کیا تبدیلی کا فائدہ عوام کو ہوگا؟ ۔
خیبر پختون خوا کابینہ میں وسیع پیمانے پر رد و بدل اور توسیع کرتے ہوئے اہم وزراء کے قلمدان تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ صوبائی کابینہ میں4 وزراء، ایک مشیر اور ایک معاون خصوصی کے محکمے تبدیل، جبکہ 2 نئے وزراء، ایک مشیر اور 8 معاونینِ خصوصی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ کابینہ میں نئے اضلاع چترال، دیر، ہنگوکے علاوہ تاریخ میں پہلی دفعہ قبائلی اضلاع سے بھی منتخب ایم پی ایز کوکابینہ میں نمائندگی دی گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے کابینہ ونگ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی کو وزیر صحت، ڈاکٹر ہشام انعام اللہ سے محکمہ صحت لے کر محکمہ سوشل ویلفیئر، ڈاکٹر امجد سے معدنیات لے کر محکمہ ہائوسنگ، اور اکبر ایوب سے سی اینڈ ڈبلیو لے کر ابتدائی و ثانوی تعلیم کا محکمہ دیا گیا ہے۔ کابینہ میں شمالی وزیرستان سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی اقبال وزیر کو بحالی و آبادکاری کا محکمہ دیاگیا ہے، جبکہ معاونِ خصوصی شاہ محمد کو ٹرانسپورٹ کا محکمہ دے کر مکمل وزیر بنادیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق ایک مشیر کا اضافہ کرتے ہوئے خلیق الرحمٰن کو وزیراعلیٰ کا مشیر برائے اعلیٰ تعلیم بنایا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم ضیاء اللہ بنگش سے تعلیم کا محکمہ لے کر انفارمیشن ٹیکنالوجی، جبکہ وزیراعلیٰ کے معاونِ خصوصی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کامران بنگش کو بلدیات کا محکمہ دیا گیا ہے۔ 8 نئے معاونینِ خصوصی کو شامل کرتے ہوئے اورکزئی سے منتخب غزن جمال کو معاونِ خصوصی برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، ہنگو سے ظہور شاکر کو معاونِ خصوصی برائے اوقاف و مذہبی امور، چارسدہ سے عارف احمدزئی کو معاونِ خصوصی برائے معدنیات، ریاض خان کو معاونِ خصوصی برائے پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، دیر پائین سے شفیع اللہ خان کو معاونِ خصوصی برائے اینٹی کرپشن کمپلینٹ سیل و پراونشل انسپکشن ٹیم، تاج محمد ترند کو معاونِ خصوصی برائے جیل خانہ جات، مانسہرہ سے احمد حسین شاہ کو معاونِ خصوصی برائے پاپولیشن ویلفیئر، اور چترال سے اقلیتی رکن اسمبلی وزیر زادہ کو معاونِ خصوصی برائے اقلیتی امور کے محکموں کے قلمدان دیئے گئے ہیں۔
خیبر پختون خوا کابینہ میں توسیع کے بعد کابینہ کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 تک پہنچ گئی ہے جس میں وزیراعلیٰ سمیت صوبائی وزراء کی تعداد15، مشیروں کی تعداد 5، اور معاونینِ خصوصی کی تعداد9 ہے، جبکہ آئینی طور پر کابینہ میں مزید ایک وزیر رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ذرائع کے مطابق حکومتی خواتین ایم پی ایزکے مابین وزارت کے حصول میں اختلافات کے پیش نظر کسی بھی خاتون کو وزارت نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے مبصرین بھی حیرت کا اظہار کررہے ہیں، کیونکہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت عمومی طور پر تو معاشرے اور سیاست میں خواتین کے فعال کردار کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن اس حوالے سے ان کی اصلیت کا اندازہ کابینہ میں ڈیڑھ سال بعد ہونے والی توسیع کے باوجود خواتین کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ صوبائی کابینہ میں توسیع کے بعد خزانے کو ماہانہ لاکھوں روپے کے اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑیںگے۔ کابینہ میں شامل2 وزراء، ایک مشیر اور 8 معاونینِ خصوصی شامل کرنے کے بعد ان کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اضافہ کیا جائے گا، جبکہ سرکاری اخراجات پر انہیں سرکاری گاڑیاں بھی دی جائیںگی، جب کہ علیحدہ دفاتر اور اسٹاف اس پر مستزاد ہوں گے۔
دوسری جانب عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کابینہ میں ردوبدل اور توسیع پر بعض وزراء اور مشیروں نے بھی نجی محفلوں میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان نے محکمہ صحت اور تعلیم کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا، اور ان وزارتوں کے وزراء کی تبدیلی کے پیچھے یہی عوامل کارفرما ہیں، جبکہ چند ماہ قبل وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں گورنر ہائوس میں صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں محکموں کی کارکردگی پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے تھے اور اُس وقت وزیراعظم نے کارکردگی نہ دکھانے والے وزراء کو کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی۔ ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ کو ہدایت کی تھی کہ وزراء کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جائے، اور کارکردگی بہتر نہ کرنے پر وزراء کے قلمدان تبدیل کیے جائیں۔
