ڈاکٹر جمیل جالبی پاکستان کی نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ انہوں نے اردو علم و ادب اور زبان کے سلسلے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ صدیوں زندہ رہیںگے۔ تاریخ ادبِ اردو میں ان کی تحقیق لازوال ہے۔ انہوں نے اکیڈمیوں کا کام تنِ تنہا انجام دیا۔ اللہ کا فضل ہے کہ وہ عزت سے اس جہاں سے رخصت ہوئے، ورنہ روایت یہی ہے کہ جس نے بھی اس ملک و قوم کی خدمت کی اُس کے گلے میں جوتیوں کا ہار ضرور ڈالا گیا، اور ان کے انجام سے انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی تحریر فرماتے ہیں:
’’میرا یہ کام، جسے میں نے ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘کا نام دیا ہے، چار جلدوں میں ہے۔ اس کی پہلی جلد آپ کے سامنے ہے جو آغاز سے لے کر تقریباً 1750ء تک، قدیم اردو ادب و زبان کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ جلد اپنی جگہ مکمل بھی ہے اور دوسری جلد سے مربوط و پیوستہ بھی۔ واضح رہے کہ یہ جدید انداز کی مربوط تاریخ ہے، متفرق مقالات کا مجموعہ یا تذکرہ نہیں ہے۔ جدید ادب کی طرح قدیم ادب بھی مخصوص تہذیبی، معاشرتی، معاشی، سیاسی و لسانی عوامل کا منطقی نتیجہ تھا۔ اسی لیے اس کا مطالعہ بھی تہذیبی و معاشرتی عوامل کی روشنی میں ویسے ہی کیا جانا چاہیے جیسے آج ہم جدید ادب کا کرتے ہیں۔ ادب کی تاریخ ایک ایسی اکائی ہے جسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ خود جدید ادب کو سمجھنے کے لیے قدیم ادب کا سمجھنا ضروری ہے۔ ادب کی تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں ہم زبان اور اس زبان کے بولنے اور لکھنے والوں کی اجتماعی و تہذیبی روح کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ ادب میں سارے فکری، تہذیبی، سیاسی، معاشرتی اور لسانی عوامل ایک دوسرے میں پیوست ہوکر ایک وحدت، ایک اکائی بناتے ہیں اور تاریخِ ادب ان سارے اثرات، روایات، محرکات اور خیالات و رجحانات کا آئینہ ہوتی ہے۔ میں نے اسی شعور اور نقطۂ نظر سے قدیم ادب کا مطالعہ کیا ہے۔
اب تک جتنی ادبی تاریخیں لکھی گئی ہیں اُن میں مختلف علاقوں کا قدیم اردو ادب الگ الگ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا یہ سب الگ الگ جزیرے ہیں جن کے ادب و زبان کے مطالعے کا مجموعی نام تاریخِ ادب رکھ دیا گیا ہے۔ میرے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی کہ گجرات، دکن اور شمال کا ادب الگ الگ جزیروں کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک کا تعلق دوسرے سے کچھ نہیں ہے۔ جب میں نے قدیم ادب کا براہِ راست مطالعہ کیا تو اثرات و روایات کا ایک ایسا سلسلہ نظر آیا جو ایک دوسرے سے پوری طرح پیوست تھا۔ یہ تحقیق کی ایک نئی صورت تھی۔ اس اندازِ نظر نے اس تصنیف کو وہ صورت عطا کی جو آپ کے سامنے ہے۔ اس میں مطالعہ، تحقیق، فکر اور طرزِ ادا سب مل کر ایک ہوگئے ہیں۔
تاریخِ ادب ادارے لکھتے ہیں جن کے پاس سرمایہ ہوتا ہے، جنہیں ہر قسم کی سہولت میسر ہوتی ہے، جن کے پاس اپنا کتب خانہ ہوتا ہے اور دوسرے کتب خانوں سے وہ قلمی و مطبوعہ کتب مستعار لے سکتے ہیں۔ مددگاروں کی ایک جماعت اس کام میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ وہاں صدر ہوتے ہیں، سیکرٹری ہوتے ہیں، مشاہیرِ علم و ادب کام کرتے ہیں، اور کہیں برسوں میں جاکر یہ منصوبہ پورا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اس قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ دن بھر گردشِ روزگار اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے مشقت کی چکی، نہ کوئی مددگار، نہ کوئی ساتھی۔ ایک ایک کتاب کے لیے مختلف کتب خانوںکے چکر کاٹنے پڑے۔ آتشی شیشے کی مدد سے مخطوطات پڑھ پڑھ کر آنکھوں پر موٹا چشمہ چڑھ گیا۔ بہرحال یہ کام، جیسا کچھ ہے، ایک فرد کا کام ہے جس نے اسے اپنی اُپج سے کیا ہے۔ اس میں کسی کی فرمائش، مدد یا سرپرستی شامل نہیں ہے۔ میرے جنون اور علم و ادب کے عشق نے ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز کرکے، یہ جوئے شیر مجھ سے ہنسی خوشی کھدوائی ہے۔ یہ کام کرکے میں نے خوشیاں حاصل کی ہیں اور یہی میرا صلہ ہے۔ یہ تاریخِ ادب میری اپنی روح کا سفر ہے جسے میں نے برعظیم کی تہذیبی روح کی تلاش میں کیا ہے۔ سفر جاری ہے اور میری منزل ابھی دور ہے۔
اس جلد کا خاکہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ ساری تصنیف کو، ترتیبِ زمانی سے، چھے فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر فصل کے تحت مختلف ابواب آتے ہیں۔ ہر فصل کا پہلا باب پورے دور کی تمہید کی حیثیت رکھتا ہے جس میں اس دور کی تہذیبی، معاشرتی اور ادبی و لسانی خصوصیات کو اجاگر کیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کے سامنے اس دور کی واضح تصویر آجائے۔ اس تمہیدی باب کی روشنی میں، ترتیبِ زمانی سے، اس دور کے ممتاز و نمائندہ شاعروں اور ادیبوں کے ذہن و اثرات اور ان کی تخلیقی کاوشوں کا تنقیدی مطالعہ کیا گیا ہے۔ چونکہ ہر دور کی نظم و نثر ایک ہی طرزِ احساس کا اظہار کرتی ہیں اس لیے، دوسری تاریخوں کے برخلاف، ان کا مطالعہ بھی ایک ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ ہر شاعر و ادیب کو اس کی تاریخی و ادبی حیثیت کے مطابق صفحات دیے گئے ہیں۔ قدیم دور کے ادب کا مطالعہ اس لیے اور بھی دشوار تھا کہ اس دور کا بیشتر سرمایہ مخطوطات پر مشتمل ہے جن کے حوالے حواشی میں دیے گئے ہیں۔ یہی عمل مطبوعہ کتب کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ’اختتامیہ‘ میں اختصار کے ساتھ روایت کے اتار چڑھائو کی داستان کو بیان کردیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ اردو زبان کے عالم گیر رواج کی منطقی وجوہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخر میں ضمیمے کے تحت ’’پاکستان میں اردو‘‘ کو موضوع بناکر پاکستان کے چاروں صوبوں میں اردو کے گہرے تعلق اور قدیم روایت کا سراغ لگایا گیا ہے۔ لکھتے وقت میں نے ’’اسلوبِ بیان‘‘ کو خاص اہمیت دی ہے۔ دورانِ مطالعہ آپ محسوس کریں گے کہ میں نے ایک ایسا اسلوب دریافت کیا ہے جو ادب کی فکری، تنقیدی و تہذیبی تاریخ کے لیے شاید نہایت موزوں ہے۔‘‘
’’تاریخ ادبِ اردو‘‘ جلد اوّل کا پہلا ایڈیشن غالباً 1975ء میں طبع ہوا۔ زیر نظر اس کا دسواں ایڈیشن ہے جو کمپیوٹر کمپوزنگ میں شائع کیا گیا ہے۔ اس کی فہرست مضامین درج ذیل ہے:
تمہید: اردو زبان اور اس کے پھیلنے کے اسباب
فصلِ اوّل: شمالی ہند (1050ء۔ 1707ء)
پہلا باب: مسعود سعد سلمان سے گرونانک تک۔ (1050ء۔ 1525ء)
دوسرا باب: بابر سے شاہجہان تک۔ (1525ء۔ 1657ء)
تیسرا باب: دورِ اورنگ زیب (1657ء۔ 1707)
فصلِ دوم: گُجری ادب اور اس کی روایت (1050ء۔ 1707ء)
پہلا باب: پانچویں صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری تک۔ (1050ء۔ 1400ء)
