مقبوضہ کشمیر میں بھارتی محاصرے کو پانچ ماہ ہوچکے ہیں۔ مخصوص علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کی پابندیوں اور اوقات میں کچھ نرمی تو کی گئی ہے مگر پانچ اگست کو تانا گیا آہنی پردہ سروں پر موجود ہے اورکشمیری سماج آزاد فضا میں سانس لینے پر قادرنہیں۔ اعلیٰ ترین سیاسی قیادت اور دوسری، تیسری صف کے سیاسی کارکن، سول سوسائٹی اور بار ایسوسی ایشن کے سرگرم ارکان سمیت ہزاروں افراد اور نوجوان جیلوں میں بند ہیں۔ فوجی جمائو اور دبائو بھی پوری قوت سے موجود ہے۔ طاقت کے بل پر حریت پسند کیمپ کو پوری طرح خاموش اور ویران کردیا گیا ہے۔ تین مقبول اور بارسوخ حریت پسند راہنمائوں میں سید علی گیلانی علالت کی حالت میں نظربند ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق بھی نظربند ہیں اور ان کا سیاسی مرکز جامع مسجد سری نگر خاردار تاروں کے پیچھے محصور ہے، اور اس تاریخی مسجد کے در و دیوار نمازیوں کی دید کو ترس رہے ہیں۔ یاسین ملک شدید علیل اور گھر سے بہت دور دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔ یاسین ملک ایک مقدمۂ قتل کا سامنا بھی کررہے ہیں اور یہ خدشات موجود ہیں کہ بھارتی حکام اور نظامِ عدل انہیں مقبول بٹ اور افضل گورو بناکر دم لیں گے۔ دوسری طرف بھارت نواز دو بڑی جماعتوں کی قیادت فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی نظربند ہیں۔ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی والدہ کا ٹویٹر استعمال کرکے مودی حکومت پر تابڑ توڑ حملے کررہی تھیں، مگر مودی حکومت کی نازک مزاجی ان بے ضرر ٹویٹس کی تاب نہ لاسکی اور التجا مفتی کو بھی نظربند کردیا گیا۔ اس طرح بھارتی حکومت نے وادیِ کشمیر میں ہر قسم کی سیاست کو مقید و محصور کرکے طاقت کا ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ کشمیر کے معاملات کو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلایا جارہا ہے، مگر اس نظام میں عوامی شرکت کا تڑکا لگانا بھارت کی ضرورت اور مجبوری ہے، کیونکہ ابھی تک بھارت خود کو سیکولر اور جمہوریت قرار دئیے ہوئے ہے۔ اس دعوے کو تقویت دینے کے لیے کشمیر میں مقامی سول اور سیاسی چہروں کو آگے لانا مجبوری ہے۔ اب چونکہ جموں وکشمیر کا درجہ ریاست سے کم کرکے یونین ٹیریٹری کا کردیا گیا ہے، اس لیے نئے نظام کے زیراثر نئی سیاسی پنیری لگانا بھی ناگزیر ہے۔ سیاست اور طاقت کے خلا کو طول دے کر بھارت عوام کے اندر ایک نئی جمہوریت اور نظام کی خواہش کی تڑپ پیدا کرنا چاہتا ہے۔
کشمیری عوام ابھی تک ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ سول نافرمانی کا انداز اپناکر گھروں میں محصور ہیں، اور جبر کے موجودہ فیز اور دور کو عبوری سمجھ کر حالات کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ بھارت اپنے پیدا کردہ خلا کو پُر کرنے کے لیے دہلی کی سیاسی لیبارٹری میں کیمیائی تعاملات کے نئے تجربات کررہا ہے۔ ماضی کے نظام کی جگہ لینے کے لیے محبوبہ مفتی کے ایک منحرف سیاسی ساتھی الطاف بخاری کو تیار کرنے کے آثار بہت نمایاں اور واضح ہیں۔ الطاف بخاری سابق وزیر بھی ہیں اور وہ یونین ٹیریٹری قرار پانے کے بعد تشکیل پانے والے متوقع نظام میں اپنا کردار ادا کرنے پر تیار بھی نظر آتے ہیں۔ اُن کے ساتھ جانے پہچانے اور سرگرم سیاسی کارکنوں کی ایک پوری کھیپ بھی ہے جن کا تعلق پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس سے ہے۔ الطاف بخاری وادی کے پہلے سیاست دان ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقات کررہے ہیں، اور اس ملاقات میں گورنر کو میمورنڈم بھی پیش کیا جائے گا جس میں ریاست کی بحالی، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور زمین کے حقوق کے تحفظ جیسے مطالبات شامل ہوں گے۔ اس بات کو ان سیاسی راہنمائوں میں سے ایک کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے کہ ہمیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بنائے گئے نظام کے اندر ہی لڑنا ہے، اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ یوں پانچ اگست کے بعد مودی کے تشکیل دئیے گئے نئے منظر میں نئے اور پرانے چہرے خلا کو پُر کرنے کو تیار ہیں۔ یہ نیا نظام اپنے سیاسی مخالفین اور حریت پسند بھی نئے پیدا کرے گا۔ اس طرح حریت پسند کیمپ بھی تازہ دم اور نئے چہروں کے ساتھ مزاحمت کے لیے میدان میں اُترے گا، اور یوں کشمیر کے وہ عام لوگ جو حالات کا خاموشی سے مشاہدہ کررہے ہیں اس نئے حریت پسند کیمپ سے راہنمائی کے طالب ہوں گے۔
بھارت طاقت اور وسائل کے بل بوتے پر ایک نیا سیاسی منظر تو تخلیق کرلے گا، مگر وہ کشمیریوں کے اندر سے خوئے بغاوت اور مزاحمت ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ بھارت اس قدر عجلت میں ہے کہ پانچ اگست کا فیصلہ کشمیر کے نصاب کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ یوں وہ کمیونسٹ سوویت یونین کی طرز پر انسانوں کے نام پر ’’روبوٹس‘‘ کا ایک معاشرہ تخلیق کرنا چاہتا ہے جن کی سوچ، ثقافت، تہذیب، رہن سہن سب ہندوتوا کے طرز پر ہو۔ مگرآج کی وسط ایشیائی ریاستوں کا وجود اور وہاں ماضی کے مٹتے ہوئے آثار بھارت کی پالیسی کی ناکامی کا پتا دے رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یشونت سنہا کا ایک جملہ ہے۔ بھارت کے سابق وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہنما یشونت سنہا مودی حکومت کی کشمیر پالیسی کے کڑے ناقد ہیں۔ اُن کا مؤقف ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر میں جابرانہ پالیسیاں اختیار کرکے حقیقت میں بے چینی کے ایک اور دور کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یشونت سنہا نے جامعہ ملیہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کو بھارت جیسا بنایا جائے گا، لیکن پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھارت ہی کشمیر جیسا بن گیا ہے جبکہ کشمیر ویسے کا ویسا ہی ہے۔ جب ہم دہلی میں گھومتے ہیں تو ہمیں کشمیر جیسا تاثر ملتا ہے، کیونکہ ہر جگہ پولیس اور سیکورٹی فورسز کا ناکہ لگا رہتا ہے۔‘‘