اگر یہ سوال کیا جائے کسی ماہر سے کہ ایک صحت مند انسان کا اوسط درجہ حرارت کیا ہوتا ہے؟ تو جواب یہی ہوگا 37 درجے سینٹی گریڈ۔ لیکن کم ازکم امریکہ میں لوگوں کے جسم کا اوسط درجہ حرارت ضرور کم ہورہا ہے اور اس کے اوّلین ریکارڈ 1860ء سے مل رہے ہیں۔
اسٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ جولی پرسونیٹ کہتی ہیں کہ جسمانی درجہ حرارت کی جب ہم بات کرتے ہیں تو 37 درجے سینٹی گریڈ بہت زیادہ ہے، لیکن ہم ماضی کی بات کریں تو خیال آتا ہے کہ شاید یہ کسی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ انسانی درجہ حرارت گررہا ہے۔
اس بات کا جائزہ لینے کے لیے جولی اور اُن کے ساتھیوں نے امریکی خانہ جنگی میں شریک 23 ہزار سے زائد فوجیوں کے اوسط جسمانی درجہ حرارت کا جائزہ لیا۔ اس طرح 1860ء سے 1940ء کے ڈیٹا سیٹ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ 1971ء سے 1975ء اور 2007ء سے 2017ء کے درمیان کُل 6 لاکھ 77 ہزار 423 افراد کے درجہ حرارت کو پڑھا گیا۔
ڈیٹا بیس کے مکمل جائزے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ ہر دس سال میں انسانی جسم کے اوسط درجہ حرارت میں 0.03 سینٹی گریڈ کمی آئی ہے۔ اس طرح انیسویں صدی کے اوائل میں جنم لینے والے کسی فرد کا جسمانی اوسط درجہ حرارت آج کے انسان کے مقابلے میں 0.59° درجے سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ اگرچہ خواتین کا اتنا پرانا درجہ حرارت معلوم نہیں کیا جاسکا لیکن اندازہ ہے کہ 1890ءکے مقابلے میں خواتین کا جسمانی درجہ حرارت 0.32° کم ہوا ہے۔
اب خلاصہ یہ ہے کہ اس وقت انسان کا اوسط درجہ حرارت 37 درجے سینٹی گریڈ نہیں رہا بلکہ 36.6° سینٹی گریڈ ہوچکا ہے۔
جولی کا اصرار ہے کہ یہ کمی پرانے ناقص تھرمامیٹر کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ خود انسانی اوسط درجہ حرارت گررہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جدید ترین ڈیٹا میں بھی انسانی درجہ حرارت کم ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ دوم 1960ء سے لے کر اب تک کے ڈیٹا میں بھی درجہ حرارت میں کمی دیکھی گئی ہے، اور جب 1960ء کے تھرما میٹروں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا وہ بالکل درست ہیں۔
جولی اور ان کے ساتھیوں کے مطابق اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اول دوا، ویکسین اور اینٹی بایوٹکس سے ہمارے امنیاتی نظام پر فرق پڑا ہے۔ ہمیں اندرونی سوزش کم کم ہوتی ہے اور یوں جسمانی درجہ حرارت بھی کم ہورہا ہے۔
اس تحقیق پر دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سروے دیگر ممالک میں بھی ہونا چاہیے جس سے صورتِ حال مزید واضح ہوسکے گی۔
کریلا کینسر سے بچانے میں مفید
میسوری کی سینٹ لوئی یونیورسٹی کی پروفیسر رتنا رے اور ان کے ساتھیوں نے کریلے کے مفردات (ایکسٹریکٹس) کشید کرکے انہیں کینسر کے مریض چوہوں پر آزمایا تو ان میں سرطان کا پھیلاؤ سست پڑا اور رسولیوں کی افزائش بھی بہت کم ہوگئی۔
اس طرح کڑوے کریلے کا ایک طبی فائدہ سامنے آیا ہے جو کینسر کے علاج میں مدد دے سکتا ہے۔ اس کے بعد پروفیسر رتنا نے چھاتی، پروسٹیٹ، سر اور گردن کے کینسر کے خلیات حاصل کیے اور ان میں کریلے کے اجزا شامل کیے تو سرطانی خلیات کی تقسیم بند ہوگئی اور سرطان کا پھیلاؤ بہت حد تک رک گیا۔
بلاک چین ٹیکنالوجی، ’’مستقبل کا انٹرنیٹ‘‘۔
۔’’چائنیز گوگل‘‘ کے نام سے شہرت رکھنے والے سرچ انجن ’’بیدو‘‘ (Baidu) نے ’’سوپرچین‘‘ (Xuperchain) کے نام سے آزمائشی بلاک چین سروس شروع کردی ہے جو فی الحال صرف کاروباری اور تجارتی اداروں کے لیے ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ بلاک چین ٹیکنالوجی کا کام صرف کرپٹو کرنسی (بٹ کوائن وغیرہ) تیار کرنا ہے۔ اس کے برعکس، زیادہ درست بات یہ ہے کہ بلاک چین ٹیکنالوجی کو ’’مستقبل کا انٹرنیٹ‘‘ قرار دیا جارہا ہے جس کے ذریعے نہ صرف ڈیٹا کو شفاف انداز میں انٹرنیٹ پر رکھا جاسکے گا بلکہ یہ ڈیٹا (بلاک چین ٹیکنالوجی ہی کی بدولت) ہیکرز کی دست برد سے محفوظ بھی رہے گا۔
غرضیکہ ایسی آن لائن سروسز جن میں سیکورٹی سے متعلق معاملات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں، ان سب میں بلاک چین ٹیکنالوجی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرسکے گی۔ مشرقِ وسطیٰ کے کچھ ممالک میں جائداد کی رجسٹریشن سے لے کر صحت کی عوامی سہولیات تک، تقریباً ہر طرح کی خدمات کو بلاک چین کی مدد سے محفوظ تر، تیز تر اور پہلے سے کہیں زیادہ مؤثر بنایا جارہا ہے، جس سے توانائی اور کاغذ کی بھی بڑے پیمانے پر بچت ہورہی ہے۔
ایک ارب افراد سر کے درد میں مبتلا
پاکستان نیورو سائنسز نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب افراد سر کے درد میں مبتلا ہیں جبکہ پاکستان میں ساڑھے 4کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔
جدید تحقیق کے مطابق سر درد (میگرین)کی شکایت کی بنیادی وجوہات میں نااہل اور نالائق افراد کا پروفیشنلز پر حاوی ہونا ہے۔ سر کا درد واحد مرض ہے جس کا کوئی پیمانہ نہیں جس سے اس کو جانچا یا کنٹرول کیا جاسکے۔ معالجین کی ہدایت ہے کہ فیملی فزیشن سے مشورے کے بعد ماہر نیورو سائنسز سے رجوع کیا جائے، ایسی تمام محافل اورافراد کو نظرانداز کیا جائے جو جھوٹے اور من گھڑت اندازوں پر معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بن رہے ہیں۔