دوسرا باب: نویں اور دسویں صدی ہجری کے ملفوظات، لغات،کتبے۔ (1400ء۔ 1600ء)
تیسرا باب: نویں اور دسویں صدی ہجری کی ادبی روایت۔ (1400ء۔ 1600ء)
چوتھا باب: دسویں، گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری کے اوائل میں گجری اردو روایت۔ (1600ء۔ 1707ء)
فصلِ سوم: اردو بہمنی دور میں (1350ء۔ 1525ء)
پہلا باب: پس منظر، مآخذ اور ادبی و لسانی خصوصیات
دوسرا باب: ادب کی روایت نویں اور دسویں صدی ہجری کے اوائل میں (1430ء۔ 1525ء)
فصلِ چہارم: عادل شاہی دور (1490ء۔ 1685)
پہلا باب: پس منظر، روایت اور ادبی و لسانی خصوصیات
دوسرا باب: گجری روایت کی توسیع، ہندوی روایت کا عروج۔ (1525ء۔ 1627ء)
تیسرا باب:ہندوی و فارسی روایت کی کشمکش (1627ء۔1640ء)
چوتھا باب: فارسی روایت کا رواج۔ (1640ء۔ 1657ء)
پانچواں باب: غزل کی روایت کا سراغ: حسن شوقی (م1633ء)
چھٹا باب: مذہبی تصانیف پر فارسی اثرات۔ (1640ء۔ 1675ء)
ساتواں باب: دکنی ادب کا عروج: نصرتی (1657ء۔ 1675ء)
آٹھواں باب: نیا عبوری دور (1657ء۔ 1685ء)
خاتمہ:
فصلِ پنجم: قطب شاہی دور (1518ء۔ 1686ء)
پہلا باب: پس منظر، روایت اور ادبی و لسانی خصوصیات
دوسرا باب: فارسی روایت کا آغاز (1518ء۔ 1580ء)
تیسرا باب: فارسی روایت کا رواج: محمد قلی قطب شاہ (1580ء۔ 1610ء)
چوتھا باب: فارسی روایت کا رواج، نظم و نثر میں: ملاوجہی۔ (1580ء۔ 1640ء)
پانچواں باب: (الف) فارسی روایت کی توسیع۔ (1625ء۔ 1672ء)
(ب) دوسرے شعراء
(ج) اردو نثر
چھٹا باب: فارسی روایت کی تکرار (1672ء۔ 1686ء)
ساتواں باب: دکنی روایت کا خاتمہ۔
فصلِ ششم: فارسی روایت کا نیا عروج: ریختہ (1685ء۔ 1750ء)
پہلا باب: ولی دکنی
دوسرا باب: معاصرینِ ولی اور بعد کی نسل
اختتامیہ:
ضمیمے: پاکستان میں اردو
پنجاب اور اردو
سندھ میں اردو
لسانی اشتراک (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی)
سرحد میں اردو روایت
بلوچستان کی اردو روایت
اشاریہ: کتب، اشخاص، مقامات، موضوعات
ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب کے لکھنے میں بے حد و حساب محنت اور کوشش کی۔ مجھے یاد آیا کہ پروفیسر سید محمد سلیم علیگ ؒ کی یاد میں ماہنامہ ’’تعمیر افکار‘‘ کراچی کی اشاعتِ خاص کے لیے جو بھاگ دوڑ کی اُس میں ڈاکٹر جالبی صاحب کے پروفیسر سلیم صاحب کے نام خطوط برآمد ہوئے۔ جالبی صاحب سے رابطہ کرنے پر انہوں نے پروفیسر سلیم صاحب کا خط اپنے ذخیرے سے بھجوایا، وہ تینوں خطوط قارئین کے ملاحظے کے لیے درج ذیل ہیں:
خط جمیل جالبی بنام سید محمد سلیم
بملاحظہ جناب پروفیسر محمد سلیم صاحب
معرفت ڈاکٹر برنی صاحب
لکھی در، شکار پور، سندھ
مکرمی پروفیسر محمد سلیم صاحب
السلام علیکم
کل جناب ابو سلمان شاہجہان پوری نے آپ کا پتا عنایت فرمایا جس کی تلاش مجھے کئی دن سے تھی۔ آپ نے آج سے بارہ سال پہلے ایک مخطوطے کا تعارف کرایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ 1195ء میں مکمل ہوا اور اس کے ایک باب میں بھگوت گیتا کا اردو نثر میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ آپ کا یہ مضمون ’قومی زبان‘ میں شائع ہوا تھا۔ میں تاریخِ ادب لکھ رہا ہوں اور مجھے اردو نثر کے سلسلے میں اس باب کی ضرورت ہے، میں شکر گزار ہوں گا اگر آپ ازراہ کرم پہلی فرصت میں اس کی نقل یا فوٹو اسٹیٹ جس میں آپ کو سہولت ہو، مجھے فراہم کردیں۔ اس پر جو خرچ ہوگا میں فوراً پیش کردوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میری مدد فرمائیں گے۔ مجھے صرف اردو نثر والے حصے کی ضرورت ہے۔ امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔
