبلشمنٹ کردار ادا نہیں کرے گی تب تک اس کے ہاتھ سے نہ صرف اقتدار کی لکیر غائب رہے گی بلکہ پارٹی میں وزارتِ اعلیٰ کے سب سے مضبوط بلکہ بلا شرکت غیرے امیدوار ایمل ولی خان کی اس منصبِ جلیلہ تک پہنچنے کی خواہش بھی کبھی بارآور نہیں ہوسکے گی۔