حافظ ساجدانور
محترم قاضی حسین احمدؒ ایک عظیم انسان اور بہترین مربی تھے۔ مجھے آصف لقمان بھائی کی اس بات سے اتفاق ہے جو انھوں نے قاضیؒ کے جنازے کے موقع پر کہی تھی کہ ’’مجھے اندازہ نہیں ہو رہا کہ میں آپ سے تعزیت کروں یا آپ مجھ سے تعزیت کریں گے، کیونکہ قاضی صاحب مرحوم جتنے ہمارے تھے، اتنے ہی آپ سب کے بھی تھے۔‘‘
واقعتاً آغا جان کی رحلت سے میرا احساس یہی ہے کہ جتنا بڑا صدمہ مجھے سہنا پڑا شاید اتنی قلبی کیفیت کسی اور کی متاثر نہ ہوئی ہو۔ قاضی حسین احمدؒ نے 6جنوری2013ء کوداعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس فانی دنیا سے رحلت فرما گئے۔
محترم قاضی حسین احمدؒ کی شخصیت محتاج ِتعارف نہیں ہے۔ آپ عالم اسلام کی عظیم شخصیت تھے۔ محترم قاضی حسین احمدؒ کے محاسن بے شمار ہیں، ان پر لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ میری نظر میں محترم قاضی حسین احمدؒ اپنے دور کی دینی و سیاسی شخصیات میں وہ واحد شخصیت تھے جو ظاہر و باطن میں فرق نہیں رکھتے تھے۔ محترم قاضی حسین احمد ؒاُجلے کردار کے مالک، کھرے اور بے داغ انسان تھے۔
افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں محترم قاضیؒ صاحب کا بہت بڑا حصہ تھا۔ ایک ایسے دور میں جب مختلف عالمی اداروں کا افغانستان کی طرف رخ تھا، محترم قاضی صاحب جہاد جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی اور مجاہدین کی رہنمائی فرماتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی مادیت سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔
محترم قاضی صاحب ایک باوقار انسان تھے۔ شرافت اور مروت کے قائل محترم قاضی صاحب نہ صرف دینی حلقوں کے لیے قابلِ قبول تھے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی قاضی صاحب کی شخصیت مرجع تھی۔ یہی وجہ تھی کہ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل نگران وزیراعظم کے لیے مسلم لیگ نواز کی طرف سے جو نام پیش کیے گئے ان میں ایک نام محترم قاضی حسین احمدؒ کا بھی تھا۔
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل محترم قاضی حسین احمد ؒ کی تعزیت کے حوالے سے اُس وقت کے امیر جماعت محترم سید منور حسن حفظہ اللہ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے تو انھوں نے گفتگو کے دوران اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’قاضی حسین احمدؒ ہمارے لیے گھر کے بزرگوں کی طرح تھے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔‘‘
قاضی صاحب مرحوم نے جماعت اسلامی کی امارت عرصہ 22 سال تک کی۔ اسی عرصہ امارت کے دوران محترم قاضی صاحب نے انتہائی اَن تھک اور پُرآشوب دور میں جدوجہد کی۔ جہادِ افغانستان، جہادِ کشمیر، ملک میں اسلامی اقدار کے تحفظ اور بقا کی جدوجہد قاضی صاحب محترم نے ایک طویل عرصے تک جاری رکھی۔ بنگلہ دیش نامنظور تحریک، تحریک ختم نبوت اور 1977ء کی نظام مصطفیٰ تحریک میں جماعت اپنے پورے وقار اور قدو قامت کے ساتھ شریک تھی۔ امارت کے اس طویل عرصے کے دوران کئی مرتبہ انتہائی کٹھن مراحل سامنے آئے لیکن قاضی صاحب محترم کے پایۂ استقلال میں کبھی تزلزل نہ آیا۔ مرحوم اپنی کھری اور سچی بات کا اظہار ببانگ دہل کرتے تھے اور پھر اسی پر ڈٹ جاتے تھے۔
میں قاضی صاحب مرحوم کے حوالے سے جب یادوں کے جھروکوں میں جھانکتا ہوں تو نظر آتا ہے، پاکستان میں تحزب و تعصب کی فضا موجود تھی، لوگ ایک دوسرے کے خلاف تکفیر و تفسیق کے فتوے لگاتے تھے۔