دریں اثناء آبادی، رقبے اور سیاسی اہمیت کے لحاظ سے ایک اہم قبائلی ضلع خیبر کے عوام نے علاقے سے پانچ ایم پی ایز ہونے کے باوجود صوبائی کابینہ میں نظرانداز کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خیبر کے عوام نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضلع خیبر میں اقلیتی ایم پی اے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوچکے ہیں، ایک آزاد رکن نے غیر مشروط طور پر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی ہے، جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے تین ایم پی ایز بھی حکومتی اتحادی ہیں، تاہم ضلع خیبر سے ایک رکن کو بھی صوبائی کابینہ میں نمائندگی نہیں دی گئی جس سے لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ کے عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے اور عوام جاننا چاہتے ہیں کہ ضلع خیبر کو صوبائی کابینہ میں کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ ضلع خیبر کے عوام نے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا اور وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ ضلع خیبر کے ارکان کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی دی جائے تاکہ ان کی مایوسی کا تدارک ہوسکے۔ اسی دوران صحت کے اہم محکمے سے فارغ کرکے سماجی بہبود کے نسبتاً چھوٹے اور کم اہم محکمے کے وزیر بنائے جانے والے ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے وزارتوں میں حالیہ ردوبدل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاست میں وزارت کے لیے نہیں آئے بلکہ انہوں نے عوام کی خدمت کے لیے سیاست کے میدان میں قدم رکھاہے، انہوں نے کہا کہ وہ تحریک انصاف کے ایک ادنیٰ کارکن اور عمران خان کے سپاہی ہیں، وہ جو فیصلہ کریں گے وہ انہیں قابلِ قبول ہوگا۔یاد رہے کہ ڈاکٹر ہشام اللہ کے ہٹائے جانے کو محکمہ صحت کے ملازمین اپنی کامیاب ہڑتال اور اپنے مؤقف کی کامیابی کی دلیل قرار دے رہے ہیں۔
صوبائی کابینہ میں توسیع اور رد وبدل کے بعد 2018ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے گڑھ سمجھے جانے والے ضلع دیر بالا اور پائین میں کلین سوئپ کے باوجود ان اضلا ع کو چونکہ ترقیاتی کاموں میں مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے، اس لیے اب یہاں پی ٹی آئی کی صفوں میں اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پارٹی کے بانی اراکین اور ناراض کارکنوں نے ریسٹ ہائوس تیمرگرہ میں ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا ہے جس سے پارٹی کے کئی سرکردہ راہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے دیر لوئر سے پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ارکان اسمبلی اپنوں کو نواز رہے ہیں جبکہ حقیقی ورکرز کو نظرانداز کیا جارہا ہے، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ محکمہ صحت میں بندر بانٹ کے ذریعے اسامیاں تقسیم کی گئیں جبکہ پی پی پی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسر، اور ایم پی اے کے قریبی شخص کو ضلعی زکوٰۃ آفیسر مقرر کیا گیاہے جو دیرینہ ورکرز کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ارکانِ اسمبلی اپنا قبلہ درست کریں ورنہ احتجاجی تحریک کا سلسلہ شروع کرکے ورکرز کا حق چھین کرلیں گے۔
صوبائی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل کے بارے میں ایک عمومی سوال یہ بھی ہے کہ آیا اس تبدیلی کا فائدہ عام آبادی کو کیا ہوگا؟ کیا پارٹی کے چند ارکان کو اعلیٰ عہدوں سے نوازنے سے عام لوگوں کے روزمرہ مسائل میں کچھ کمی واقع ہوسکے گی؟ اسی طرح پشاور اور اس کے گرد ونواح میں سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کا بحران مزید شدید ہوگیا ہے، جبکہ سی این جی اسٹیشنوں پر بھی گیس کا تعطل پیدا ہوگیا ہے، جس کے باعث شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ شہریوں کے مطابق ماہانہ ہزاروں روپے کے اضافی بل بھیجنے کے باوجود بھی گزشتہ چند ہفتوں سے شہر میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس میں کھانا پکانے کے اوقات میںگیس کی لوڈشیڈنگ مزید بڑھ جاتی ہے، اور نتیجتاً شہریوں کو گیس کے متبادل کے طور پر دیگر ذرائع استعمال کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
گورننس کی ناکامی کی ان واضح مثالوں کے ساتھ ساتھ اگر صوبائی حکومت کی میرٹ، شفافیت اور قابلیت کی بنیاد پر تعیناتیوں کے جھوٹے دعووں کو دیکھنا ہو تو اس کے لیے یہ ایک مثال کافی ہے جس میں وڈ پگہ کالج پشاور کے پی ٹی آئی کے ایک چہیتے اسسٹنٹ پروفیسر کی جانب سے محکمہ تعلیم کو ایبٹ آباد یا مردان کے تعلیمی بورڈز میں سے کسی ایک بورڈ میں کنٹرولر یا ڈپٹی کنٹرولر کے عہدوں پر تعیناتی کے لیے ایک سفارشی خط پیش کیا گیا ہے جس پر سابق مشیر آئی ٹی کامران خان بنگش، سیکریٹری اسکولز خیبر پختون خوا، سابق وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی، مشیر انڈسٹریز عبدالکریم خان، سابق مشیر تعلیم ضیاء اللہ بنگش اور پارلیمنٹری سیکریٹری منسٹری آف انٹیریئر اسلام آباد شوکت علی سمیت کئی دوسری اہم شخصیات کے سفارشی دستخط موجود ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے اس خط کے بارے میں یہ سوال زبان زدِ عام ہے کہ ایک خودمختار ادارے میں تعیناتی کا ایک قانونی عمل موجود ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے وزراء اور دیگر ارکانِ اسمبلی کی جانب سے قواعد وضوابط اور اپنے ہی طے کردہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک سرکاری ملازم کو سیاسی بنیادوں پر تعیناتی کے لیے سفارشی خط جاری کرنا کیا پی ٹی آئی کے دعووں اور نعروں سے کھلا انحراف نہیں ہے؟ اگر عملاً ایسا ہی ہے تو پھر اپنے ان دعووں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنانے کی کیا تُک ہے؟ یہ وہ تلخ سوال ہے جس پر پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