گزشتہ کالم (3 تا 9جنوری) میں ہم نے استادِ محترم اور ماہرِ لسانیات غازی علم الدین کے مضمون کے عنوان کے حوالے سے ’’اہمال‘‘ کا مطلب معلوم کیا تھا اور اپنے طور پر اس کا مطلب نکال لیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ازراہِ مہربانی ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ یہ ’مہمل‘ سے ہے۔ یہ سامنے کی بات تھی جو ہمارے سامنے نہیں آئی، حالانکہ ان کی تحریر کے اقتباس میں بھی یہ واضح ہے کہ ’’علاوہ کو ذومعنی، مہمل اور مبہم بنادیے جانے…‘‘ یعنی اہمال کا مطلب ہے مُہمَل بنانا۔ اس میں پہلے میم پر پیش اور دوسرے پر زبر ہے۔ ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں تجزیہ نگاروں کے ہجوم میں ایک خاتون محمل نام کی ہیں، لیکن پروگرام کی میزبان خاتون اُن کے نام کا تلفظ ادا کرتے ہوئے دوسرے میم پر بھی زبر رکھ دیتی ہیں یعنی ’’محمَل‘‘۔ غنیمت ہے کہ مہمل نہیں کہا جاتا۔ محمل میں تیسرا حرف بالکسر ہے۔ نام تو اچھا ہے لیکن اس کا مطلب ہے اونٹ کا ہودہ، کجاوا۔ سواریوں کے آرام کے لیے اونٹ کی کمر پر ہودہ یا جھولا رکھ دیا جاتا ہے۔ کسی خاتون کا یہ نام دلچسپ ہے۔ ایسے نام والی خاتون نجانے کس کے اونٹ پر رکھی ہوئی ہیں۔ ویسے محمل کا مطلب کسی معنی کے صادق آنے کی جگہ۔ اس کے مذکر، مؤنث ہونے پر اختلاف ہے، لیکن اکثریت مذکر کے ساتھ ہے۔ غالب کا شعر ہے
جب بتقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرے پر اک دل باندھا
افسانوں اور شاعری میں محمل کے ساتھ لیلیٰ کا ذکر آتا ہے جیسے یہ اسی کے لیے بنا ہو۔ بطور مؤنث ناصر کا شعر ہے
قیس کا ہے یہ بگولے پہ گماں
میری لیلیٰ کی یہ محمل ہوگی
لیکن بات ہورہی تھی مہمل کی، جس کی بغل میں سے ’اہمال‘ نکلا ہے۔ مہمل کا مطلب تو سب کو معلوم ہی ہے یعنی بے کار، بے معنی، بے ہودہ، لغو۔ عربی کا لفظ ہے۔ ہم جب بھی یہ بے ہودہ لفظ پڑھتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ’’ہودہ‘‘ بھی کچھ ہوگا جس کی نفی ’بے‘ لگاکر بنائی گئی ہے۔ بے ہودہ فارسی کا لفظ ہے اور ہود کا مطلب ہے فائدہ، حق۔ لفظی معنیٰ غیر منفعت، ناحق ہونا۔ بے ہودہ صفت ہے ناحق، باطل، لغو، واہیات، خرافات وغیرہ۔ بے ہودہ پھرنا آوارہ پھرنا، مارا مارا پھرنا۔ ایسے ہی بے وقوف ہے، لیکن وقوف کا مطلب تو آگہی ہے۔
