عمر حیات
۔29 دسمبر 2019ء کو یاسر پیرزادہ نے روزنامہ جنگ میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا، ”گاندھی کا ہندوستان، جناح کا پاکستان“۔ اپنے اس کالم میں وہ لکھتے ہیں:
”گاندھی جی اور جناح صاحب کا خیال تھا کہ صرف زمین پر لکیر کھنچے گی اور باقی جو جہاں ہے وہیں رہے گا۔ اُنہیں یہ خوش گمانی تھی کہ پاکستان انڈیا کے تعلقات ایسے ہوں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا، بٹوارے کے وقت فسادات پھوٹ پڑے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے، قریباً ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو راتوں رات اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی، لاہور لاہور نہ رہا، امرتسر امرتسر نہ رہا!“
یاسر پیرزادہ کا مذکورہ اقتباس ایک تاریخی جھوٹ ہے۔ بٹوارے کے وقت فسادات بدقسمتی سے پھوٹ نہیں پڑے تھے بلکہ باقاعدہ ایک منظم انداز میں مسلمانوں کا قتلِ عام کروایا گیا۔ ہندووٴں اور سکھوں نے باہم مل کر کانگریس کی سرکردگی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہونے والا تھا، کانگریس اس سے بخوبی واقف تھی، اور اگر وہ چاہتی تو یہ قتلِ عام رکوا سکتی تھی، مگر ایسا وہ چاہتی نہ تھی۔ بٹوارے کے وقت حیدرآباد، جونا گڑھ، مناودر، زِیرہ، فاضلکا، گورداسپور اور جموں و کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ کانگریس اور فرنگیوں کی ملی بھگت سے ممکن ہوا۔ چنانچہ اس ناانصافی پر جناح نے انتہائی کرب کے عالم میں کہا:
”ہندوستان کی تقسیم اب حتمی اور ناقابلِ تنسیخ طور پر ظہور میں آچکی۔ بلاشبہ ہمیں اس کا احساس ہے کہ اس عظیم آزاد اور خودمختار اسلامی مملکت کی تشکیل میں بڑی ناانصافیاں کی گئی ہیں۔ جتنا زیادہ وہ ہمیں مجبور کرسکتے تھے، کیا گیا اور آخری ضرب جو ہم نے وصول کی، وہ باؤنڈری کمیشن ہے۔ یہ ایوارڈ غیر منصفانہ، ناقابلِ فہم بلکہ منحرف ہے۔“
[Z.H. ZAIDI, S.I, Jinnah Papers, Pakistan: PANGS of Birth, 15 August-30 September 1947, First Series, Vol. V, p. 380.]
کچھ آگے چل کر یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں:
”بھارت میں آر ایس ایس غنڈے سرِعام مسلمانوں کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کرتے ہیں اور طعنے دیتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنا علیحدہ ملک بنالیا اب وہاں جاوٴ، بھارت میں کیا کررہے ہو!……بے شک آج کا ہندوستان نہرو اور گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے، مگر کیا آج کا پاکستان جناح کا پاکستان ہے؟“
ہم آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ آج کا پاکستان قائد کا پاکستان نہیں ہے۔ اگر آج کا پاکستان قائد کا پاکستان ہوتا تو وطنِ عزیز میں شریعت کا نفاذ ہوتا اور پاکستان اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ہوتا۔ لیکن آپ کا یہ تاثر دینا کہ آج بھارت میں مسلمان جس ظلم و تشدد کا شکار ہیں تو یہ بی جے پی کی حکومت اور آر ایس ایس کے غنڈوں کا شاخسانہ ہے وگرنہ گاندھی کا ہندوستان اگر ہوتا تو سیکولرازم کی بدولت ایسا نہ ہوپاتا، آپ کی دروغ گوئی یا پھر علمی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سچائی یہ ہے کہ مشترکہ ہندوستان میں نہرو، کانگریس اور گاندھی نے مسلمانوں میں فکری انتشار بپا کرنے اور انھیں تقسیم کرنے کے لیے جو طریقہٴ واردات استعمال کیا وہ سیکولرازم کا نعرہ تھا۔ نہرو، کانگریس اور گاندھی ایک ہی سکے کے تین رُخ تھے۔ ان تینوں رُخوں پر سیکولرازم کا ماسک چڑھا ہوا تھا اور اس ماسک کے پیچھے جو بھیانک چہرہ تھا وہ ہندو راج تھا۔ اس بات کے متعدد ثبوت ہیں جن میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں۔ پہلا ثبوت یہ ہے کہ 16 اکتوبر 1905ءکو حکومتِ برطانیہ نے جب بنگال کو تقسیم کیا تو اس سے دو نئے صوبے، مشرقی اور مغربی بنگال، وجود میں آگئے۔ مشرقی بنگال میں چونکہ مسلمان اکثریت میں تھے، اس لیے یہاں ہندووٴں کی اِجارہ داری ختم ہوگئی اور مسلمانوں کی ترقی کے امکانات روشن ہوگئے۔ مگر کانگریس کو مسلمانوں کا اُبھرنا راس نہ آیا اور اُس نے اس قدر شدت سے اس فیصلے کی مخالفت کی کہ برطانوی حکومت کو مجبوراً اپنا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔ کانگریس کے اس غیر منصفانہ فیصلے پر نہرو اور گاندھی کا سیکولرازم گنگا جل میں غرق ہوگیا۔ دوسرا ثبوت: 1924ء میں سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک کا آغاز کیا جس کا مطلب مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ اسی دوران سنگھٹن کی تحریک شروع کردی گئی اور مسلمانوں سے کہا جانے لگا کہ ہندو بن جاوٴ یا ہندوستان چھوڑ دو، بصورتِ دیگر ڈنڈے مار مار کر ہلاک کردئیے جاوٴ گے۔ اگر یہ تحریکیں مسلمانوں نے برپا کی ہوتیں تو گاندھی طوفان مچا دیتا۔ چونکہ یہ ہندووٴں کی جانب سے تھیں، اس لیے گاندھی کا سیکولرازم خراٹے لیتا رہا! تیسرا ثبوت: سائمن کمیشن کی مخالفت میں ہندوستانی سیاسی جماعتوں نے اپنا آئین خود وضع کرنے کا فیصلہ کیا تو کانگریس نے نہرو کی سرکردگی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے ذمے آئین بنانے کا کام سونپا گیا۔ 1928ء میں جب اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی، جسے تاریخ میں نہرو رپورٹ کہا جاتا ہے، تو معلوم ہوا کہ موتی لال نہرو نے اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کے دباوٴ میں آکر دہلی مسلم تجاویز میں مسلمانوں سے کیے گئے تمام معاہدات کو دریا بُرد کردیا ہے۔ نہرو کی اس زیادتی پر کانگریس اور گاندھی کا سیکولرازم موت کے گھاٹ اتر گیا۔ چوتھا ثبوت: 1936-37ء کے انتخابات میں جب کانگریس اقتدار میں آئی تو اس نے زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں پر نوکریوں کے دروازے بند کردئیے، بندے ماترم کو قومی ترانہ کا درجہ دے دیا گیا، گائے کے ذبیحے پر پابندی عائد کردی گئی اور مساجد میں نمازیوں پر حملے متواتر ہونے لگے۔ اس دوران نہرو اور گاندھی کا سیکولرازم دَم سادھے یہ تمام واردات دیکھتا رہا! ثابت ہوا کہ ہندوستان نہرو کا ہو، کانگریس کا یا گاندھی کا، اسلام اور مسلمانوں کے لیے تباہی کی علامت ہے۔
اب اپنے مقصد کی جانب آتے ہوئے یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں:
”قائد کے وژن کے مطابق آج پاکستان کو ناروے یا سویڈن کی طرح فلاحی مملکت ہونا چاہیے تھا جہاں فرد کو ہر قسم کی شخصی اور مذہبی آزادی حاصل ہے، اقلیتوں کو کوئی خوف نہیں، سوچ کی آزادی ہے اور معاشرہ انصاف کے اصولوں پر کھڑا ہے“۔
قارئین کرام! ناروے اور سویڈن وہ ممالک ہیں جہاں مرد کو مرد سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے، اور عورت، عورت سے شادی کرکے کھلے عام بے حیائی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جہاں سرِ عام قرآن کو جلایا جاتا ہے، جہاں امامِ کائنات سیدنا محمدؐ کی شانِ اقدس میں گستاخانہ کارٹونوں کا مقابلہ ہوتا ہے، جہاں اسلام پر تبرا ہوتا ہے۔۔۔ اور یہ سب کچھ کرنے کا انھیں قانونی حق اور آزادی حاصل ہے۔ حیف ہے کہ یاسرپیر زادہ غلاظت پر مبنی اس گندے نظام کو نہ صرف سراہ رہے ہیں بلکہ ان ممالک کے طرزِ حکومت کو جناح کا وژن بھی قرار دے رہے ہیں…… لاحول ولا قوۃ الا باللہ!