جمعیت طلبہ عربیہ سے وابستگی اور تعلق کی بنا پر دینی مدارس اور دینی طبقات کے مابین انتشار و افتراق کی اس کیفیت کو میں سمجھ سکتا ہوں۔ قاضی صاحب مرحوم نے اس دور میں بھی بین المسالک قرب کے راستے تلاش کیے۔ محترم قاضی صاحب مرحوم کی رحلت کے بعد دفاعِ پاکستان کونسل کی ایک سربراہی میٹنگ منعقدہ منصورہ میں اہلسنت و الجماعت پاکستان (سابقہ سپاہ صحابہ) کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی حفظہ اللہ نے قاضی مرحوم کے حوالے سے اپنے نیک جذبات اور ان کی رحلت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور بتایا کہ قاضی مرحوم واقعتاً مختلف مسالک کے مابین ایک پل کا کردار ادا کرتے تھے۔ میری نگاہوں میں فوراً وہ منظر گھوم رہا تھا جب محترم قاضی صاحب مرحوم نے مولانا اعظم طارق شہید کے جنازے میں شرکت کی تو سپاہ صحابہ کے بعض مشتعل کارکنان کی طرف سے محترم قاضی صاحب مرحوم پر حملے کیے گئے اور بمشکل انھیں بحفاظت وہاں سے لے جایا گیا۔ قاضی صاحب مرحوم کی شخصیت آفاقی تھی۔ ترکی میں نجم الدین اربکان قاضی صاحب مرحوم کو اپنا ساتھی، اور اُن کے شاگرد قاضی صاحب محترم کو اپنا قائد قرار دیتے تھے۔
اخوانُ المسلمون مصر اور مجاہدینِ حماس انھیں امام قاضی کہہ کر پکارتے تھے۔ تیونس کے راشد الغنوشی قاضی مرحوم سے رہنمائی لیتے تھے۔ ایران کے علما و عوام قاضی صاحب مرحوم کے فارسی میں خطاب کے لیے ہمہ تن گوش ہوتے تھے۔
افغانستان کے گلبدین حکمت یار ہوں یا برہان الدین ربانیؒ، احمد شاہ مسعود ہوں یا عبدالرسول سیاف، سب کے لیے قاضی صاحب مرحوم محترم اور بڑے تھے۔ اپنی رحلت سے کچھ عرصہ قبل قاضی صاحب مرحوم پر ایک پروگرام کے لیے مہمند ایجنسی جاتے وقت خودکش حملہ کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ قاضی صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے حفاظت سے رکھا۔ مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ افغان طالبان کے ایک اہم اور سپریم لیڈر نے قاضی صاحب مرحوم سے اظہار ہمدردی کے لیے ایک قاصد بھیجا۔
قاضی صاحب مرحوم نے ان کی بات غور سے سنی اور اس کے بعد فرمایا کہ میں افغان طالبان اور ان کے لیڈر کی طرف سے اس طرح دکھ اور غم کا اظہار قبول نہیں کرتا بلکہ آپ کو اعلانیہ میڈیا میں اس کی مذمت کرنی چاہیے تاکہ جو لوگ اسے پاکستانی طالبان کا اقدام قرار دیتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
قاضی صاحب مرحوم کی رحلت کے بعد افغان طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی طرف سے تعزیتی بیان بھی جاری ہوا جس میں انھوں نے قاضی صاحب مرحوم کی رحلت کو امتِ مسلمہ کا عظیم نقصان قرار دیا۔
آغا جان محترم کے حوالے سے یادوں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ ان کی رحلت کی اطلاع ملنے کے بعد پشاور جنازے کے لیے میں اور برادرم عبدالغفار عزیز ڈائریکٹر شعبہ اُمور خارجہ اکٹھے گئے۔ راستے میں عبدالغفار عزیز کی آنکھوں سے بھی مسلسل آنسو رواں تھے اور میں بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پارہا تھا۔ محترم عبدالغفار عزیز کو ایک SMS موصول ہوا اور انھوں نے مجھے دکھایا۔ کسی بھیجنے والے نے لکھا تھا:۔
’’آج جنت میں کیا حسین منظر ہوگا۔ محترم قاضی حسین احمدؒ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، میاں طفیلؒ، پروفیسر عبدالغفور احمدؒ اور خرم مرادؒ و دیگر اکابرین کے ساتھ موجود ہوں گے اور پس منظر میں شہدائے افغانستان و کشمیر قاضی صاحب مرحوم کا استقبال کررہے ہوں گے۔