جس طرح محمل کی جنس کا تعین نہیں ہوسکا کہ مذکر ہے یا مؤنث، اسی طرح اور بھی کئی الفاظ ہیں جن میں دہلی اور لکھنؤ میں اختلاف ہے۔ اب تک اردو میں یہی دو دبستان معتبر سمجھے جاتے رہے ہیں، لیکن دکن اس پر خاموش ہے، حالانکہ اسے اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ولی دکنی کا مولد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ عظیم آباد (پٹنہ) کو بھی اپنی زبان دانی پر ناز ہے۔ تاہم اب یہ سکّہ بند دبستان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ عجیب بات ہے کہ جو معروف معنیٰ میں اہلِ زبان نہیں سمجھے جاتے وہ اردو زبان کو سیدھے راستے پر رکھنے میں سرگرم ہیں۔ اور مبینہ لسان شناس تشنہ بریلوی کہیں کہ علاوہ کو ہم جیسے چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ علاوہ کے غلط استعمال پر جناب تشنہ بریلوی کا کہنا ہے کہ ’’جب علم روشن خیالی کا دشمن ہوجائے، تو پھر اردو کے لیے کیا امید رکھی جاسکتی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک شعر بھی لکھا
اردو ترا وجود تو خطرے میں پڑ گیا
گردن پہ ہیں سوار یہ پیرانِ تسمہ پا
اردو کا وجود ایسے لوگوں سے خطرے میں ہے جو اپنی غلطیوں کو سند قرار دیتے ہیں اور اصلاح قبول نہیں کرتے کہ وہ اہلِ زبان ہیں۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ’’علم روشن خیالی کا دشمن‘‘ کیسے ہوسکتا ہے، دونوں میں دشمنی کا سبب کیا ہوسکتا ہے، اور کیا روشن خیالی بے علم یا علم دشمنوں کی میراث ہے؟ عجیب بات ہے صاحب!
ایک بہت بڑے عالم اور ادیب جناب مفتی منیب الرحمٰن سے اپنے ایک کالم میں علامہ اقبالؒ کا شعر نقل کرنے میں کچھ الفاظ چھوٹ گئے، جس پر ’’ماہرِ لسانیات‘‘ جناب ظفر اقبال نے پکڑ کی ہے۔ مفتی منیب نے تو اُن کا شکریہ ادا کرکے انہیں محسن قرار دیا ہے لیکن اپنے ایک دوست کے حوالے سے لکھا ہے ’’ان کا دال دلیا ہماری غلطیوں سے چلتا ہے‘‘۔ دال دلیا ظفر اقبال کے کالموں کا مستقل عنوان ہے۔ ظفر اقبال کو ماہرِ لسانیات قرار دینا محلِ نظر ہے کیونکہ وہ ایک نئی زبان کے موجد ہیں۔ جہاں تک دال دلیا کا تعلق ہے تو ہمارا یہ کالم بھی دوسروں کی غلطیاں پکڑنے ہی سے بھرا جاتا ہے۔
مذکر، مؤنث میں ہم آج بھی غوطہ کھا جاتے ہیں، مثلاً ایک جید عالم نے اپنے کالم میں تکرار کو مذکر باندھا ہے۔ ہم آج تک اسے مؤنث سمجھتے رہے۔ ان صاحب کا جملہ ہے ’’باتوں کا تکرار‘‘۔ اُن سے سہو ہوا ہے کیونکہ تکرار عربی کا لفظ اور مؤنث ہے۔ اس کا مادہ ’’کرر‘‘ ہے۔ اقبال کا شعر ہے
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اسی طرح ایک استاد کا شعر ہے
میں بٹھاتا ہوں وہ اٹھتے ہیں کہ اپنے گھر کو جائیں
میرے ان کے ہوتی ہے تکرار اٹھتے بیٹھتے
استاد جلال کا مصرع ہے ’’ناحق کی شب وصل یہ تکرار نکالی‘‘۔ ہمیں اعتراف ہے کہ کئی الفاظ ہم غلط بولتے رہے ہیں، مثلاً ہم ’’نکڑ‘‘ کو مذکر کہتے اور لکھتے رہے لیکن لغت میں یہ مؤنث ہے ’’گلی کی نکڑ‘‘۔