واضح رہے کہ قائد کے وژن کے مطابق آج پاکستان کو ناروے اور سویڈن کی طرز پر مبنی بے دین جمہوری مملکت نہیں بلکہ مدینہ کی طرز پر مبنی ایک اسلامی مملکت ہونا تھا۔ اس کی دلیل ان کا وہ بیان ہے جو انھوں نے 14 فروری 1947ء کو شاہی دربار سبی،بلوچستان میںدیا:
” میرا یہ ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اُسوہٴ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبرِ اسلام نے دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اُصولوں پر رکھیں“۔
[Jamil-ul-Din Ahmed (ed.),Speeches and Writings of Mr. Jinnah, p. 453]
اپنے کالم کے اختتام پر یاسر پیرزادہ نے جناح کو سیکولر باور کرانے اور ان کے وژن کو سیکولر جامہ پہنانے کے لیے جو طریقہٴ واردات استعمال کیا، وہ کچھ اس طرح ہے:
”جنہیں جناح کے اس وژن پر کوئی شبہ ہو وہ صرف دو کام کرلیں، ایک قائد کا لائف اسٹائل دیکھ لیں۔ قائد سوٹ پہنتے تھے، سگار پیتے تھے، انہوں نے کتے پال رکھے تھے، اپنی بمبئی کی رہائش گاہ انہوں نے یورپین طرز پر تعمیر کروائی تھی، انگریزی میں بات کرتے تھے، انگریزی میں لکھ کر تقریر کرتے تھے، سرتاپا مغربی اور سیکولر لائف اسٹائل تھا، اُن کی ہمشیرہ فاطمہ جناح شٹل کاک برقع تو کیا سرے سے برقع ہی نہیں پہنتی تھیں، ہاں دوپٹہ ضرور اوڑھتی تھیں۔ دوسرا، یہ دیکھ لیں کہ قائداعظم کی زندگی میں پاکستان کس قسم کا تھا، جہاں تک میں نے پڑھا ہے اُس وقت کا پاکستان آج کے پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ماڈرن اور آزاد خیال تھا، لاہور اور کراچی میں نائٹ کلب تھے جہاں ڈانس کی محفلیں ہوتی تھیں، جناح صاحب نے کوئی مے خانہ بند کیا نہ کسی نائٹ کلب پر تالا ڈلوایا، تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں یہ ’نیک‘ کام پاکستان بننے کے تیس برس بعد ہوا“۔
یہ ہیں وہ دلائل جن کی بنیاد پر یاسر پیرزادہ پاکستان میں سیکولرازم کے فروغ کے لیے بغلیں پیٹ رہے ہیں؟ جناح کتے پالتے تھے یا گدھے، سگار پیتے تھے یا حقہ، سوٹ پہنتے تھے یا شیروانی، علمی دنیا میں ان دلائل کی کوئی حقیقت نہیں۔ سچ اور جھوٹ کے ملغوبے پر مبنی ان گھسے پٹے دلائل کو سنجیدہ ذہن لوگ مستند نہیں مانتے۔ تخلیقِ پاکستان کے مقصد کو سمجھنے کے لیے قابلِ غور بات اگر تھی تو یہ کہ مصورِ پاکستان نے مسلمانانِ ہند کے لیے سیکولر نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے پاکستان میں سیکولر نظامِ حکومت کی نہیں بلکہ شریعت کے نفاذ کی بات کی تھی۔ بانیِ پاکستان نے پاکستان کا مقدمہ سیکولرازم کی اساس پر نہیں بلکہ دوقومی نظریے کی بنیاد پر لڑا تھا۔ مسلمانوں کی آرزوئیں کسی بے دین جمہوریت کی حامل ریاست کی نہیں بلکہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کی تھیں۔ جناح کے درجنوں اقوال اس پر شاہد ہیں کہ انھوں نے دو قومی نظریے کا اثبات کیا، شریعت کے نفاذ کی بات کی، اسلامی قوانین کے مطابق طرزِ حکمرانی اپنانے کے عزم کا اظہار کیا اور پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی اصولوں پر تعمیر کرنے کا یقین دلایا۔ مگر یاسر پیرزادہ کو ان حقائق سے کیا سروکار! ان کی علمی عسرت کا حال یہ ہے کہ یہ کوئی ایک قول ایسا پیش نہیں کرسکے جس میں جناح نے یہ کہا ہو کہ پاکستان کے نام پر ہم جس سرزمین کا مطالبہ کررہے ہیں، وہاں سیکولر نظام حکومت ہوگا۔ البتہ اپنی فطرت کے مطابق ان کی نظر اگر کہیں ٹکی بھی تو جناح کے کتے پر، جناح کے سگار پر، جناح کی انگریزی پر، اور محترمہ فاطمہ جناح کے سَر پر موجود دوپٹے پر نہیں بلکہ ان کے شٹل کاک برقع نہ اوڑھنے پر……! آج یہ سیکولر پیرزادہ وطن عزیز میں پردے کی مخالفت میں بطورِ دلیل فاطمہ جناح کو پیش کررہا ہے اور کل جب یہی فاطمہ جناح الیکشن میں جنرل ایوب کی مخالفت میں کھڑی ہوئیں تو ان ہی جیسے تمام سیکولرز کا ٹولہ جنرل ایوب کے پیچھے صف باندھے جا کھڑا ہوا……یا منافقت تیرا کوئی جواب نہیں!