احقر
جمیل جالبی
9 ستمبر 79ء
……………
بنام ڈاکٹر جمیل جالبی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تنظیم اساتذہ پاکستان صوبہ سندھ
محمد سلیم معرفت ڈاکٹر برنی صاحب لکھی در۔ شکار پور
تاریخ 15 ستمبر 1979ء
مکرم و محترم جناب ڈاکٹر صاحب۔ زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ، مزاج شریف
مجھے آپ کا خط مرقومہ 9 ستمبر موصول ہوگیا ہے۔
جس مضمون کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کے مندرجات بالکل درست ہیں۔ مذکورہ الذکر کتاب بھگوت گیتا کا مخطوطہ شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ نزد ہالا کی لائبریری میں موجود ہے، اس کتب خانے میں مطبوعات کے علاوہ تین سو کے قریب قلمی کتب ہوں گی۔ زیادہ تر عربی، فارسی کی ہیں، چند ایک اردو کی بھی ہیں۔ بھگوت گیتا کے علاوہ نثر میں ایک ملفوظات ہیں سید محمد گیسودراز کے بیٹے یا پوتے کے، ڈیڑھ سو سال پرانی بیاض ہے جس میں اشعار اور منظومات کے علاوہ دو قطعات مزاحیہ مضمون کے ہیں۔ اچھے خاصے طویل ہیں۔ منظومات اس کے علاوہ بھی ہیں۔ ایک قابلِ دید شے دارالآثار میں عہدِ جدید کے تمام شعراء کے خود قلم سوانح مع مختصر انتخابِ کلام ہے۔ یہ ایک خطوط کے مجموعے کی شکل میں ہے۔ مطبوعات میں فورٹ ولیم کالج کے دور کی بعض کتب ہیں، اردو رسائل ہیں، الہلال اور دل گداز کے فائل ہیں۔ آپ وہاں جا کر خوش ہوں گے۔ وہاں پہنچنے کا طریقہ یہ ہے کہ حیدرآباد سے ڈاکٹر نجم الاسلام صاحب کو ساتھ لے کر وہاں چلے جائیں، یا پھر کراچی سے پروفیسر محمد ایوب قادری صاحب کو لے کر وہاں جائیے۔ راستہ میں ٹنڈو (آدم؟) پڑتا ہے۔ وہاں حکیم نصیرالدین صدیقی رہتے ہیں، ان کے پاس موضح قرآن کا قلمی مخطوطہ ہے۔ دو ضخیم جلدوں میں بڑا خوش خط ہے۔ یہ مخطوطہ 1254ھ میں حجرہ مقیم شاہ ملک پنجاب میں لکھا گیا۔ حکیم صاحب نے بہت خوش اعتقادی سے دو بکسوں میں اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ زبان پرانی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ 1972ء میں شاہ ولی اللہ کالج کو قومیا لیا گیا۔ میرا تبادلہ شکارپور کردیا گیا۔ اب میرا وہاں جانا بھی پسند نہیںکیا جاتا ہے۔
میں آپ سے بخوبی واقف ہوں۔ میں نے مثنوی کدم رائو پدم رائو دیکھی ہے۔ ابوسلمان شاہجہان پوری صاحب کو میرا سلام کہیے۔
فقط و السلام
احقر محمد سلیم
نوٹ: ہریانہ کی زبان کا ڈیڑھ سو سال پرانا مخطوطہ پروفیسر منظورالحق صاحب، کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پاس موجود ہے۔
بخدمت شریف جناب ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب
D-26 Block B شمالی ناظم آباد۔ کراچی نمبر 33
………
خط جمیل جالبی بنام سید محمد سلیم
15 اکتوبر 1979ء
جناب پروفیسر سید محمد سلیم صاحب
معرفت ڈاکٹر برنی صاحب۔ لکھی درشکارپور
مکرمی تسلیم
گرامی نامہ ملا۔ ان شاء اللہ بھگوت گیتا کا مخطوطہ منصورہ جاکر خود دیکھوں گا۔ آپ نے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج کا تعارف اور اس کے کتب خانہ کی تعریف جس طور پر کی ہے، دیکھنے کا اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ڈاکٹر نجم الاسلام کو ساتھ چلنے کی زحمت دوں گا اور راستے میں حکیم نصیر الدین صدیقی صاحب کے مخطوطے کی زیارت بھی کروں گا۔ امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔
احقر
جمیل جالبی