علم کو روشن خیالی کا دشمن قرار دینے پر ایک تازہ لطیفہ یہ ہے کہ منجھے ہوئے سیاست دان جو خود بھی صحافی اور ایک اخبار کے مدیر رہ چکے ہیں، جناب مشاہد حسین… پیر 6 جنوری کو ایک ٹی وی چینل پر حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے ’’امریکہ نے بھَیڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے‘‘۔ اسے روشن خیالی کہیں یا علم دوستی؟ ہم حیران ہیں کہ ایک روشن خیال شخص یہ کیا کہہ رہا ہے! بھیڑ (بھ پر زبر) تو بڑا معصوم جانور ہے اور اس کی بھیڑ چال مشہور ہے۔ اس نے کب سے چھتہ بنانا شروع کردیا! لگتا ہے انہیں کبھی کسی بھڑ نے نہیں کاٹا، حالانکہ ان کے علاقے میں تو جہاں پانی ہو وہاں اس کا منڈلانا لازمی ہے۔
محترم ظفر اقبال کے برخوردار آفتاب اقبال ایک دلچسپ پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔ اس مزاحیہ پروگرام میں وہ اردو کی خبر بھی لے ڈالتے ہیں اور ان کی وجہ سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے پچھلے ایک پروگرام میں ڈاکو کو ڈاک سے ملادیا اور اس کی تاویل بھی پیش کی کہ کوئی ڈاک بابو رقم لے کر فرار ہوگیا تو لوگوں نے اسے ڈاکو کہنا شروع کردیا۔ ہمارے خیال میں ان سے تسامح ہوا ہے۔ ڈاک اور ڈاکو میں کوئی معنوی ربط نہیں۔ ڈاک گوکہ انگریزی میں بھی مستعمل ہے(DALK)۔ لیکن اس کی اصل ہندی ہے اور ڈاکا اور ڈاکو بھی ہندی الاصل ہیں۔ ڈاک خبر بھیجنے کے انتظام کو کہتے ہیں، مگر خط کتابت اب ختم ہوتی جارہی ہے اور ڈاک خانے سُونے پڑے ہیں۔ خبر اور خط وغیرہ بھیجنے کے نظام کے علاوہ بھی ڈاک کے اور کئی معانی ہیں،تاہم ان کا تعلق خبر لانے، لے جانے ہی سے ہے۔ پہلے ڈاک کے لیے گھوڑوں کی چوکی کا انتظام ہوتا تھا تاکہ خبر رسانی کا سلسلہ جاری رہے۔
بہت جلدی لیے جاتے ہیں کیوں میرے جنازے کو
مسافر ڈاک میں جاتا ہے کیا شہرِ خموشاں کا
ڈاک لگنا کا مطلب ہے ’’قے، جو پیہم بغیر قصد کے آتی ہو‘‘۔ کسی چیز کا مسلسل آنا، جیسے بہادر شاہ ظفر کا شعر
مرے اشکوں کی ڈاک اے بے خبر بہتیری آتی ہے
تسلی ہو نہ ہو دل کی خبر بہتیری آتی ہے
ڈاک بٹھانے کا مطلب ہے قاصد پر قاصد روانہ کرنا۔
اب کا تو پتا نہیں لیکن کبھی ڈاک بنگلے بھی ہوتے تھے جو سرکاری مسافر خانے ہوتے تھے اور عموماً افسران ٹھیرتے تھے۔ اب شاید یہ ریسٹ ہائوس کہلاتے ہیں۔ تیز رفتار آدمی کو بھی کنایتہً ڈاک کا گھوڑا کہہ دیا جاتا تھا۔ اب ڈاک کا گھوڑا موبائل، واٹس ایپ وغیرہ پر دوڑتا ہے جو ہمارے قابو میں نہیں ہے۔ دوسری طرف ڈاکو ڈاکا سے ہے۔ ڈاکو وہ جو غارت گری کے لیے کسی کے گھر میں کود پڑیں۔ اب ڈاکو اس کا تکلف کم ہی کرتے ہیں، سرِراہ کام دکھا جاتے ہیں۔ ڈاکا پہلے ’ڈانکا‘ تھا لیکن اب بول چال میں ڈاکا ہی ہے۔ ایک شاعر کا مصرع ہے ’’سحرؔ شہرِ خموشاں میں بھی اب پڑنے لگا ڈانکا‘‘۔ ظاہر ہے کہ ڈاکو لٹیرے کو کہتے ہیں لیکن اس کا تعلق ڈاک سے نہیں ہے۔